دین کی سمجھ ملنے کی چار علامتیں۔۔۔۔مولانا رضوان اللہ پشاوری

حق تعالیٰ جسے خیرِ کثیر کی یہ عظیم الشان نعمت یعنی دین کی سمجھ سے نوازتاہے، تو علماءِ محققین نے اس کی چار علامتیں بیان فرمائی ہیں،وہ جس میں پائی جائیں توسمجھ لو کہ اسے دین کی سمجھ نصیب ہوگئی، گویا علماء اور فقہاء وہ ہیں جن میں چار صفات و علامات موجود ہوں،ملا علی قاری ؒ نے مرقاۃ شرحِ مشکوٰۃ میں نقل فرمایا:
146146اَلزَّاھِدُ فِیْ الدُّنْیَا، الرَّاغِبُ فِیْ الْاٰخِرَۃِ، الْبَصِیْرُ بِأَمْرِ دِیْنِہ، الْمُدَاوِمُ عَلیٰ عِبَادَۃِ رَبِّہ‘‘ (مرقاۃالمفاتیح)
پہلی علامت :
دنیا میں زہد و قناعت یعنی حلال اور جائز کوشش سے بقدرِ ضرورت جو کچھ مل جائے اس پر راضی رہے ،مزید دنیا کی رغبت نہ رکھے ،یا دنیا کو ضرورت کے درجہ میں رکھے ، مقصد نہ بنائے ، کہ دنیا ہاتھ میں تو ہو، دل میں نہ ہو، اور دنیا میں ایسے رہے جیسے کشتی پانی میں، خود دنیا میں ر ہے ، لیکن دنیا کو اپنے دل میں ہرگز نہ رکھے ، یہ حال تھا حضرات صحابہؓ اور صلحاء ؒ کا، حتیٰ کہ ان میں بعض کا حال تو یہ تھاکہ دنیا اپنی ساری دولت و زینت سمیت ان کے قدموں میں آئی، مگر وہ اس کی طرف دل سے متوجہ نہ ہوئے ، ان کی شان بڑی نرالی تھی۔

ایک حیرت انگیز واقعہ :
حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت سعید بن عامرؓ کو حمص کا امیر (گورنر) بنایا، ایک عرصہ کے بعد اہلِ حمص حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،ان سے حضرت عمرؓ نے فرمایا: اپنے علاقے کے فقراء اور ضرورت مندوں کے نام لکھ کر دو، تا کہ ہم ان کی مدد کر سکیں، انہوں نے فقراءِ حمص کی فہرست پیش کی، تو ان میں ایک نام حضرت سعید بن عامرؓ کا بھی تھا، حضرت عمرؓ نے از راہِ تعجب دریافت کیا: یہ سعید بن عامرؓ کون ہیں؟ کہا: ہمارا امیر، پوچھا: تمہارا امیر فقیر ہے؟کہا: جی ہاں، اللہ قسم !کئی کئی دن گذر جاتے ہیں، مگر ان کے گھر میں آگ تک نہیں جلتی،حضرت عمرؓ یہ سن کر رونے لگے ،اور آنے والے وفد کے ساتھ ایک ہزار دینار ان کے لیے بھیجے ،جب وہ دینار ان کو ملے ، تو ایک دم اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھنے لگے ،بیوی نے کہا:کیا بات ہے ؟ امیر المومنین انتقال کر گئے ؟ کہا: معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے ،کہ دنیا میرے پاس آنے لگی،فتنہ میرے پاس آنے لگا، مجھ پر چھانے لگا ۔بیوی نے کہا:اس کا حل موجود ہے ، کہ راہِ الٰہی میں تقسیم کر دیجئے ۔ چنانچہ اسی وقت ساری رقم مستحقین میں تقسیم کر دی گئی۔(اسد الغابۃ/ کتابوں کی درسگاہ میں)
تفقہ فی الدین کے سبب واقعی یہ حضرات زاہد فی الدنیا تھے ،آج ہم راغب فی الدنیا ہیں۔ مولاناانعام الحسن ؒ فرماتے تھے : ضروریاتِ زندگی میں کم ازکم پر گذر کرنا زہد فی الدنیاہے ،اور ضروریات کو بالکل ترک کر دینا رہبانیت ہے (اسلام میں اس کی ممانعت ہے ) اور اسی میں پورا مشغول ہو جانا حبِ دنیا ہے ۔
تو زہد فی الدنیا مطلوب ہے ،ترکِ دنیاممنوع ہے او رحبِ دنیا مذموم ہے ، اور دل میں جب تک اللہ تعالیٰ کی محبت اہل اللہ کی صحبت وغیرہ کی برکت سے پیدا نہ ہوجائے وہاں تک دنیا کی محبت نکل نہیں سکتی، پھرجب زہد فی الدنیا کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے تو اس کے بعد خود بخود ساری توجہات آخر ت کی طرف مبذول ہو جاتی ہیں ۔

دوسری علامت :
دین کی سمجھ ملنے کے بعد جب دنیا کی دناء ت و حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے ،تو پھر ساری خواہشیں اور رغبتیں آخرت کے لیے ہو جاتی ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی رغبت آخرت کی طرف کرنے کے لیے کبھی فرماتے : اَللّٰہُمَّ لاَ عَیْشَ اِلاَّ عَیْشُ الْاٰخِرَۃِ حقیقی عیش تو آخرت کا ہی ہے ۔کبھی فرماتے :اَللّٰہُمَّ لَاخَیْرَ اِلاَّ خَیْرُ الْاٰخِرَۃِ اے اللہ! حقیقی خیر و بھلائی تو آخرت کی خیر و بھلائی ہے ۔
ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہؓ کو درخت لگا تے ہوئے دیکھ کر فرمایا: ایسا درخت نہ بتاؤں جو لگانے کے قابل ہے !عرض کیا: ضرور ! تب فرمایا: وہ جنت کا درخت ہے ،جس کا طریقہ یہ ہے کہ 146146سبحان اللہ145145 کہنا جنت میں درخت لگانا ہے ،146146الحمد للہ145145 کہنا جنت میں درخت لگانا ہے ،146146 لا الہ الا اللہ145145 کہنا جنت میں درخت لگانا ہے ،146146اللہ اکبر 145145کہنا جنت میں درخت لگانا ہے (ابن ماجہ )

آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہتے تھے کہ امت کی ساری رغبت آخرت کی طرف ہو جائے ، تاکہ دنیا کے فتنہ سے بچ جائے ،اور جسے دین کی سمجھ ملتی ہے اس کی دوسری علامت یہی ہے کہ اس کی رغبتیں آخرت کی طرف ہو جاتی ہیں، دنیا سے کوئی خاص دل چسپی نہیں رہتی۔چنانچہ حضرت ربیع بن خراش ؒ ایک جلیل القدر تابعی ہیں، ان کے بارے میں منقول ہے کہ آپؒ نے ایک مرتبہ قسم کھالی کہ جب تک مجھے آخرت میں اپنا مقام معلوم نہ ہو جائے ہرگز نہ ہنسوں گا پھر واقعی ساری زندگی کبھی نہ ہنسے،اللہ جل شانہ کی شان دیکھئے ! وفات کے بعد لوگوں نے ان کو ہنستے ہوئے دیکھا۔(تراشے)
زہد فی الدنیا اور رغبت فی الآخرۃ پیدا کرنے کے لیے مراقبۂ موت،موت کی یاد اور اس کا استحضار نہایت ہی نافع عمل ہے ۔

تیسری علامت :
حق تعالیٰ جسے دین کی سمجھ دیتے ہیں اسے دینی امور کی بصیرت و مہارت عطا فرماتے ہیں، سادہ لفظوں میںیوں کہیے کہ اسے دین کا علم عطا فرماتے ہیں،اور جسے دین کا علم مل گیا اسے بہت بڑی دولت مل گئی،لیکن یاد رکھو !دین کا علم قرآن و حدیث کا ترجمہ اور الفاظ رٹ لینے کا نام نہیں ہے ،بلکہ قرآن و حدیث کو صحیح سمجھنا علم ہے،اب جسے جتنا زیادہ قرآن و حدیث کا علم ہوگا اسے اتنی زیادہ دینی امور کی بصیرت و مہارت نصیب ہوگی،چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے علماءِ دین و فقہاءِ مجتہدین کو علمِ کتاب و سنت کی برکت سے عجیب و غریب بصیرت عطا فرمائی تھی، وہ ایک ایک آیتِ قرآنیہ و حدیثِ نبوی سے کئی کئی مسائل سمجھ لیتے تھے ، آج ہمارا یہ حال ہے کہ پورا قرآن شریف اور بخاری شریف پڑھ کر بھی مسائل سمجھ میں نہیں آتے ، جب کہ ہمارے علماء و فقہاء کا کیا حال تھا ؟ سنئے :

ایک عبرت ناک واقعہ :
امام شافعیؒ امام مالک ؒ کے مایۂ ناز شاگرد ہیں،ایک مرتبہ جب مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تو استاذِمحترم نے ان کی دعوت کردی ،بہت مدت میں لائے ہو تشریف خوش تو ہیں آپ کے مزاج شریف۔امام مالکؒ نے گھر والوں سے کہا کہ آج بہت بڑے عالم اور فقیہ کی دعوت ہمارے یہاں ہے ،لہٰذا خصوصی طور پر اہتمام کیا جائے،چنانچہ گھر میں کھانے کا بڑا اہتمام کیاگیا، ان کے آرام کے لیے بستر لگایا، نماز کے لیے وضو کے پانی کا لوٹا بھر کر رکھا،مصلیٰ بچھایا،جب امام شافعی ؒ دعوت کے لیے تشریف لائے تو خوب کھایا،حتیٰ کہ جتنا تھا سب ختم کردیا،پھر رات بھر لیٹے رہے ، نہ وضو کیا، نہ نماز پڑھی،صبح میں گھر والوں نے امام مالک ؒ سے کہا: حضرت !آپ تو کہہ رہے تھے کہ آنے والے مہمان بڑے عالم،امام اور فقیہ ہیں،لیکن ہمیں تو ان کے طرزِ عمل سے ایسا نہیں لگا،بلکہ اشکال واقع ہوا،اوّل تو ہم نے جتنا کھانا بھیجا تھاوہ ایک سے زیادہ افرادکے لیے کافی تھا، آپ کے مہمان اور شاگرد نے تو اتنا کھایا کہ برتن بالکل صاف ہو کر واپس آئے ، ہمیں تو دھونے کی بھی ضرورت پیش نہ آئی، دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے ان کی آرام گاہ پر پانی کا برتن اور مصلیٰ بچھاکر رکھا تھاکہ علم والے اور اللہ والے تہجد گزار ہوتے ہیں،لہٰذا انہیں تہجد کے وقت کوئی دقت پیش نہ آئے ،لیکن جیسا مصلیٰ بچھایا تھا صبح کو ویسا ہی رکھا ملا، اور پانی بھی جو ں کا توں تھا، لگتا ہے کہ تہجد کی نماز بھی نہیں پڑھی،اور پھر مسجد میں تو وضو کا انتظام بھی نہیں،لوگ گھروں سے وضو کرکے جاتے ہیں (اس زمانے کا عمومی حال اور رواج یہی تھا) اور یہ آپ کے مہمان اور شاگرد اسی طرح آپ کے ساتھ اٹھ کر مسجد چلے گئے ،پتہ نہیں انہوں نے نماز کیسے پڑھی؟ امام مالک ؒ کی بیٹیاں اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگیں: ابو! مہمان کا معاملہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، امام مالک ؒ نے اپنے شاگردِ رشید حضرت امام شافعی ؒ سے بچیوں کا اعتراض نقل کرکے فرمایا: محمد بن ادریس ! کیا واقعی تمہارا حال ایسا ہی ہو گیا جیسے سمجھا گیا؟اس پر امام شافعی ؒ نے بڑے ادب سے عرض کیا: حضرت ! بات یہ ہے کہ جب آپ نے کھانا پیش کیا تو اس پاکیزہ اور بابرکت کھانے میں میں نے بہت ہی زیادہ نور کے اثرات محسوس کیے ،تو سوچا کہ ممکن ہے اتنا حلال مال اور پر نور کھانا زندگی میں پھر میسر ہونہ ہو،آج موقع ہے کہ سارا کھانا کھاکر اسے جزوِ بدن بنالوں !اس لیے میں نے سارا کھا نا ختم کر دیا، فرماتے ہیں کہ پھر میں لیٹ گیا،لیکن اس کھانے کا اتنا اثر ہوا کہ نیند غائب،کیوں کہ نورانی اور پاکیزہ کھانا تھا،اس کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ میں لیٹے لیٹے احادیثِ نبویہ میں سے ایک حدیث شریف میں غور کرتا رہا،جس میں حضورِ پر نور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک چھوٹے بچے حضرت انسؓ کے بھائی کو جس کا پرندہ مر گیا تھاپیار سے فرمایا تھا کہ یَا أَبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ النُّغَیْر! (متفق علیہ) حضرت! حدیث کے ان چند الفاظ میں آج کی رات غور کرتا رہا،تو الحمد للہ! فقہ کے چالیس مسائل اخذ کر لیے ، کہ کنیت کیسی ہونی چاہیے ؟بچوں سے اندازِ تخاطب کیسا ہونا چاہیے ؟بچہ کے دل کی ملاطفت کے لیے کیسے بات کرنی چاہیے ؟وغیرہ وغیرہ۔پھر فرمایا: حضرت! چونکہ حدیث پاک میں غور و فکر اور مسائل کا اخذ کرنے سے سونے کی نوبت ہی نہیں آئی،لہٰذامیرا وضو باقی تھا، اس لیے نئے وضو کی ضرورت نہ پڑی، الحمدللہ !میں نے عشاء کے وضوسے فجر کی نماز پڑھی۔ (بکھرے موتی)
شیخ الاسلام علامہ محمدتقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں:حدیث کے اس ایک جملہ سے حضراتِ فقہاء نے ایک سو دس فقہی مسائل نکالے ہیں،اور ایک محدث نے اس ایک حدیث کی تشریح اوراس سے نکلنے والے احکام پرمستقل کتاب لکھی ہے ۔ (اصلاحی خطبات)
بہر حال! حق تعالیٰ جب کسی کودین کی سمجھ دیتے ہیں تو اس کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ اسے من جانب اللہ دینی امور میں بصیرت اور مہارت نصیب ہوتی ہے ،اور وہ دین کے اہم احکام و مسائل چٹکیوں میں حل کر لیتا اور سمجھ لیتاہے ، اسے کوئی دشواری نہیں ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

چوتھی علامت :
اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت پر مداومت اور پابندی ہے ،بلا شبہ عبادت واطاعت بڑی خوبی اور نیکی کی بات ہے ،لیکن کمال یہ ہے کہ اطاعت الٰہی کی پابندی اور عبادت پر استقامت نصیب ہو جائے ،حق تعالیٰ کو وہی عبادت اور عمل پسند ہے جس پر مداومت اور پابندی کی جائے ، یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ حضرت تھانوی ؒ نے فرمایاکہ جسے دو چیزیں نصیب ہو جائیں وہ صاحبِ نسبت ہے :(1) دوامِ اطاعت (2) ذکر اللہ کی کثرت۔پھر نسبت مع اللہ حاصل ہونے کے بعدعموماً غفلت دور ہو جاتی ہے ،جس کا لازمی نتیجہ گناہوں سے حفاظت ہے ،اللہ تعالیٰ یہ نعمت ہم سب کونصیب فرمائے(آمین)
جَزَی اللّٰہُ عَنَّا مُحَمَّداً صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا ہُوَ أَہْلُہ۔

Facebook Comments

مولانا رضوان اللہ پشاوری
مدرس جامعہ علوم القرآن پشاور ناظم سہ ماہی ’’المنار‘‘جامعہ علوم القرآن پشاور انچارج شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ علوم القرآن پشاور

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply