قصّہ ایک بادشاہ اور امیر کا۔۔۔۔بابر اقبال

وہ اتنا امیر تھا کہ اس کے خزانوں کے شمار کے لیے بے شمار منشی رجسٹر اونٹوں پہ لادا کرتے کیوں کہ اس وقت الماریاں نہ ہوا کرتیں تھیں، اس کے خزانوں کی چابیوں کے لیے بڑے بڑے چالیس کمرے تھے، اس کے چالیس حرم تھے اور ہر حرم میں ننانوے کمرے اور ہر کمرے میں ایک کنیز۔
جب کسی ملک میں قحط پڑتا تو اس کے بادشاہ درخواست کرتے کہ ’’ اے امیر ہماری مدد کے واسطے کچھ اناج بھیج دیجیے‘‘ وہ آرام سے سات ہزار اونٹوں پر اناج لاد کر بھیج دیتا، اس کے منشی گھبرا جاتے اور پوچھتے ’’ اے امیر، اتنی خیرات؟ ہمارا کیا ہوگا؟‘‘ وہ ہنس پڑتا اور کہتا کہ ’’ سمندر میں سے اگر قطرہ کم ہوجاوے تو ہمارا کیا جاوے گا؟‘‘ اس کے منشی بھی حیراں اور پریشاں رہ جاتے۔
ایک مرتبہ ایک بڑے بادشاہ کی دعوت تھی، بادشاہ نے شیخی بھگارتے ہوئے کہا ’’ ہمارے محل میں کھڑکیاں اور دروازے سونے کے ہیں؟ ‘‘ امیر ہنس دیا اور بولا ’’ بادشاہ سلامت ! آپ جن برتنوں میں کھانا کھا رہے ہیں یہ بھی سونے کے ہیں اور ہمارے ہاں ایک برتن میں کھانا دوبارہ نہیں کھایا جاتا، سب دان کر دیے جاتے ہیں‘‘ بادشاہ نے  سخت برا مانا مگر منافقت سے متاثر ہوتا ہوا بولا ’’ میں حیران ہوں کہ آپ کے ذرائع آمدن کیا ہیں اور آپ کتنا ٹیکس اور کیسے دیا کرتے ہیں؟‘‘ امیر بھی ایک دانا تھا بھلا اپنا بھید کیوں کھولتا؟ وہ ہنس دیا اور بولا ’’ اے بادشاہ، حکومت کا ایک محکمہ فقط میرے ٹیکس کے حساب کے لیے ہے اور اس کے امّال جب آتے ہیں تو میں اپنے خزانے کھول دیتا ہوں، جتنا چاہیں  اٹھا کر لے جاتے ہیں‘‘ بادشاہ کا منہ کھلا رہ گیا۔
بادشاہ تھا سخت مکّار، اس نے جاتے وقت کہا ’’ آپ کی دولت اور شان و شوکت کا کوئی جواب نہیں، میں نے آج تک آپکا ہم پلّہ نہیں دیکھا، آپ کے پکوان بھی شاندار! مگر ایک کمی ہے!‘‘
امیر اس کی بات پر حیران ہوا اور بولا ’’وہ کیا اے بادشاہ؟‘‘ بادشاہ بولا ’’ تیرے دسترخوان پر میں نے پھجّے کے پاوے نہیں دیکھے، اگر تو نے کبھی نلّی کا گودہ پلیٹ میں نکال کر نہیں کھایا تو جان لے، تیری ساری دولت اور سونے کے تباق ہیچ ہیں!‘‘
امیر حیران اور پریشان ہوا بولا ’’ بادشاہ میں اس نعمت کا مشاہدہ نہیں کرسکا، کیا میرے دسترخوان کے تیتر، بٹیر، جنگلی ہرن اور ٹراؤٹ مچھلی سے زیادہ لذیذ بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟‘‘
بادشاہ جان گیا کہ اس کا تیر نشانے پر لگا ہے وہ مکّاری سے مسکرا کر بولا ’’ اے امیر! تو چنداں پریشاں نہ ہو، میں ایک باورچی مع چھ بھینس تجھے بھیج دیتا ہوں وہ تیرے دسترخواں پر اس نعمت عظیم کا اضافہ کردے گا‘‘
امیر متاثر ہوا اور اس نے بادشاہ کو تحفے تحائف دے کر رخصت کیا۔
بادشاہ نے اپنے ملک پہنچتے ہی اپنی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو بلایا اور کہا ’’ ایک جاسوسوں کی ٹیم کو ایک باورچی کے ہمراہ سارنگ وادی کے امیر کے گھر بھیجو، وہ بہت امیر اور کبیر ہے، مجھے اس کمینے کی دولت کا راز چاہیے! جاؤ میں نے اس کو بھینس کے پاوے میں لگا دیا ہے، ساتھ میں سوڈے ملے آٹے کی بوریاں بھی بھیج دینا، پائے کے سالن میں بونگ کی بوٹیاں اور نلّی ایسی ڈالنا کہ  تنور کی روٹی کے ساتھ کھا کر وہ مدہوش ہوجائے اور تمہارے جاسوس جان لیں کہ اس کی دولت کا اصل راز  کیا ہے؟‘‘
خفیہ کمیٹی  والے نے اپنے خاص کارندوں کو بلایا اور کہا ’’ وہ جو پلاٹوں کی فائلوں والا دھندا ہے وہ چھوڑو، بادشاہ سلامت ایک بڑا مشن لائے ہیں فوراً وہاں روانہ ہو‘‘ اگلے روز خفیہ  ٹیم والے مع باورچی اور بھینسوں کے روانہ ہوگئے۔
امیر کے گھر پہنچ کر انہوں نے ایک بھینس ذبح کی اور ایک دیگ میں پائے ابالنے کے واسطے رکھ دیے، امیر کے باورچی جو پہلے ہی تلملائے بیٹھے تھے انہوں نے خبر لینے کے لیے ادھر کا رخ کیا، اور پوچھا یہ کیا پکوان ہے اور کیوں کر پکتا ہے؟ باورچی نے شان بے نیازی سے کہا ’’ تمہارے بس کی بات نہیں ہے، ایک روز تک تو یہ پاوے جلیں گے پھر پکانے کی کوئی بات ہوگی!‘‘ امیر کے باورچی اب بری طرح مرعوب ہوچکے تھے انہوں نے گھگھیاتے ہوئے کہا ’’ اے باورچیوں کے اسٹیو جابز، تو ہم کو بھی یہ پکوان کیوں نہیں سکھاتا؟‘‘ باورچی نے کہا ’’ کچھ سوچا جاسکتا ہے، اگر تم بتلاؤ کہ تمہارے مالک کی امارت کا راز کیا ہے؟‘‘ وہ اب ٹریپ ہو چکے تھے، بولے ’’ دیکھو، جو تم جاننا چاہتے ہو وہ کسی کو نہیں پتا، مگر کبھی کبھی مالک اپنے کمرے میں آلو کے چپس بنوا کر کھاتا ہے تو ہم نے دیکھا ہے اس کے کمرے میں ایک چھوٹی تجوری ہے، جو راز ہے اسی میں ہے‘‘
باورچی نے یہ احوال خفیہ  ٹیم والوں کو دیا، اور ان سب نے مل کر ایک منصوبہ بنایا، انہوں نے امیر سے کہا ’’ایسا پکوان کیوں کہ آپ کے ملک میں عنقا ہے اور ہم محنت سے پکا رہے  ہیں تو کیوں نہ  آپ کے محل کے سارے لوگ ساتھ کھائیں؟ ‘‘ امیر مان گیا اور شایان شان  بندوبست کیا گیا، خفیہ  ٹیم   نے نلّی اور بونگ پر بھروسہ کرنے کے بجائے پائے کے سالن میں افیم بھی ڈال دی۔
دعوت کے آغاز سے پہلے شاہی باورچی نے عوام سے خطاب کیا اور کہا ’’ پائے کے شوربے کی اصل یہ ہے کہ انگلیاں آپس میں چپک جاویں، کھانے والا جب نلّی سے گودہ نکال نہ پا رہا ہو تو ایک کنارے پر منہ لگا کر چوس لے اور اگر کسی کے دل میں یہ منظر دیکھ کر برا خیال آوے تو اس کی جلد شادی کرادی جاوے‘‘
قصّہ مختصر امیر مع اہل و اعیّال اورکثیر ملازمین پائے کھا کر بے ہوش ہوگیا اور خفیہ والے آسانی سے اس کے کمرے میں داخل ہوگئے، انہوں نے تجوری کھولنے سے پہلے نفل پڑھے، آخر وہ اپنے ملک کے دیرینہ مسئلے معیشت کا حل کرنے والے تھے انہوں نے تجوری کھولی تو کیا دیکھتے ہیں؟۔۔۔۔
اندر دیسی مرغی کے کچھ انڈے رکھے ہوئے تھے!

Facebook Comments

بابر اقبال
گمشدہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply