خواتین کے عالمی دن کا مختلف زاویہ ۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

“خواتین کی حالت کی تبدیلی صرف اُس صورت میں ممکن ہے جب سماج، خاندان اور خواتین کے خاندانی وجود کی تمام شرائط کو تبدیل کر دیا جائے”. لیون ٹراٹسکی 

آٹھ مارچ (خواتین کا عالمی دن)  یقیناً دنیا بھر میں خواتین سمیت طلباء، وکلاء، میڈیا، دانشوروں اور سیاستدانوں کی توجہ حاصل کر چکا ہے. اِس دن کی مناسبت سے قومی و بین الاقوامی اخبارات اور جریدوں میں خصوصی تحریریں دیکھنے کو ملی ہیں، ساتھ ہی کئی محفلیں، نشستیں اور کانفرنسیں بھی دیکھنے و سننے کو ملی ہیں. مگر بدقسمتی سے چند ایک مقامات کے علاوہ فضول، لایعنی اور یوٹوپیائی باتوں کے سوا کوئی کام کی علمی و عملی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی.

یقیناً لبرل دانش اِس وقت اندھیرے میں تیر چلا رہی ہے. اِن کے پاس موجودہ نظام کے تحت خواتین کے استحصال کے سدباب کا بیانیہ تو دُور کی بات ہے، یہ لوگ اِس کی مختلف شکلیں اور اِس کی وجوہات بیان کرنا بھی ممکن نہیں ہے. کیا لبرل دانشور یہ بات بتانے کی جرات رکھتے ہیں کہ عالمی سطح پر سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے خواتین اور نوجوانوں پر کیا خصوصی شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

آج کی سرمایہ دار دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں پیداواری رشتے مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں. سرمایہ داروں نے منافع کی شرح بنانے کیلئے بچوں سمیت خواتین کی بڑی تعداد کو کام پہ لگایا ہوا ہے کیونکہ سرمایہ دار اپنے ملازم بچوں اور خواتین کو مردوں کی نسبت کم اجرت پہ ملازم رکھتے ہیں. جبکہ خواتین کے حقوق کی لبرل تحریکوں نے صرف اِس کو اپنی کامیابیوں میں شمار کر لیا ہے. ہمارا پاکستانی لبرل طبقہ یہ بات بتاتے ہوئے اِتراتا ہے کہ امریکہ میں پچھلے تیس سالوں میں چار کروڑ خواتین کو ملازمتوں پہ رکھا گیا ہے، لیکن آخر لبرل طبقہ یہ بات کیوں نہیں کرتا کہ امریکہ میں خواتین مزدوروں کو مرد مزدوروں کے مقابلے میں 22 فیصد سے 28 فیصد تک کم اجرت دی جاتی ہے.

اصل واقعہ اور واردات یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام عورتوں کو محض سستی لیبر کے ایک آسان ذریعہ کے طور پر دیکھتا ہے. علاوہ ازیں سرمایہ دار خواتین کو آسان مزدور سمجھتے ہیں کہ جب ضرورت ہو کام پہ بلا لیا، اور جب ضرورت ختم ہوئی ملازمت سے فارغ کر دیا. بیشک سرمایہ دارانہ نظام کے تحت رواں ممالک میں خواتین کو سیاسی اور سماجی سطح پر ہمارے پاکستانی سماج کی نسبت زیادہ آزادیاں حاصل ہیں لیکن وہاں اُن کے استحصال کی نوعیت بھی یکسر مختلف ہے.

سرمایہ درانہ نظام کے بہی خواہ لبرل دانشوروں سے سوال ہے کہ آخر دنیا کے پانج “عظیم الشان لبرل ممالک” میں “وومن ورلڈ” اور “گرل پاور” کے عظیم الشان نعروں کے باوجود وہاں خواتین آج بھی استحصال زدہ طبقہ کیوں ہیں؟ حالانکہ وہاں مساوات کی “ضمانت” دی جاتی ہے.

خواتین کی آزادی کے حوالے سے مارکسی تناظر فقط ایک فقرے میں ہی بیان کیا جا سکتا ہے کہ “معاشی آزادی کے بغیر عورت کی ہمہ قسمی آزادی کا بیانیہ ایک خواب کے سوا کچھ بھی نہیں.” یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مارکسیوں کی عظیم بالشویک پارٹی نے ہمیشہ طبقاتی جدوجہد کو خواتین میں سنجیدگی کے ساتھ شروع کیا تھا.

یہ محض ایک حادثہ نہیں ہے کہ روس کا انقلاب خواتین کے عالمی دن آٹھ مارچ کو شروع ہوا جب حکومت نے عالمی دن منانے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کی تھیں.

بالشویک پارٹی نے 1913ء سے باقاعدہ طور پر خواتین کا عالمی دن منانا شروع کیا تھا اور اُسی برس ہی انقلابی اخبار پرادھون Pravda نے ایک صفحہ خواتین کے لیے مختص کیا تھا. جبکہ 1914ء میں خواتین مزدوروں کیلئے الگ سے ماہانہ جریدہ Rabotnitsa کے نام سے شروع کیا تھا.

زار کے روس میں خواتین قانونی طور پر اپنے خاوندوں کی غلام تھیں. زار کے قانونی الفاظ کے مطابق “عورت اپنے شوہر کی خاندان کے سربراہ کے طور پر اطاعت کی پابند ہے، تمام گھریلو کام کرنے، محبت دینے، احترام کرنے، لامحدود اطاعت میں رہنے کی ہرصورت میں پابند ہے”.

لیکن 1917ء کے انقلاب کے بعد بالشویک پارٹی نے اعلامیہ جاری کیا کہ:

“ہم خواتین کی مساوات کی رسمی باتوں سے خود کو نہیں جوڑیں گے. ہم خواتین کو مادی بندھنوں سے آزاد کروانا چاہتے ہیں. خواتین کو گھریلو کام کاج میں مسلسل ملوث رکھ کر آبادی کے تقریباً نصف حصے کو غیرپیداواری بنانے کی بجائے عوامی دسترخوانوں، بچوں کی نگہداشت کیلئے مرکزی نرسریوں اور مرکزی دھوبی گھاٹ وغیرہ جیسے پروگرام شروع کیے جارہے ہیں”.

سوویت روس میں نجی ملکیت کے خاتمے اور گھریلو کام کاج کی بھاری بندشوں کے خاتمے کے بعد مرد اور عورت کے مابین تعمیر ہونے والا رشتہ فطری تھا اور عورت کی حقیقی آزادی ممکن ہوئی تھی. عورتوں کو مردوں کے ساتھ مجبوراً رہنے پہ مجبور نہیں کیا جا رہا تھا کیونکہ عورت معاشی طور پہ مرد کی غلام نہیں رہی تھی.

سوویت روس میں عورت کے فطری اعمال پہ بھی خصوصی توجہ دی گئی تھی. حمل کے دوران سخت کاموں سے فرصت، رات کی ڈیوٹی سے فراغت اور زچگی کے دوران چھٹی جیسے قوانین متعارف کروائے گئے تھے. ماؤں کیلئے “فیملی آلاؤئنس” اور بچوں کی بہترین نگہداشت کیلئے ریاستی چائلڈ کیئر سنٹرز کے پروگرامات کے اجراء سے خواتین روایتی سماجی بلیک میلنگ سے محفوظ رہتے ہوئے مکمل آزاد ہو چکی تھیں.

1920ء میں اسقاط حمل کو قانونی حیثیت دی گئی، طلاق کو آسان کر دیا گیا اور شادی کی سول رجسٹریشن کا قانون ترتیب دیکر خواتین کو مزید سہولیات فراہم کی گئی تھیں. ساتھ ہی ناجائز یا حرامی بچوں کے “ظالمانہ رواجوں” کا قانونی خاتمہ ممکن کر دیا گیا. کامریڈ ولادی میر لینن کے الفاظ میں:

“ہم مردوں کے مقابل خواتین کی کمتر حیثیت کی بنیاد بننے والے کسی بھی رواج یا قانون کو کسی صورت بھی باقی نہیں رہنے دیں گے”.

مارکسسٹ عدم مساوات، ظلم، امتیاز اور ناانصافی کے تمام توضیحات کے خلاف عورتوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں لیکن ہماری یہ کوشش طبقاتی جدوجہد کے تناظر میں ہے. کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کے دیگر تمام مظلوم طبقات کی طرح عورتوں کے خلاف استحصال کے خاتمے کا واحد راستہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہے.

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو اپنی آزادی کی جنگ کو طبقاتی جنگ کے ساتھ جوڑنا ہو گا. اِس کیلئے  سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں مرد مزدوروں اور خواتین مزدوروں کے اتحاد کی ضرورت ہے.

کوئی بھی ایسا رجحان جو مردوں کے خلاف خواتین کو استعمال کرتا ہے، یا “خواتین کی آزادی” یا کسی دوسرے نعرے کے تحت مزدور تحریک کے باقی حصوں سے خواتین کو علیحدہ کرنے کی سازش کرتا ہے، مارکس وادی ایسے رجحان کا مقابلہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

مارکس وادی نسل، رنگ، مذہب یا قومیت سمیت جنسی تفریق سے قطع نظر پرولتاریہ کے مقدس اتحاد کے لئے لڑ رہے ہیں. لہذا ہم سرمایہ داروں کی فیمینزم کی تحریک کی شدید مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ایسے رجحانات کُلی انسانیت کی طبقاتی جدوجہد میں جنسی تفریق پیدا کرکے اپنا الّو سیدھا کرتے رہتے ہیں

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply