ضلع کرک کے سب سے بڑے ہسپتال ڈی ایچ کیو میں حال ہی میں تعینات ہونیوالی معروف سرجن لیڈی ڈاکٹر صوفیہ سجادنے گائنی جیسے حساس ترین آپریشن تھیٹر کی ذمہ داریاں درجہ چہارم ملازمین کے سپرد کرنیکی ویڈیو سامنے آنے پر پی ٹی آئی کو مقامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہاہے سامنے آنیوالی ویڈیومیں دیکھاجاسکتاہے کہ لیڈی ڈاکٹر نے آپریشن کے بعد مریضہ کو سٹیچز لگانے اوردوسرے اُمورنمٹانے کیلئے خاتون مریضہ کو آپریشن تھیٹراٹینڈنٹ راؤف نامی ملازم کے ذمہ چھوڑدیاہے جسکی ویڈیو بناکرہسپتال کے نامعلوم اہلکاروں نے لیک کردی ‘ ویڈیو کا سیکنڈل سامنے آنے سے لیکرآج تک محکمہ صحت حکام معاملے پرتاحال میڈیا کو آن دی ریکارڈ موقف دینے سے انکاری ہیں کیونکہ بعض بااثرشخصیات ویڈیو سیکنڈل کا معاملہ سرکاری طورپر چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔۔
لیکن محکمہ صحت ذرائع کاکہناہے کہ لیڈی سرجن ڈاکٹر صوفیہ سجاد پی ٹی آئی کے ضلعی صدراور ضلعی نائب ناظم سجادبارکوال کی بیوی ہیں جوکہ وویمن اینڈچلڈرن ہسپتال میں تعیناتی کے دوران خیبرپختون خوا کی سابقہ حکومت میں کئی انکوائریوں کا سامنا کرچکی ہیں مگر کسی بھی انکوائری میں سزا وار ثابت نہ ہونا تبدیلی حکومت کے کردار پر سوالیہ نشان ہے ؟صوفیہ سجاد نامی لیڈی ڈاکٹر کی ڈی ایچ کیومیں تعیناتی اورڈی ایچ او ڈاکٹررسول جان کے تبادلے پرمحکمہ صحت کے ذمہ دارحکام اور سینئرڈاکٹرزدوگروپوں میں تقسیم ہوچکے ہیں جوکہ ایک دوسرے کو بدنام کرنے ‘ انکوائریوں میں پھنسانے سمیت ایک دوسرے کو نیچادیکھانے کیلئے مختلف اقسام کے خربے استعمال کرنے کیلئے دوبارہ فعال ہوچکے ہیں ۔
ذرائع کاکہناہے کہ سینئرڈاکٹر اور محکمہ صحت کے ملازمین پر مبنی ایک گروپ کو پی ٹی آئی کے چند بااثر مقامی رہنما ؤں کی حمایت حاصل ہے جوکہ محکمہ صحت میں تعینات اپنے من پسند ملازمین کیخلاف انکوائریوں پر مسلسل اثراندازہورہے ہیں جبکہ دوسرے گروپ میں شامل سینئرڈاکٹرز اور محکمہ صحت ملازمین پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے مخالف ہیں اورڈی ایچ او ڈاکٹررسول جان سمیت دیگر اہم ملازمین کے ضلع کرک سے تبادلے بھی پی ٹی آئی کی مخالفت کا شاخسانہ بتایاجارہاہے۔
ذرائع کے مطابق سامنے آنیوالی ویڈیو سیکنڈل بھی مذکورہ گروپ بندی کے شکار ڈاکٹر وملازمین میں سے کسی پی ٹی آئی مخالف گروپ کی پلاننگ کا حصہ بتایاجارہا ہے جس کو پی ٹی آئی کی حامی گروپ چھپانے کی کوششیں کررہے ہیں اور مخالف گروپ میں شامل سرکاری ملازمین نے ویڈیو کو وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بنائے گئے سٹیزن پورٹل تک پہنچاچکے ہیں ۔ذرائع کے مطابق محکمہ صحت ملازم وڈاکٹرز گذشتہ کئی سال سے گروپ بندی کا شکارہوچکے ہیں دونوں گروپوں کے مابین باہمی اختلافات کیوجہ سے گذشتہ تین سالوں کے دوران ڈی ایچ کیو میں کئی بڑے تنازعات سامنے آچکے ہیں جن میں بیشتراوقات محکمہ صحت ملازمین ملوث پائے جاچکے ہیں لیکن تین سال میں سامنے آنیوالے چھوٹے بڑے تمام تنازعات کی شفاف انکوائری ممکن ہوئی اور نہ تنازعات میں ملوث افراد کو منظرعام پرلایاجاسکا جبکہ تنازعات کا سبب بننے والے ملازمین کیخلاف کارروائی تک بھی نہ ہوسکی جسکی وجہ سے مقامی سطح پر محکمہ صحت ملازمین میں’’ سیاسی بدمعاشی ‘‘کے رجحان میں اضافہ ہوچکاہے۔
گذشتہ تین سال میں ہونیوالے اہم تنازعات میں سابق ایم ایس ڈاکٹرخلجی پر ڈاکٹروں کے تشدد‘ڈاکٹرکی جانب سے مریضوں کی گالیاں دینا‘نان کوالیفائیڈٹکنیشنز کی تعیناتیاں‘کلاس فورزملازمین کے خالی 78آسامیوں پر178افراد کی تعیناتیاں‘سینئرڈاکٹروں کے مابین گروپ بندیاں‘ایم ایس کا سرکاری دفتر مبینہ طورپر غیراخلاقی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے سمیت دیگر تنازعات شامل ہیں ان تمام تنازعات میں ملوث ملازمین کیخلاف انکوائریاں ہوچکی ہیں مگر تمام تنازعات کے انکوائریوں کو سیاسی اثرورسوخ کے بنیاد پر’’مٹی پاؤ‘‘ فارمولے کے تخت چھپائے جاچکے ہیں جسکی وجہ سے وفتاً فوقتاً وہی پرانے تنازعات دوبارہ نئے تنازعہ کوجنم دینے کی بنیاد بن رہی ہیں جس میں سے بعض تنازعات کے ویڈیو بھی لیک ہوچکی ہیں اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے تشدد کا شکارہونیوالے سابق ایم ایس ڈاکٹربشیرالدین خلجی ہی انکوائری کے سربراہ ہیں۔
ذرائع کے مطابق گائنی وارڈ میں تعینات واحد لیڈی ٹکنیشن مسماۃ (س) کا تبادلہ گذشتہ صوبائی حکومت نے ضلع بنوں کے ایک مقامی ہسپتال میں کیا جاچکاہے جسکی وجہ سے گائنی آپریشن تھیٹر میں کوئی بھی لیڈی ٹکنیشن موجودنہیں جو لیڈی ڈاکٹروں کیساتھ زنانہ مریضوں کے آپریشنز میں کام کرسکیں اس لئے مردکلاس فورزملازمین سے زنانہ آپریشن تھیٹر میں کام لینے کا سلسلہ مدتوں سے جاری ہے مگروزیر اعلیٰ خیبرپختون خوا کے دورے سے قبل آپریشن کی ویڈیو بنانے اور لیک کرانے کے عمل نے کئی سوالات جنم لیے ہیں جس روز صوفیہ سجادنامی ڈاکٹر12خواتین مریضوں کے آپریشن کئے جوکہ ٹیک نیشن کے بغیر ممکن ہی نہیں ؟اور ویڈیو سیکنڈل سے تبدیلی کے چھ سالہ کارکردگی کا راز بھی فاش ہوچکاہے اسلئے محکمہ صحت حکام کی جانب سے ویڈیوسکینڈل کی تحقیقات کرنے کیلئے دو علیحدہ علیحدہ ٹیمیں تشکیل دیدی ہیں جو کہ دو اہم سوالات کے جوابات تلاش کرنیکی کوششوں میں مصروف ہیں کہ آپریشن تھیٹرکے حدودمیں موبائل کے استعمال پرپابندی کے باوجود ویڈیو بنانے والا شخص کون اور کس طرح آپریشن تھیٹرکی ویڈیو بنانے میں کامیاب ہوا ؟
اس لئے ویڈیو میں دیکھائی دینے والے دیگر سرکاری ملازمین کے بیانات بھی قلمبندکئے جائیں گے تاکہ واقعے کی باریک بینی سے تحقیقات ممکن ہوسکیں ذرائع کے مطابق سرکاری حکام کو اب تک موصول ہونیوالی معلومات کے مطابق نجی کالج سے ڈی ایچ کیو میں ہاؤس جاب کیلئے آنیوالے کوئی طالب علم پی ٹی آئی مخالف گروپ نے ورغلا پھسلا کر ویڈیو ریکارڈ کرنے کیلئے استعمال کیاہے اور سوشل میڈیا پر وائرل کرنے ملک سے باہر رہائش پذیر ضلع کرک کے کسی باشندے کی خدمات حاصل کیں ہیں‘ حالانکہ وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا محمودخان دورہ کرک کے موقع پر ضلعی سیکرٹریٹ میں لائن ڈیپارٹمنٹ سے بریفینگ لینے کے بعد ہسپتال کا جائزہ لینے کیلئے ڈی ایچ کیو کے ایمرجنسی میں گئے ہیں جہاں ملازمین سے بذات خود ہسپتال کے بارے میں پوچھ گچھ کی اورورکنگ فوکس گرائمرسکول میں شمولیتی تقریب سے خطاب کے موقع پر یہ اعتراف کرکے چلے گئے کہ معلوم نہیں کہ سابق صوبائی حکومت کی جانب سے لگائے گئے ڈاکٹرز کہاں ہیں جس کے دوروز بعد ویڈیو سیکنڈل کا نوٹس لیکر راؤف نامی ملازم کو ملازمت سے برطرف کرکے واقعے کی انکوائری کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں ۔
’’نوٹ: تحریری وتحقیقی مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ‘‘۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں