ایک تصویر ایک کہانی۔۔۔۔۔شفیق زادہ/پہلی تصویرکہانی

“سایہ مارلن میں اب جینا چاہیے ”

اگر کسی نے شاعر مشرق کی رومانوی نظم ’ ہمدردی ‘ پڑھی ہو تو اسے معلوم ہوگا کہ ہیں لوگ و ہی جہاں میں اچھے ، آتے ہیں جو کام دوسروں کے ۔ کبھی کسی ٹھیلے والے ، کبھی فالودے والے تو کبھی موچی ، چمار و کمہار کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے ڈلوانے والوں کی طرف دھیان گیا تو راقم اس رقم سے بری الذمہ ہے ، مشتری ہشیار باش!
کچھ مہان لوگ اپنی زندگی میں تو دوسروں کو نفع پہنچاتے ہی ہیں مگر بعد المرگ بھی ان کے فیض کا سلسلہ نہیں رکتا ۔ زیر تبصرہ تصویر اس کی روشن مثال ہے۔ مسماۃ مارلن منرو وہ عظیم المرتبت  خاتون تھیں کہ جب تک حیات رہیں، عظیم الشان سلطنتِ امریکہ کو اپنے پیچھے لگائے  رکھا۔ حالانکہ بڑے بڑے لوگوں کے بڑی بڑی شکاری مونچھوں والے داماد و صاحبزادگان ، ایوان صدر سے ’ مروت دھارا ‘ چڑھائے ان کا وینا حیات کرنے ان کے پیچھے دوڑتے رہے مگر موصوفہ نے ثابت کر دیا کہ ان کی ٹانگیں اُن مُچھڑوں کی مونچھوں سے زیادہ طاقتور ہیں، چنانچہ سب کو ہی لنگڑی مار کر دھول چٹاتی رہی۔ چار سلیبل پر مشتمل ، مائی کا نام ہی کچھ ایسا تھا کہ مردوں کو ڈیل کرنے اور عورتوں کے حق پر ڈاکہ مارنے میں کبھی کوئی مشکل نہیں ہوئی۔


مسماۃ مار لن منرو نے شب وروز یوں بسر کئے کہ مرد آج بھی عش عش اور خواتین ہش ہش کرتی ہیں ۔ جے ایف کینیڈی نے بیچاری کو  خاتون اوّل بنوانے کی کینڈی دِکھا دِکھا کر ایوان صدر کو خوب آباد کیے رکھا ۔  سادگی کے اس زمانے میں عالمی سیاست ابھی بلوغت کے اس دور میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ الیکشن جیتنے کے لیے جورو قتل یا سلیکشن پکّی کرنے کے لیے بیوی مطلقہ کرنی پڑ ے ۔ مسماۃ مارلن نے بعد الموت بھی ’عام آدمی ‘ کو سر اُٹھا کر جینے کا جو شعور دیا ، اس سے عام آدمی کی آنکھیں کھل گئیں ، اسی گیان  کی خوبصورت عکاسی زیر تبصرہ تصویر میں بہ خوبی ہو رہی ہے ۔ مسماۃ مارلن سے غلط منسوب ایک قول ہے کہ’ مرد جب تک نیچے دیکھتا رہے گا ، تھلے ہی رہے گا، اوپر چڑھنے کے لیے اوپر ہی دیکھنا چاہیے‘ ، باقی آدمی خود سمجھ دار ہے خود ہی جانے۔
چھتیس کا فگر رکھنے والی، فطری لباس میں ہی ملبوس یو ں راہی عدم ہوئی کہ مرتے دم بھی ہاتھ فون پر ہی تھا، نہ جانے کس کا انتظار تھا ، کس نے آ کر موت سے پہلے کسی غم سے بچانا تھا، کون تھا جو ہمیشہ دیر کر دیتا تھا؟
جے ایف کے قتل کی طرح یہ انتظار بھی تاریخ کا راز ہی رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شفیق زادہ کی خود ساختہ خود نوشت سوانح (مزا)حیات سے ایک اقتباس

Facebook Comments

ShafiqZada
شفیق زاد ہ ایس احمد پیشے کے لحاظ سےکوالٹی پروفیشنل ہیں ۔ لڑکپن ہی سے ایوَی ایشن سے وابستہ ہیں لہٰذہ ہوابازی کی طرف ان کا میلان اچھنبے کی بات نہیں. . درس و تدریس سے بھی وابستگی ہے، جن سے سیکھتے ہیں انہیں سکھاتے بھی ہیں ۔ کوانٹیٹی سے زیادہ کوالٹی پر یقین رکھتے ہیں سوائے ڈالر کے معاملے میں، جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی طمع صرف ایک ہی چیز ختم کر سکتی ہے ، اور وہ ہے " مزید ڈالر"۔جناب کو کتب بینی کا شوق ہے اور چیک بک کے ہر صفحے پر اپنا نام سب سے اوپر دیکھنے کے متمنّی رہتے ہیں. عرب امارات میں مقیم شفیق زادہ اپنی تحاریر سے بوجھل لمحوں کو لطیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ " ہم تماشا" ان کی پہلوٹھی کی کتاب ہے جس کے بارے میں یہ کہتے ہیں جس نے ہم تماشا نہیں پڑھی اسے مسکرانے کی خواہش نہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ایک تصویر ایک کہانی۔۔۔۔۔شفیق زادہ/پہلی تصویرکہانی

Leave a Reply to خواجہ منور الدین Cancel reply