سوشل میڈیا بلیک میلنگ قصووار کون؟۔۔۔۔عامر راہداری

تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے فیس بک پر ریگولر ایکٹو نہ ہونے کے باعث لکھنے پڑھنے والا شوق تو کم ہوا ہی ہے ساتھ ساتھ بہت سے کرنٹ ایشوز اور خبروں سے بھی لاعلم رہا۔ ویسے تو میری کوشش ہوتی ہے سوشل میڈیا کو صرف ٹائم پاس کے لیے استعمال کیا جائے اس لیے میں صرف طنزومزاح تک ہی محدود رہتا ہوں لیکن بعض اوقات کچھ ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جن پر نہ لکھنا قلم (یا کی بورڈ) کی بے حرمتی لگتا ہے۔ دو چار دن سے تھوڑا ایکٹو ہوا ہوں تو ایک دو ایسے واقعات نظر سے گزرے ہیں جن پر تجزیہ دینا اپنا حق سمجھتا ہوں۔ ابھی ایک دو دن پہلے فیس بک پر ایک تحریر دیکھی جس میں عورتوں کے حقوق کے علمبردار ایک لبرل شخص کے متعلق یہ رائے بنانے کی کوشش کی گئی کہ وہ عورتوں سے ان کی تصویریں اور نیوڈز لے کر انہیں بلیک میل کرتا ہے۔ یہ موضوع ایک لحاظ سے اس لیے بھی خاص ہے کہ میں بھی کافی عرصے سے ہلکا پھلکا عورت کے حق میں لکھتا آ رہا ہوں دوسرا یہ کہ اس قسم کے واقعات آئے روز خبروں کا حصہ بنتے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ بات نوٹ فرما لیں کہ سوشل میڈیا پہ ہر شخص بنیادی طور پر ایک نقاد ہوتا ہے۔ چونکہ اب کتابوں کا دور چلا گیا ہے اس لیے اکثر لکھاری حضرات بھی یہیں پر ذلیل ہورہے ہوتے ہیں۔ سو اب آپ ہی ان کے لیے ٹی ایس ایلیٹ ہیں، آپ ہی ان کے لیے ایذراپاونڈ اور والٹیئر ہیں، آپ ہی ان کے شبلی اور آپ ہی ان کے حالی ہے۔ اس بات کو ذہن نشین رکھیے کہ دانشور یا لکھاری دراصل آپ کے رحم و کرم پہ ہوتا ہے آپ چاہیں تو اٹھا کر باہر پھینک دیں، آپ چاہیں تو عظمت کے سٹیج پہ بٹھا دیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں یہاں کچھ دانشوروں کا کام ہی یہی ہے کہ عورتوں کے بارے میں شبھ شبھ لکھو، ہمدردی اور تعریفیں سمیٹو اور اگر کوئی ماہ جیں متاثر ہوکر انباکس میں آئے تو انباکس میں ہاسیاں کھیڈیاں کرتے کرتے تصویریں لے کر موبائل گیلری میں سجا لو۔ یہ عمومی رویہ صرف ہمارے معاشرے میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں روا رکھا جاتا ہے۔ جنس مخالف سے انسیت یا اٹریکشن ہونا فطرتی امر ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایک عورت سوشل میڈیا پہ ہراس کیوں اور کیسے ہوتی ہے؟

یہ بات ایک مثال سے سمجھاتا ہوں فرض کریں ایک عورت بازار جاتی ہیں اور اس نے نقاب کیا ہوا ہے۔ وہاں اسے مختلف اقسام کے لوگ ملتے ہیں کچھ صرف گھورتے رہ جاتے ہیں، کچھ چھونے کی کوشش کرتے ہیں کچھ کسی بہانے سے بات بھی کریں گے اسی بازار میں سینکڑوں دکانیں لگی ہوئی ہیں۔ کوئی چوڑیاں لگا کر بیٹھا ہے، کوئی ریڑھی لگا کر بیٹھا ہے اور کسی کی کپڑے کی دوکان ہے۔ موصوفہ ایک دوکان پہ جوتوں کا بینر دیکھتی ہیں اور جوتے خریدنے کے لیے اندر گھس جاتی ہیں لیکن اندر جاکر اسے پتا چلتا ہے کہ یہ تو لپ اسٹک کی دوکان ہے۔ پوچھنے پر دوکاندار کہے کہ “یہ جوتوں کی نہیں اصل میں لپ اسٹک کی دوکان ہے آپ چہرے سے پردہ اٹھائیے تو ہم آپ کو سیمپل چیک کرواتے ہیں”۔ لیکن چونکہ محترمہ جوتوں کی خریدار ہیں تو ظاہر ہے وہ نقاب نہیں اتاریں گی اور واپس آجائیں گی لیکن اگر محترمہ کا دل کرگیا کہ لپ اسٹک خریدنی ہے تو ظاہری بات ہے وہ اس دوکاندار کو اپنا چہرہ بھی دکھائیں گی اور لپ سٹک بھی خریدیں گی عرف عام میں ٹھرک کا پورا موقع مہیا کریں گی۔ بالکل یہی مثال اب فیس بک کے حوالے سے دیکھیے، یہ بھی دراصل ایک بازار ہے جہاں کسی نے مزاح نگاری کی دوکان کھول رکھی ہے کسی کے پاس دانشوارنہ مواد موجود ہے کوئی اسلامی دوکانداری چمکائے بیٹھا ہے اور کوئی عورتوں کے حقوق کی دوکان کھولے بیٹھا ہے اب اگر آپ عورتوں کے حقوق والے پاس جائیں گی اور وہ کہے کہ میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں مجھے تصویر دکھائیں تو خالص آپ پر منحصر ہے کہ آپ اسے چہرہ دکھاتی ہیں یا نہیں۔ تصویر دینا یا نہ دینا آپ کے اپنے ہی بس میں ہے اور اگر تو دل کرتا ہے کہ آپ تصویر دکھا دیں اور کل وہ اس تصویر سے آپ کو بلیک میل کرتا ہے تو کہیں نہ کہیں آپ بھی قصوروار ضرور ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں جنسی گھٹن اتنی زیادہ ہے کہ نوجوانوں کو اپنی فطرتی (یا جنسی) خواہشات پوری کرنے کی واحد جگہ یہی سوشل میڈیا ہی نظر آتا ہے۔ اس لیے آپ کے اردگرد ایسے لوگ وافر تعداد میں موجود ہیں جو اس طرح کے ہتھکنڈوں سے عورتوں کو ہراس کرتے ہیں لیکن اس ہراسمینٹ پر مردوں کو لعن طعن کرنے کی بجائے خود عورتوں میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کسی پر کیوں اعتبار کررہی ہیں۔؟

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:یہ تحریر عامر راہدری کی فیس بک وال سے لی گئی ہے !

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply