ماہرِ نفسیات نے اپنے چہرے پر حیرت کے تاثرات کو مزید گہرا کیا اور سامنے بیٹھے مشہورِ زمانہ ادیب و شاعر، عالمگیر شناس، کو سوال داغا۔۔۔۔
تو آپ کی بیوی نے آپ پر چھری سے حملہ کرنے کی کوشش کیوں کی؟ کیا وہ کوئی انتقام لینا چاہتی تھیں؟ اور کیسے ان کا پاؤں پھسلا کہ وہ خود اپنی چھری پر چھاتی کے بل گرتے ہوئے اس جہانِ فانی کو خیر باد کہہ گئیں؟
عالمگیر شناس نے میز کے کونے پر پڑے کاغذ سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا کہ، ہماری تخلیقات میں ہماری بیوی کا حصہ صرف ایک چوتھائی ہے، وہ بھی زیادہ سے زیادہ محرّک کی حیثیت سے۔ گویا کہ اصلی سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے عالمگیر شناس اپنے خیالات کے تسلسل کو باآوازِ بلند کہتے پائے گئے۔
اس وقت شناس صاحب شدید ذہنی کرب سے گزر رہے تھے کہ تیسری بیوی کی اچانک موت نے ان کے حواس پہ گہرا اثر ڈالا تھا، واقعہ کے روز پولیس نے عالمگیر شناس پہ شک کرتے ہوئے گرفتار کیا، اگرچہ بعد کی تحقیقات سے یہ بات ثابت نہ ہو پائی، مگر شناس صاحب ابھی تک زیرِ حراست تھے، تفتیش کے دوران ان کے غیر مناسب رویّے نے کئی سوالات کو جنم دیا، چونکہ شناس صاحب معروف اور تعلق دار آدمی تھے، اس لئے انہیں کسی قسم کے ریمانڈ کی بجائے ماہرِ نفسیات کے پاس بھیجا گیا کہ شاید معاملہ سلجھ سکے، اور شناس صاحب صدمے پہ قابو پاتے ہوئے حقیقی واقعے پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔
ماہرِ نفسیات نے شناس صاحب کے ذہنی جھکاؤ کو دیکھتے ہوئے ان کی تخلیقات بارے موضوع کو چھیڑنے کا فیصلہ کیا، اور دلچسپی (مصنوعی ) ظاہر کرتے ہوئے پوچھا،
اگر آپ کی تخلیقات میں ایک چوتھائی حصہ، بطور محرک، آپ کی تیسری بیوی کا ہے تو باقی تین چوتھائی حصہ کس کا ہے؟
اس پر عالمگیر شناس نے پہلو بدلا اور نظریں اپنے طبیب کی طرف موڑتے ہوئے فرمانے لگے، ایک چوتھائی پہلی بیوی کا، ایک چوتھائی دوسری اور ایک چوتھائی تیسری بیوی کا، اور آخری چوتھائی کے متعلق آپ کو بتانا ضروری نہیں کہ آپ میرے بارے جانتے ہی کیا ہیں؟
اب ڈاکٹر کو واقعتاً دلچسپی پیدا ہوئی، پیشہ وارانہ لوازمات کو ایک طرف رکھا اور گردن کو ٹائی کے عذاب سے چھٹکارا دیتے ہوئے کہنے لگے، آپ کی کہانی دلچسپ معلوم ہوتی ہے، اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں تفصیلات جاننا چاہوں گا، شناس صاحب تو اسی اشارے کے منتظر تھے، اور یوں گویا ہوئے،
علم و ادب سے دلچسپی مجھے ورثے میں ملی تھی، ہمارے دادا جان اور والد صاحب علاقائی حد تک اچھے شعراء و ڈرامہ نگار تھے، گھر میں مستقل بنیادوں پر مشاعرے و محافل برپا رہتی تھیں، ہمیں بھی اکثر مواقع ملتے کہ مختلف علوم و فنون کے اساتذہ سے کچھ سیکھتے رہنے کی مشق جاری رکھ پاتے، ہلکی پھلکی شاعری و کہانیاں وغیرہ اوائل عمر میں ہی لکھنا شروع کر دی تھیں، لیکن ادب کو کبھی اتنا سنجیدہ نہ لیا تھا کہ اسے ہی سامانِ زندگی تصور کر پاتے، ایم اے اردو ، اور ایم اے انگریزی مکمل کرنے کے بعد عموماً فراغت کے دن گزر رہے تھے، حلقۂ یاراں اور برسرِشام مختلف محافل ہی کل مصروفیات تھیں،
جوانی کی چھبیسویں بہار میں قدم رکھ چکے تھے کہ ایک دن گھر میں ایک خوبصورت و باوقار، مگر گھریلو اور سادہ اطوار کی خاتون کے درشن ہوئے، معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ہمارے گاؤں میں ایک دُور کے رشتہ دار کی بیوہ ہیں، عمر پینتیس سال ہے اور تین بچوں کی ماں ہیں، تعلیم زیادہ نہیں، شوہر کی وفات کے بعد ماں باپ اور بڑا بھائی ہی سہارا دئیے ہوئے ہیں، آج شہر کسی کام سے آنا ہوا تو کچھ سستانے اور ملنے کیلئے ہمارے گھر تشریف لائیں۔
اس وقت اس طرف کچھ زیادہ توجہ نہ دیتے ہوئے ہم اپنے دوسرے کاموں میں مصروف رہے، مگر شام گئے اس خاتون کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا اور لاکھ کوشش کے باوجود اس کی سادگی و چہرے پر موجود مہربان مسکراہٹ کو بھلا نہ پائے، ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے دل کی حالت خراب تر ہوتی چلی گئی، بالآخر ہمت کر کے والدین سے بات کی کہ خاکسار اس خاتونِ نیک سے شادی کا خواہشمند ہے، گھر میں گویا کہ ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا، ہر طرف سے ہر ممکنہ حد تک مخالفت و تنقید کا سماں تھا، مگر ہم اپنی ضد پر قائم رہے، لگ بھگ تین ماہ کی خانہ جنگی کے بعد ہمارے فیصلے کو نہ چاہتے ہوئے بھی مان لیا گیا، اور اگلے ہی مہینے ہم اس خاتون کو نکاح کے بعد اپنے گھر لے آئے، اور اپنے نیک جذبات کو ان تک پہنچانے کیلئے ہم نے ضد کی کہ ان کے بچے بھی ہمارے ساتھ رہیں گے، اس خاتون کیلئے بھلا اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی تھی۔
ان کے ساتھ زندگی بالکل بدل کے رہ گئی، دوست احباب اور شام کی محفلیں محدود ہو کے رہ گئیں، صاحبِ خاندان کی حیثیت سے چھوٹی موٹی نوکری بھی شروع کر دی، وہ خاتون مختلف پہلوؤں سے ہمیں پسند تھیں، بیوی تو وہ تھیں ہی، اس کے علاوہ ان کی صحبت میں محبتِ مادرانہ کا لطف بھی اٹھایا جاسکتا تھا، گاہے ان کے بھولے پن سے ایسا محسوس ہوتا کہ بحیثیتِ باپ، اپنی کمسن بیٹی سے مخاطب ہوں، کھردرے ہاتھوں اور موٹے نقوش والی یہ خاتون سارا دن ہمارے گھر کے کام کاج میں مصروف رہتیں اور شام کو ہماری خدمت کیلئے وقت نکالتیں، ان کے حسنِ اخلاق اور ہر وقت چہرے پر موجود مسکراہٹ نے ہمارے اندر کی سوئی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں محرک کا کام کیا ، ان کے قرب نے نیک نیتی اور انسانی حِس ہمدردی کی پرورش کو بیدار کیا، ہم نے اسی دور میں بچوں کیلئے کچھ کہانیاں، نوجوانوں کیلئے شخصیت کے سنوارنے، معاشرتی تعلقات و بزرگوں کے مسائل پر لکھنا شروع کیا، ہماری تحریروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، اس سے گھر کے معاشی حالات بھی بہتر ہوئے، اسی ڈگر پہ زندگی چلتی رہی، ہم نے تعلقاتِ عامہ، اعتمادِ شخصی، اور پاکئ تخیل کے موضوعات پر کچھ کتابیں لکھیں جو قارئین میں بہت مقبول ہوئیں اور ہماری اولیں وجۂ شہرت یہی تخلیقات تھیں، کچھ عرصے بعد بچوں کیلئے ہماری دو نظمیں چوتھی اور پانچویں جماعت کے نصاب میں شامل ہوئیں، اس سے حکومتی حلقے میں ہمارے تعلقات کی ابتداء ہوئی، مختلف اخباروں میں لکھنے اور تقاریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شامل رہنے کا سلسلہ اگلے چند سالوں تک جاری رہا،
گویا کہ اسماعیل میرٹھی اور ڈیل کارنیگی کی ارواح ہمارے اندر حلول کئے ہوئے تھیں، یہ ہماری تخلیقات کا ایک چوتھائی حصہ ہے، جس کا محرک یہ خاتون تھیں۔
یہاں تک بات مکمل کرنے کے بعد عالمگیر شناس خاموش اور قدرے اداس ہو رہے، ماہرِنفسیات نے پانی کا گلاس اور ایک سگریٹ سلگا کر شناس صاحب کہ طرف بڑھایا، شناس صاحب نے پانی کا گھونٹ خشک حلق میں اتارا اور بے دلی سے سگریٹ کے کش لگانے لگے، ڈاکٹر نے دوستانہ و بے تکلف لہجے میں مخاطب ہوتے ہوا پوچھا، پھر کیا ہوا شناس صاحب؟
شناس صاحب،جو چند لمحوں کیلئے کسی انجانی دنیا میں چلے گئے تھے، نے گفتگو کو وہیں سے شروع کیا، جہاں رابطہ منقطع ہوا تھا۔
ایک شام انگریزی زبان کی عالمگیریت کے عنوان سے ایک تقریب میں ہم مدعو تھے، تقریب کے اختتام پر کچھ احباب آٹوگراف لینے اور تعارف کی غرض سے ہماری طرف آ رہے، ابھی ہم ان کے ساتھ صحیح طرح مل بھی نہ پائے تھے کہ اچانک نظر پڑی کہ ایک پری رو، خوش بدن نازنین، مسکراہٹ بکھیرتے ہماری طرف آتی دکھائی دیں، قریب آئیں تو ان کے نیلے نین اور لچکدار بدن پہلی چیزیں تھی جن کی طرف توجہ گئی، اس زہرہ خصائل نے جس نزاکت سے سلام کیا، دل کی دھڑکنیں تیز ہونے کے ساتھ ساتھ پہلی دفعہ ٹانگوں میں لڑکھڑاہٹ سی محسوس ہوئی، ہم ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے وہ گویا ہوئیں کہ وہ فلاں بریگیڈیئر صاحب کی صاحبزادی ہیں اور انگریزی زبان میں دلچسپی کی وجہ سے اس تقریب میں حاضر ہوئیں اور ساتھ ہی ادائے دلربائی سے فرمانے لگیں کہ خاکسار سے تعارف کی دیرینہ خواہش پوری ہونے پر انتہائی پرمسرّت ہیں، اگلے ہفتے آرٹس کونسل میں کسی عنوان پر ایک تقریب میں دعوت نامہ دیتے ہوئے چل دیں۔
ان کا گلاب چہرہ ہماری زندگی میں بھرے تمام کانٹوں سے چھٹکارے کیلئے بطور اکسیر دل و دماغ میں ایسے بیٹھا کہ کسی اور طرف دھیان جاتا ہی نہ تھا، پہلی دفعہ ہم نے اپنے اندر حقیقی مردانہ جذبات کو انگڑائی لیتے محسوس کیا، دن میں دس دس دفعہ اس دعوت نامے کی تاریخ دیکھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریخ گزر جائے اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں،
بالآخر وہ دن آن چڑھا جس کا انتظار تھا، ایسا لگا کہ ہمیں ساری زندگی اسی دن کا انتظار رہا، تقریب میں ہمارے حاضر ہونے پر وہ اپنی سیٹ سے بے دھڑک اٹھ کر ہمیں خوش آمدید کہنے کو ہمارے پاس آئیں، گہرے نیلے رنگ کا لباس ان کی گوری رنگت پہ خوب سح رہا تھا، ان کا روئے سخن ہماری جانب تھا اور ہم دل پہ ہاتھ رکھے ان کے لبوں کی حرکت کو اپنے دل میں کہکشاں کی طرح سینچتے رہے، ہماری خوش بختی ملاحظہ فرمائیے کہ ان سے مستقل ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا، اب گھر میں موجود بیوی پر نظر پڑتی تو اپنے جذبۂ ذوق پہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ پاتے، اب ہم یہ بات اچھی طرح جان چکے تھے کہ اس خاتون سے ہم نے شادی صرف ہمدردی کے جذبے کے تحت کی تھی، ممکن ہے کہ تب،بھوکے کیلئے روکھی روٹی ایک نعمت ہے، والا جذبہ بھی کارفرما رہا ہو مگر جو گرمئ جذبات، لطائفِ شباب اور حسن و نسوانیت کی چٹختی اٹکھیلیاں اب ہماری جمالیاتی حِس پر بجلی بن کے گِرے جاتی تھیں، ان کا اس سے پہلے تصور بھی ہمارے لئے محال تھا، اور دو طرفہ آتشِ عشق نے جو گُل کھلائے، اس کی تپش ہماری پہلی زوجہ نے بھی محسوس کی، اور ، آئے روز کی باز پُرس سے تنگ آکر آخر ایک روز ہم نے اقرار کر لیا کہ ایک نوجوان حسینہ کو دل دے بیٹھے ہیں، وہ خود دار خاتون اگلے ہی روز اپنے بچوں سمیت ہمیشہ کیلئے گاؤں کو روانہ ہو گئی، اور ہمارے اقارب کی طرف سے ایک دفعہ پھر ہمارے فیصلے پر تنقید کا سلسلہ چل نکلا، مگر ہم اس حسینہ کے عشق میں ایسا مدہوش تھے کہ ہمیں ارد گرد کی کچھ پرواہ نہ تھی۔ تب معاشی طور پر ہمیں کوئی تنگی نہ تھی، لہذا ایک فلیٹ کراۓ پر لیا گیا اور نکاح کے بعد ہم اپنی جوان محبوبہ، بلکہ بیوی، کے ساتھ زندگی کے دن پوری آب و تاب کے ساتھ گزارنے لگے، اس دوران پہلی دفعہ ہم نے اپیکورس کے فلسفۂ زندگی کو عملی طور پر سمجھا اور داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔
ان کی قربت کا سب سے زیادہ اثر ہماری تخلیقی صلاحیتوں پر ہوا، اب تک جو ہم لکھتے آئے تھے، وہ خشک اور بے جان مضامین تھے، اب طبیعت میں جو رنگینی آئی تو مضامینِ طبع بھی بدلنے لگے، ہم نے ناول لکھنے شروع کئے، ہمارے قلم نے حسن و عشق کے وصال پر جس فن کا مظاہرہ کیا، اس پر بڑے بڑے لکھاری بھی عش عش کر اٹھے، اور رومانوی شاعری پر ہماری تین کتب تو اردو ادب کی بقا تک سند کے درجے پر فائز رہیں گی، تب کے عظیم ترین شعراء ہمیں اردو زبان کے حافظ شیرازی کے خطاب سے نوازنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اسی طرح پلک جھپکنے میں زندگی کے مزید بارہ سال گزر گئے، ہمارا دامن اس دفعہ بھی اولاد کی نعمت سے خالی رہا، مگر ادب کے میدان میں ہم ایک چمکتا ستارہ تھے، شعر و نثر، بالخصوص رومانویت، اب ہماری پہچان تھے، یہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کا ایک بالکل مختلف پہلو تھا، جس سے ہم خود اس سے پہلے ناواقف تھے، اور اس پہلو کی محرک ہماری محبوب از جاں، دوسری زوجہ تھیں، ہمارے فن کی یہ دوسری چوتھائی انہی کی مرہونِ منت ہے۔
شناس صاحب ایک دفعہ پھر افسردہ اور خاموش ہو رہے، ماہرِ نفسیات نے اٹھ کر کھڑکی کھولی، اور چند لمحات اپنے چہرے پر ٹھنڈی ہوا محسوس کرتے ہوئے کھڑکی بند کر دی، شناس صاحب بے جان و حرکت اپنی جگہ پہ براجمان رہے، ڈاکٹر نے مزید سگریٹ کی پیشکش کی مگر شناس صاحب نے انکار میں سر ہلا دیا، ایک دو منٹ کے بعد ڈاکٹر نے سکوت توڑتے ہوئے پوچھا، پھر کیا ہوا شناس صاحب ؟ شناس صاحب تو منتظر تھے کہ انہیں گفتگو جاری رکھنے کی درخواست کی جائے اور گویا ہوئے،
وقت کے ساتھ ہمارے جذبات سرد پڑتے گئے، ہمیں محسوس ہوا کہ ہم نے جنسی خواہشات کی شادابی کو اپنی دانش پر ترجیح دے کر شدید نقصان اٹھایا، مگر یہ احساس تب ہوا جب ہمارے جنسی جذبات سرر پڑ چکے، عمر کے ساتھ اب وہ جسمانی کشش ہم محسوس نہ کرتے تھے، اور اس کا محرک ایک خاتون ٹھہریں، جو ایک انگریزی اور ایک اردو رسالہ جات کی مدیر تھیں، حیاتیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد صحافت کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی، وہ لگ بھگ ہماری ہم عمر تھیں،
ان سے چند ملاقاتوں میں ہی ہم پہ یہ انکشاف ہوا کہ عورت میں اعلی و روشن ذہن سے زیادہ پرکشش عضو اور کوئی نہیں، ہم گھنٹوں ان کے ساتھ دنیا کے مختلف موضوعات پر گفتگو کیا کرتے، مگر ہمیشہ “ھل من مزید ” کی خواہش باقی رہتی، ہمیں اب اپنی حسین زوجہ ایک خوبصورت گڑیا سے زیادہ اہم نہ لگتیں، ہم ان کے ساتھ شدید بوریت محسوس کرتے، ہماری کوشش ہوتی کہ ہر میسر لمحہ مدیر خاتون کے ساتھ گزارا جائے، زوجہ کے ساتھ تعلقات میں دراڑ کا آغاز تب ہوا جب ہم نے ان کے ساتھ کسی بے ہنگم پارٹی، شاپنگ اور اس قسم کی دوسری فضولیات پہ جانا ترک کر دیا، بالآخر یہ دراڑ طلاق کی صورت میں اپنی انتہا کو پہنچی، مگر ہمیں اس کا زیادہ افسوس نہ تھا، اب ہم سارا وقت اپنی من پسند خاتون کے ساتھ گزارتے، وہ طلاق یافتہ تھیں، بچے امریکہ کی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے، اس لیئے ملاقات کے معاملے میں ہماری محبوب خاتون ہم پر اکثر مہربان رہا کرتیں، اور پھر ہم اتنے قریب آئے کہ رشتۂ زوجیت میں بندھ گئے، زندگی ایک دفعہ پھر نئی سمت چل نکلی، اب تک جو کچھ ہم لکھتے آئے تھے، وہ ہمیں بازیچۂ اطفال محسوس ہونے لگا، ہمیں اپنی نئی زوجہ کے ساتھ مباحثات نے طبعی علوم، فلسفہ، مذاہب اور سیاسیات کی طرف راغب کیا، ہمیں شدید پچھتاوا تھا کہ عمر کا بہترین حصہ ہم نے خرافات میں برباد کیا، اصل مضامین سے ہمارا تعارف تو اب جا کے ہوا، ہم نے اپنی تمام توانائیاں اس سمت ڈال دیں، ہماری زوجہ ہماری مددگار تھیں، اگلے چار سے پانچ سالوں میں ہمارا شمار ملک کے بہترین دانشوروں میں ہونے لگا، ہر سنجیدہ موضوع پر ہماری رائے کو حرفِ آخر جانا جاتا، ٹی وی والے سارا سارا دن ہمارے گھر کے گرد گھومتے، اور بڑے سے بڑے اینکر ہماری منتیں کرتے کہ حالاتِ حاضرہ پر ہم اپنی قیمتی رائے کے اظہار کی سعادت ان کے چینل کو بخشیں، گھر میں پیسے کی فراوانی تھی اور ہمارا نفس دانش ور کے خطاب سے مکمل مطمئن تھا، اس دوران ہماری چار مختلف کتابیں بھی ہاتھوں ہاتھ بِک چکی تھیں، جن میں ہندوستان و افغانستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت، امریکہ کا بطور سپر پاور عنقریب خاتمہ، مذاہبِ عالم ، کرۂ ارض پر واقع ہوتی تبدیلیاں اور “سب سے پہلے انسانیت” جیسے اہم موضوعات شامل تھے، ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو ایک سمت مل چکی تھی، اس کا محرک ہماری تیسری زوجہ تھیں، اور انہی کی مہربانیوں سے ہماری تخلیقات کی یہ چوتھائی اپنی انتہا تک پہنچی۔
عالمگیر شناس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، ڈاکٹر نے ٹشو پیش کرتےہوئے پوچھا، اگر سب کچھ درست چل رہا تھا تو آپ کی ایسی باشعور اور اعلی تعلیم یافتہ زوجہ نے آپ پر حملہ کیوں کیا، آخر کیا وجہ ہوئی؟
شناس صاحب نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا،
کچھ وقت کے بعد ہمیں اس خاتون سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگی، ہماری تخلیقی صلاحیتیں بظاہر اپنی سمت کا تعین کر چکی تھیں، مگر کسی انجان بے چینی نے آن پکڑا کہ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ ایسا کیوں ہے؟
ہمارے اس رویّے کو اس خاتون نے فوراً بھانپ لیا، اور ہمارے ماضی کے متعلق چونکہ وہ سب کچھ جانتی تھیں، اسی لیے شک کر بیٹھیں کہ ہمارا کسی نئی خاتون کے ساتھ تعلق چل نکلا ہے، بس اسی بنیاد پر روازنہ گھر میں جھگڑے ہونے لگے، ہم تصوّر بھی نہ کر سکتے تھے کہ ایسی دانشمند خاتون کے باطن میں حسِ رقابت اتنی شدت سے پروان چڑھ رہی ہے، ایک دن تنگ آکر ہم نے کہا کہ اس روز روز کی توتو میں میں سے ہم تھک چکے ہیں، بہتر ہے کہ ہم اب علیحدگی اختیار کر لیں، ہمارے ان الفاظ پہ ایسی بھڑکیں کہ چھری لے کر ہم پہ وار کرنے کو دوڑیں، مگر ان کا پاؤں پھسلا اور اپنے ہاتھ میں پکڑی چھری پر چھاتی کے بل ایسا گریں کہ پھر جانبر نہ ہو پائیں۔
شناس صاحب نے اپنی بات مکمل کی، اور اسی وقت پولیس انسپیکٹر نے دروازے پر دستک دی، کم اِن، کے جواب پر انسپیکٹر صاحب اندر داخل ہوئے اور طمانت مگر پر افسوس آواز میں کہا کہ شناس صاحب کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل پایا، اس لیے آپ چاہیں تو گھر جا سکتے ہیں، ہمیں آپ کی زوجہ کی وفات کا افسوس ہے، شناس صاحب نے شکریہ ادا کیا اور انسپیکٹر چل دیا ،
شناس صاحب اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کمرے سے باہر جانے کو تھے کہ نفسیات کے ماہر ڈاکٹر نے شناس صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا،
شناس صاحب، میں جانتا ہوں کہ آپ کی تخلیقات کی چوتھی چوتھائی کیا ہے اور اس کے محرکات کیا ہیں،
شناس صاحب کو ایک جھٹکا سا لگا، مگر انہوں نے چہرے سے آشکار نہ ہونے دیا ، ڈاکٹر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا،
شناس صاحب، اس پیچیدگی کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ آپ خود نہیں جانتے کہ آپ کی بے چینی کی وجوہات کیا ہیں، اور آپ چاہتے کیا ہیں؟ یہ کونسی چوتھائی ہے جس کے آپ متلاشی ہیں؟ اور اس انجان چوتھائی کا محرک کون ہے ؟
شناس صاحب آپ نے کبھی غور کیا کہ آپ کی تخلیقات کے تمام محرکات بیرونی ہیں، کہیں ہمدردی کا جذبہ ہے، کہیں جنسی، اور کہیں اہلِ عقل و دانش کی شراکت، اور ان سب کے اوپر آپ کی نفسانی خواہشات، خود پسندی، معروف و پہچانے جانے کی شدید خواہش، لوگوں کی واہ واہ آپ کو ایک خاص تسکین پہنچاتی رہی اور آپ سمجھتے رہے کہ آپ کی تخلیقی حِس ، دامنِ اطمینان کو پا چکی، جبکہ حقیقت میں ایسا ہرگز نہ تھا۔
شناس صاحب، آپ نے کبھی سوچا کہ ہمارے ادیب، شعراء، دانشور ، سیاستدان یا طبعی علوم کے ماہرین دنیا میں اپنا سکّہ منوانے میں ناکام کیوں رہتے ہیں؟، کتنے ادیب و شعراء، یا سائنسدان ہیں جنہیں دنیا جانتی ہے؟ شاید ایک بھی نہیں، شناس صاحب ، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کے محرکات بیرونی اور انتہائی سطحی ہیں، وہ بھی نفسانی خواہشات کی چادر میں لپٹے ہوئے، جس دن آپ خود کو بلند کر پائیں گے، آپ حقیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا سامان کر پائیں گے، خود کو اس سطح پر لائیے کہ محرک آپ کے اندر سے نمودار ہو، یہی آخری اور بلند ترین چوتھائی ہے آپ کے فن کی،
اگر یہ نہیں تو بس کنویں کے مینڈک کی طرح ادھر ادھر چند چھلانگیں لگا کر سمندر فتح کرنے کا جھوٹا دعوی تو کیا جا سکتا ہے، مگر تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری کا بندوبست نہ ہو پائے گا اور بے چینی برقرار رہے گی۔
شناس صاحب نے قدم اٹھائے اور دروازے سے نکل کر اپنی گاڑی کی طرف چل دیئے، ان کہ رفتار کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح سُست ،مگر چال میں ایک استقامت تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں