تپتے صحرا میں نخلستان کی تلاش۔۔۔۔بلال شوکت آزاد

بٹوارہ  ،تقسیم اور پارٹیشن کا لفظ جب جب بولا, لکھا, سنا اور پڑھا جاتا ہے تو لاشعور میں فوراً ایک بجلی کا کوندا لپکتا ہے اور لاشعور کے بھی تحت الشعور میں برصغیر, ہندوستان اور آزادی ہند کی گونج سنائی اور منظر دکھائی دینے لگتے ہیں۔

اسے مسلمانان ہند اور امت مسلمہ ایک عظیم معجزہ, اللہ کا کرم اور اہم تاریخی واقعہ تسلیم کرکے خوشی مناتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں جو اسلام کا قلعہ پاکستان عطاء کیا ہے اسکی حفاظت فرما اور دن دگنی رات چوگنی ترقی نصیب فرما۔

جبکہ دوسری جانب ہندوآن ہندوستان اور عالمی استعماری و طاغوتی طاقتیں اسے عظیم سانحہ, ظلم عظیم اور بھارت کی اکثریتی مذہبی عوام ہندو سے شدید ناانصافی گردانتے ہیں اور بھارت سمیت اسکے حلیف ممالک اس کی تکمیل یا اکھنڈتا کی خاطر ایک صفحے پر ہیں اور دن رات دعاؤں اور رداؤں میں پاکستان کے نیست ونابود ہونے کی دعا کے علاوہ بھی  کوششیں کرتے ہیں۔

بٹوارہ, تقسیم اور پارٹیشن جیسے الفاظ دراصل خالصتاً متحدہ ہندوستان کی تاریخ سے جڑ کر رہ گئے ہیں, وہ تاریخ جس کے سینے میں کشت و خون, ظلم و زیادتی, دغا و فراڈ, دھوکہ وغداری, بے رحمی و بے حسی, ہیراپھیری اور چالبازیوں کی ان گنت داستانیں رقم ہیں۔

انگریز ہندوستان میں اور بھی دس سال رہتے یا سو سال بھی رہتے تو بھارت میں بسنے والے غیر مسلم عوام کو کوئی فرق نہ پڑتا ماسوائے اس کے کہ وہ ملکی باگ دوڑ سے دور رہتے لیکن مسلمانوں پر انگریز کا یہاں طے شدہ وقت سے ایک منٹ بھی  مزید  رہنا بہت نقصان دہ ہوتا, جی ہاں اس نقصان سے بھی زیادہ جو ہمارے آباؤ اجداد نے دیکھا اور اٹھایا۔

تقسیم ہند دراصل ایک پہلو سے دیکھیں تو بہت زبردست اور تاریخی اقدام تھا لیکن دوسرے پہلو پر غور کریں تو نہایت  بے معنی سا کام لگتا ہے۔

ٹھہریئے ابھی فتوا مت صاد ر کیجیئے گا مجھ غریب پر۔۔۔۔۔۔

دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندو اکثریتی ہندوستان اور مسلمان اکثریتی پاکستان کی شکل میں متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ بہترین اور وقت کی اہم ضرورت تھا لیکن تقسیم سے پہلے اور بعد از تقسیم دونوں فریقین میں سے ایک مطلب ہندو قیادت کے معاملے میں انگریز سرکار کی طرف سے متعین آخری واسرائے ہند سر لارڈ ماؤنٹ بیٹن عرف ڈکی اور ان کی اہلیہ ہر ایکسیلینسی ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کی کلی جانبداری اور زیادتی وناانصافی کا دخل اس فیصلے کو نہایت گھٹیا اور بے معنی سا رخ عطاء کرتا ہے۔

مسلمانان ہند کو چونا لگانے کی تیاری تبھی ہوگئی تھی جب مسلمانان ہند کو الگ وطن کا خیال بھی نہیں آیا تھا (بس سب سے پہلے سرسید احمد خان نے دوقومی نظریہ کی ابتدائی تعریف بیان کرکے مسلمانوں کو سوچنے پر لگا دیا تھا کہ ہندو مسلمان دو الگ مذاہب کی پیروکار قومیں ہیں جن میں کچھ بھی ایک جیسا نہیں جو انہیں ایک قوم ثابت کرسکے۔) اور سبھی ہندو مسلم مذہبی و سیاسی قیادت کانگریس کی چھتری تلے صرف دونکاتی ایجنڈے پر متحد تھی کہ ایک تو انگریز بہادر ہندوستان کو خیرباد کہہ دے دوسرا متحدہ ہندوستان چھوڑ کر جائے جس میں نیپال, بھوٹان, سکم, تبت, سری لنکا, برما, مالدیپ اور افغانستان کی ریاستیں بھی شامل ہوں مطلب اکھنڈ بھارت ہو۔

جی ہاں میں 1905ء میں ونسٹن چرچل کی ذاتی سوچ و محنت سے تیار کردہ اس سیکرٹ “ہند پیکج” اور اس “انڈیا ڈویژن فارمولا” کا ذکر کررہا ہوں جس میں انگریز سرکار کی ہندوستان میں بدترین ہار, معاشی تنگدستی, عسکری اعداد و شمار میں کمتری اور غروب ہوتے تاج برطانیہ کے سورج کی پیشن گوئیاں, حقائق اور پیش آمدہ حالات کی بنیاد پر دو ریاستوں کی شکل میں تقسیم کا عندیہ نہیں بلکہ مکمل اور مربوط منصوبہ درج تھا جو اس وقت ان خفیہ دستاویزات میں “ہندو ہندوستان” اور “مسلم ہندوستان” کے نام کے ساتھ موجود تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں وہی نقشہ کھینچ کر تقسیم کی تجویز دی گئی تھی بلکہ زور دیا گیا تھا کہ ایسا لازمی کیا جائے, جو آج کے جدید ہندوستان اور پاکستان کا نقشہ ہے (کشمیر کے مسئلے سمیت) مطلب جو جغرافیائی حد بندی آج ہے وہی اس پلان میں ونسٹن چرچل نے نشاندہی کی تھی, اس سیکرٹ پلان کو “چرچل پلان” بھی کہا جاتا ہے۔

پھر ہمارے دوقومی نظریہ اور الگ اسلامی ریاست اور جدوجہد آزادی کی اتنی طویل داستانوں کی اصل    داستان  کیا ہے؟

اس کا جواب ہے ہندو کی مکاری اور انگریز کی چالبازی۔

یہ خفیہ منصوبہ 1905ء تک ترتیب دیا جا چکا تھا لیکن اس پر کام 1857ء کے غدر یا جنگ آزادی کے بعد شروع ہوا تھا جو مسلسل سیاسی و عسکری اور جغرافیائی اور سوچ و نظریہ کے ارتقاء کی وجہ سے تبدل سے گزر کر اس شکل میں آیا, بس اس پر عمل کی ضرورت تھی لیکن شومئی قسمت کہ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم کی دھول میں متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا یہ خفیہ منصوبہ اور ہندوستان کی معاشی, اقتصادی, عسکری, سیاسی اور جمہوری بساط دب گئی اور وقت گزر کر تیس چالیس سال آگے سرک گیا۔

مطلب جو ہندوستان اور پاکستان بغیر کسی ٹھوس مطالبے کے اوائل بیسویں صدی میں انگریز سرکار اور امریکی استعماری و طاغوتی قیادت نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دینا تھا وہ معاملہ جنگ کی دھول میں دب گیا۔

لیکن ٹھہریئے صاحبان۔

جنگ بہت خطرناک کھیل ہے, یہ حریف کے گھر تباہی لاتی ہے تو اس سے حلیف بھی متاثر ہوتے ہیں اور اتنا ہی ہوتے ہیں جتنا کہ حریف۔

جنگ عظیم اول و دوئم کے دوران ہندوستان کی ہندو مسلم قیادت کو صحیح معنوں میں احساس ہوا بلکہ آئیڈیا آیا اور کچھ اتنے سالوں کی جدوجہد اور سیاسی محنت و تجربے نے ثابت کیا کہ اب برٹش راج کی اس شکستہ عمارت میں دم خم نہیں رہا لہذا ہماری ہلکی سی ٹھوکر اور دھکم پیل کے نتیجے میں یہ عمارت زمین بوس ہوسکتی ہے اور ہم آزاد متحدہ ہندوستان کی فضاؤں میں آزادی کا اور سکھ کا سانس لے سکتے ہیں۔

جب اس مطالبے اور ایجنڈے پر سارا ہندوستان ایک تھا تو کلائمکس مطلب مسلمانوں کےالگ وطن کی گردان کب اور کیوں شروع ہوئی؟

اول تو یہ بات آپ بغیر لگی لپٹی اور سیدھے سبھاؤ سنجیدگی سے سمجھ لیں کہ انگریز بہادر کا قطعی قطعی متحدہ ہندوستان کو آزاد چھوڑ کر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انگریز جانا نہیں چاہتا تھا یا ہماری مطلب بھارت اور پاکستان کی آزادی کے خلاف تھا۔

انگریز کے جس خفیہ منصوبے کو ہم مطلب پاکستانی اور بھارتی, دونوں طرف کی عوام آج تاریخ میں گم کرکے سب اچھا تھا اور سب اچھا ہے کی جو روش اختیار کیے  بیٹھے ہیں یہی ہماری نئی نسل سے ظلم اور زیادتی ہے اور یہی ہے ہمارے نظریات کے دبنے اور سیاسی گراوٹ اور جمہوری جمود کی اصل وجہ۔

بات کل ملا کر یہ ہے کہ ہمارا سب کچھ انگریزوں کا دیا ہوا اور سیکھا ہوا ہے حتی کہ ہماری سیاست, ہماری زندگی میں شامل ہر شعبہ اور یہاں تک کہ  ہمارے خوابوں اور سپنوں کی ڈائریکشن  بھی ہمیں انگریز بہادر نے ہی دی ہے اور مکمل منصوبے کے ساتھ دی ہے۔

جی اس میں ہمارے اکابرین تحریک آزادی خواہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہوں یا آل انڈیا کانگریس کے پلیٹ فارم سے, دونوں کو بھنک بھی نہیں تھی آزادی کے دن تک کہ کیا چکرویو چلایا جارہا ہے اس اتنی بڑی ریاست اور اسکے عوام کے ساتھ۔

تاریخی اوراق کی دھول جھاڑتے ہوئے جو چند سچ گزشتہ چند روز میں مجھ پر عیاں ہوئے ہیں ان کی روشنی میں چند باتیں صاف ہوگئیں مجھ پر کہ۔۔۔۔۔۔  اوائل مسلم اور ہندو قیادت کو آزادی ہند کا سیاسی راستہ اور خواب دکھانے والے خود انگریز تھے, لیکن تقسیم ہند کا معاملہ اور اس کے پیچھے حکمت و مصلحت کو صیغہ راز میں رکھ کر صرف برٹش راج کے خاتمے اور آزاد متحدہ ہندوستان کی راہ پر سیاسی انگلی پکڑ کر چلایا۔

نہرو اور گاندھی کی قیادت میں متحدہ ہندوستان کا قیام قیامت صغریٰ  کی جانب پہلا قدم ہوتا جس کا ادراک محمد علی جناح کو 1920ء میں تب ہوا جب اندرون خانہ لفظ اکثریت اور اقلیت کا استعمال شروع ہوا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جب انڈیا بھیجا گیا “انڈین انڈیپینڈنس ایکٹ” کے تحت ہندوستان کی آزادی کا اعلان کرنے اور معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹانے تو وہ بھی تاج برطانیہ کے نامور وزیراعظم ونسٹن چرچل کے اصل منصوبے سے ناواقف اور انجان تھا۔

قائداعظم کو جب لفظ اکثریت اور اقلیت کے کھیل کی بھنک پڑی اور ہندوؤں کا تعصب کھل کر ان پر عیاں ہوا تو انہوں نے کانگریس کے پلیٹ فارم کو خیرباد کہا اور بددل ہوکر لندن روانہ ہوگئے جہاں سے علامہ محمداقبال نے ملی جذبے اور محنت سے قائداعظم کی سوچ بدلی کہ آپ مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لیں اور مسلمانوں کے آزاد وطن کی جدوجہد کریں, تب محمد علی جناح نے وہ فیصلہ کیا جو آج کی رائج سیاسی ڈکشنری میں 180 ڈگری کا یوٹرن کہلاتا ہے اور محمد علی جناح یہ یوٹرن نہ لیتے تو آج ہم متحدہ ہندوستان کے دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری ہوتے۔

تقسیم ہند کا ایجنڈا دراصل تھا ہی انگریز اور امریکہ بہادر کا جو اگلے سوسال کی منصوبہ بندی کے تحت تیار کیا گیا تھا اور جس پر دجالی و طاغوتی قوتوں کی نظر اور بھاری سرمایہ کاری تھی, اس ایجنڈے کے پیچھے جو گھناوؤے مقاصد اور وجوہات تھیں وہ یہ ہیں۔

1- کانگریسی قیادت میں کمیونزم کی طرف رغبت نے تاج برطانیہ کو عدم تحفظ کا شکار کیا۔

2- مغربی سرحد کو روس سے منسلک اور متصل ہونے سے روکنا۔

3- گرم پانیوں اور سب سے بڑھ کر مشرق وسطی کے تیل کی دولت پر اجارہ داری اور پہرے داری کامستقل بندوبست۔

4- ہندوستان کی ہندو عوام کے تعصب اور ہوس ملک گیری کو لگام ڈالنا۔

5- مسلمانوں میں سیاسی و مذہبی بے چینی اور عدم تحفظ۔

6- ہندوستان کی سیاست کو بیلنس کرنا۔

7- خطے میں مسائل (مسئلہ  کشمیر ایک سوچی سمجھی انگریز کی سازش تھی جس میں ہندو استعمال ہوئے اور مسلمان شکار ہوئے) سے بھری آزادی اور تقسیم کی بدولت نادیدہ غلامی اور زنجیروں میں جکڑ کر کٹھ پتلی تماشہ کرنا۔

8- مسلمانوں کو جغرافیائی حد بندیوں میں جکڑ کر ملت واحدہ کے نظریہ اور پلیٹ فارم سے دور کرنا۔ جس کا آغاز خلافت کے سقوط اور حجاز مقدس کی کانٹ چھانٹ کرکے عرب ریاستوں میں تقسیم اور اسرائیل کے لیئے میدان بناکر عربوں کو آپس میں لڑوانے سے کیا۔

9- تقسیم ہند میں دراصل ہندوؤں کی دائمی سیاسی و ملکی بقاء تھی جو وہ سمجھ نہ سکے لیکن ان کے جانبدار آقا اس بات کو 1857ء کے غدر میں ہی جان گئے تھے, اور اوائل انہوں نے مسلمانوں کو بھی ہندوؤں کی طرح تعلیمی اور سیاسی شعور کی جانب راغب کرکے گراؤنڈ تیار کرنا شروع کردیا اور رہی سہی کسر مذہبی دنگوں, سیاسی و نظریاتی فسادوں اور ثقافتی ٹکراؤ نے پوری کردی جیسے کہ مذہب کی بنیاد پر بنگال کی تقسیم, ہندی اردو جھگڑا, شدھی اور سنگھٹن تحاریک, بندے ماترم اور گاندھی کو مہاتما  کہلوانے جیسے معاملات اور بعد میں ہندوؤں کو اکثریت اور مسلمانوں کو اقلیت سرعام کہنا شروع کردینا ۔۔۔وہ وجوہات تھیں جنہوں نے کانگریس میں موجود نظریاتی مسلمان قیادت  کی  حقیقت حال بیان کردی اور الگ وطن کا جذبہ اور خواہش ان کے دلوں میں جاگزیں کردی اور بالآخر 30 دسمبر 1906ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ہوا اور مسلمان الگ وطن کی تحریک لیکر پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔

10- کٹا پھٹا اور ٹوٹا پھوٹا بکھرا ہوا پاکستان دراصل مسلمانان ہند کے خواب اور الگ پہچان سے زیادہ انگریز بہادر اور امریکہ بہادر کی بقاء, ترقی, خوشحالی اور تسلسل کے لیئے ناگزیر تھا۔

اب آجائیں تقسیم کی اصل کہانی کی طرف جو ان نقاط میں محفوظ ہے۔

لارڈ کرزن (لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا پیش رو) وہ پہلا بندہ  تھا جس نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ ہندو مسلم ساتھ نہیں چل سکتے لہذا ان میں تقسیم ہی وہ بہترین حل ہے جو امن کو جگہ دے سکے لہذا اس نے ایک پیکج تیار کرکے تاج برطانیہ کو دیا جس میں صرف دو صوبوں پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر زیادہ زور تھا لیکن بتاتا چلوں کہ پنجاب کی تقسیم کے ہندو اور سکھ قائدین جیسے کہ لالا لاجپت رائے, بھائی پرمانند اور جی ڈی برلا اور کئی سکھ لیڈرز زیادہ خواہش مندتھے بہ نسبت انگریز بہادر اور مسلم لیگ۔

مذہبی دنگوں, سیاسی و نظریاتی فسادوں اور ثقافتی ٹکراؤ جیسے کہ مذہب کی بنیاد پر بنگال و پنجاب کی تقسیم اور مطالبہ, ہندی اردو جھگڑا, شدھی اور سنگھٹن تحاریک, بندے ماترم اور گاندھی کو مہاتمہ کہلوانے جیسے معاملات اور بعد میں ہندوؤں کو اکثریت اور مسلمانوں کو اقلیت سرعام کہنا اور گاؤ سیواداروں کا مسلمانوں کے ساتھ دنگے فساد کرنا وہ عوامل تھے جنہوں نے دراصل پاکستان کی بنیادیں ڈالیں اور محمد علی جناح جیسے اصولی بندے کو اپنے کسی فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔

15جولائی 1947ء کو سر سرل ریڈ کلف کی قیادت میں جو کمیٹی تقسیم ہند کا ایجنڈا خوش اسلوبی سے نمٹانے کو بنائی گئی وہ پابند تھی کہ 15 اگست تک معاملات نمٹا کر اعلان آزادی کردیا جائے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اتنے بڑے بر کی تقسیم جس میں جغرافیائی, معاشی, اقتصادی, زرعی, عسکری, تعلیمی, سیاسی, مذہبی اور صنعتی اثاثوں کی تقسیم شامل تھی گھاس کے ڈھیر میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف تھی اور اس کا تذکرہ ریڈ کلف نے 1 اگست 1947ء کو لارڈ سے ان الفاظ میں کیا کہ

“میں عجلت میں پیکج تیار نہیں کرسکتا مجھے دو سے تین ماہ درکار ہیں ورنہ عجلت میں مجھ سے زیادتی ہوجائے گی اور تاریخ میں میرا نام تھو تھو کرکے لیا جائے گا۔”

لیکن لارڈ بضد تھا کہ ہر صورت 15 اگست ہی آخری تاریخ ہے بلکہ اور ایک دن پہلے اس کو ختم کرنا ہوگا کہ محمد علی جناح نے 14 اگست کا دن مانگ لیا ہے آزادی کے جشن کی خاطر۔

ان کی اس بحث کا نتیجہ منفی نکلا کہ ریڈ کلف نے معذرت کرلی مزید اس پیکج پر کام کرنے سے تو لارڈ کے مشیر نے جو کہ دراصل تاج برطانیہ کا مخفی نمائندہ تھا نے ریڈ کلف کو اس کا پیکج  کو بھول جانے کو کہا اور اسے 1905ء کا “چرچل پلان” پکڑایا کہ اس میں موجودہ صورتحال کےمطابق ردوبدل کرکے اعلان آزادی کیا جائے جس پر ریڈ کلف اور ماؤنٹ بیٹن کو شدید تحفظات ہوئے لیکن تاریخ کے وہ اس موڑ پر تھے کہ کچھ کرنہیں سکتے تھے اور چیں بہ جیں ہوکر بھی اس پلان کو ماننا پڑا اور یہی تھی وہ سازش جس نے پاکستان اور اسکی عوام کو بہت نقصان پہنچایا کیونکہ یہ تقسیم کا ایجنڈا نہیں بلکہ تباہی اور مسلسل غلامی کا ایجنڈا تھا۔

کانگریس 15 جولائی 1947ء تک بضد رہی اور گاندھی جناح کی لارڈ ڈکی کے ذریعے منت سماجت کرتا رہا کہ وہ الگ وطن کے مطالبے سے ٹل جائے بلکہ یہاں تک تجویز نما لالچ دیا کہ محمد علی جناح آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم  بن جائیں اور اپنی کابینہ تشکیل دیں جس پر لارڈ ڈکی گاندھی کی عظمت کا معتقد ہوکر کھلے عام جانبدار بن گیا اور جناح کو قائل کرتا رہا لیکن جناح وہ تھے جن کو ان کے سیاسی مخالفین اکھڑ, سخت مزاج, مغرور اور ضدی کہتے تھے، ٹس سے مس نہ ہوئے۔۔ اس دلیل کے تحت کہ یہ گاندھی اور نہرو کا بڑا پن نہیں بلکہ گہری سازش ہے جس میں لارڈ صاحب آپ بھی شامل ہیں کیونکہ آپ کو گورنرشپ مل جائے گی اور رہ گئی بات پہلی ہندوستانی کابینہ تو وہ جلدی تحلیل ہوجائے گی کیونکہ 35 فیصد مسلمان جوکہ اقلیت ہونگے بھارت کے حکمران نہیں بن سکتے 65 فیصد ہندوؤں کی وجہ اور مخالفت سے۔

1940ء کی قرارداد پاکستان ہی دراصل وہ رخنہ بنا ہوا تھا تاج برطانیہ کے جانبدار نمائندوں کے لیئے کہ وہ آزادی کے پراسس کو لٹکاتے رہے اور فسادات کو ہوا دیتے رہے لیکن آخر مد مقابل بھی ہٹ دھرم جناح مسلمانوں کا مقدمہ آزادی لڑرہے تھے اور اگلے سات سال میں سارے سیاسی برجوں کو الٹا کر قیام پاکستان کا دن لے آئے۔

اگر سرکلف کی تقسیم پر عمل کیا جاتا تو نقشہ بہرحال کچھ اور ہوتا لیکن لارڈ کی عجلت اور جانبداری اور تاج برطانیہ و امریکہ بہادر کی سازش کامیاب ٹھہری اور مسلمانوں کو بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی ہاتھ آئی لیکن جناح کی دور اندیشی نے اس کو بھی خوب جانا اور صبر و شکر کا یہ پیکر اپنے دم پر جو لے سکا لے دیا ورنہ اصل تقسیم کا ایجنڈا تقریبا ً وہی تھا جو جناح نے پیش کیا تھا, لیکن جب عین وقت پر آزادی ہند کے پیکج کو “چرچل پلان” سے تبدیل کیا گیا تو طریقہ اعلان بھی بدلا گیا کہ پہلے دونوں ملک کی عوام جشن منالے پھر ان کو بتایا جائے کہ انہیں دراصل ملا کیا ہے اور یقیناً یہ بھارت کی عوام کے لیئے بھی ایک اچھا سرپرائز ثابت ہوا جبکہ پاکستان کی عوام کے لیئے برا سرپرائز۔

پاکستان اور بھارت بالترتیب 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب رات بارہ بجے آزاد ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرے اور ان کی بعد کی سیاست نے آج کے دن تک ثابت کیا ہے کہ یہ تقسیم ضروری تھی بہت زیادہ ضروری تھی لیکن اس طرح نہیں جیسے یہ ہوئی, جناح کو اس بات کا اندازہ کچھ پہلے سے ہی تھا کہ ہمیں دھوکا دیا جارہا ہے لیکن وہ اپنی زندگی میں اسلامیان ہندوستان کو الگ وطن لے کر دینا چاہتے تھے یہ ان کا جنون بن چکا تھا۔

جناح کو ایک سال کی اور زندگی ملی آزادی کے بعد جس کا اندیشہ ان کو پہلے ہی تھا اپنی بیماری کے پیش نظر لہذا انہیں بہت سے کڑوے اور ناممکن فیصلے کرنے پڑے صرف برصغیر کے مسلمانوں کی خاطر لیکن آج کا لبرل اور سیکیولر طبقہ ان باتوں پر زور دیتا ہے کہ تقسیم کا مطالبہ غلط تھا اور جناح ہوس اقتدار کا شکار تھے ان وجوہات کی بنیاد پر کہ

متحدہ ہندوستان میں وزیراعظم کا عہدہ تسلیم نہیں کیا کہ وہاں صرف وزیراعظم کہلاتے قائداعظم نہیں۔

آڑھی ترچھی تقسیم کا ذمہ جناح پر ہے ورنہ متحدہ ہندوستان میں کسی کو ہجرت اور قربانیوں کے عذاب سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔

“چرچل پلان” کے مطابق تقسیم نے پاکستان کو تاج برطانیہ اور امریکہ بہادر کا چوکیدار ہی بنایا خطے میں روس اور چائنہ کو گرم پانیوں اور تیل کی دولت تک رسائی کے راستے میں لہذا جناح قائداعظم نہیں بلکہ تاج برطانیہ اور امریکہ بہادر کے پٹھو اعظم تھے۔

اور مزے کی بات ہے کہ یہ الزامات اور بدگمانیاں تقسیم کے وقت کٹر کانگریسی مسلمانوں نے بھی جناح پر عائد کیں لیکن حقیقت الٹ تھی جو آج ثابت ہورہی ہے بھارت میں دگرگوں مسلمانوں کو دیکھ کر۔

بہت لمبا اور تکلیف دہ سفر تھا یہ آزادی کا جس میں مال وجان کی قربانی تو عوام نے دی اور برضا و رغبت دی لیکن ہمارے رہنماؤں نے ذاتیات, خواہشات اور عزت و وقار کی قربانی بھی دی کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو ان کا الگ وطن مل سکے۔یہ سفر تھا ایک تپتے ہوئے صحرا میں نخلستان کی تلاش کا کہ دو گھونٹ تازہ پانی اور سکون کی چھاؤں میسر آسکے۔ابھی ہماری منزل دور ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کی خواہش محمد علی جناح نے شدت سے کی تھی۔

پاکستان کا جب نام اس خطے میں گونج اٹھا تھا اس کے بعد اس کو زوال ہو یہ اللہ کی رضا نہیں تھی اور یہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جس کو ایک سازش بناکر بلکہ ثابت کرکے غلام رکھنے کا بندوبست کیا گیا تھا وہ آزاد تھا, آزاد ہے اور ان شاء ﷲ آزاد رہے گا۔

کل کہا تھا کہ  پاکستان کا مطلب کیا  ۔۔لا الہ الاللہ

آج بھی یہی کہتے ہیں اور کل بھی یہی کہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قائداعظم زندہ  باد
پاکستان پائندہ باد

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply