شاہ محمد شاہ -اک جہد ِمسلسل کی داستان۔۔معاویہ یاسین نفیس

سید شاہ محمد شاہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہیں۔

شاہ محمد شاہ کو پاکستان بالخصوص صوبہ سندھ کی سیاسی تاریخ میں کئی ایسے امتیازات حاصل ہیں جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے، انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں جتنے مشکل چیلنجز کا سامنا کیا وہ بھی ان کا خاصہ تھا۔

ایوبی آمریت ہو یا ضیائی آمریت ، یحیی ٰ کی آمریت ہو یا مشرف کی آمریت تمام آمروں کی آنکھوں میں کھٹکنے والا شاہ محمد شاہ جمہوری حکومتوں میں بھی  جبر و ظلم سہتارہاہے۔
19 جنوری 1951 کو سید احمد شاہ کے گھر آنکھ کھولنے والے شاہ محمد شاہ نے مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے ایک تاریخ رقم کی ہے۔

یہ سن 1965 کے زمانہ کی بات ہے ملک بھر میں صدارتی الیکشن کی گہما گہمی تھی ،فضاء ایسی تخلیق کی گئی تھی کہ صدارتی الیکشن غداروں  اور محب وطنوں کے درمیان ہورہاہے۔

حقیقت یہ  ہے کہ بانیان ِ پاکستان کو غداری کا سرٹیفکیٹ تھمایا گیا تھا، جبکہ انگریز سے ورثہ میں ملے ہوئے سرکاری نوکروں کو محب وطن کا سرٹیفکیٹ تھمایا گیا تھا۔غداروں کی صف میں سندھ اسمبلی میں سب سے پہلے پاکستان کی قرارداد پیش کرنےوالے جی ایم سید ، قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو کھڑا کیا گیا۔

یہ وہ حالات تھے جب پورے ملک کے جاگیردار گھرانےجنرل ایوب کے ساتھ تھےجبکہ فاطمہ جناح کے ساتھیوں میں جی ایم سید، حیدر آباد کے تالپور برادران،فاضل راہو تھے۔
جب اس انتخابی گہما گہمی کی گونج بھانوٹ میں کھیلتے 13 سالہ بچے شاہ محمد کے  کانوں میں پڑی۔۔
ہر شخص گلاب کے پھول کے بیحز سینے پر  سجائے اپنے تئیں خوشبوئیں مہکانے کی سعی کررہا  تھا مگر  کیا  وہ  جانتے تھے کہ یہ وہ گلاب ہے جو وقتی طور پر مہک تو دے رہاہے مگر اسکے اثرات ملکی جمہوریت پر کتنے زہریلے ہونگے کہ اسی اثناء میں ایک نوجوان نے انہی لڑکوں میں کھیلتے ہوئے شاہ محمد کے سینے پر لالٹین کا بیج لگادیا۔

شاہ محمد شاہ  یہ دیکھتا رہا کہ میرے  ا  ردگرد ہرسُو گلاب کی مہک ہے مگر میرے سینے پر جمہوریت کی روشنی دیتی لالٹین ہے اب اس روشنی کو پھیلایا جائے یا پھر  وقتی طور پر گلاب کی مہک سے  استفادہ  حاصل کیا  جائے۔

بہرکیف اپنے چچازاد بھائی عرفان شاہ کو دیکھ کر اس نے بھی فیصلہ کرلیا کہ جمہوریت کی روشنی دیتی یہ لالٹین آمریت کی وقتی مہک سے کئی درجہ بہتر ہے۔یہ وہ دن تھا جب شاہ محمد شاہ نے جہد مسلسل کا آغاز کرڈالا۔

اور پھر  وقت گزرتا گیا طلبہ سیاست کا محاذ ہو یا ون یونٹ کے خلاف زور پکڑتی تحاریک ہوں ، آمریت کے خلاف جدوجہد ہو یا پھر  جمہوری ادوار میں آمرانہ رویے  ہوں شاہ محمد شاہ ہر تحریک میں صف اول میں کردار ادا کرتا پایاگیا۔
سیاسی جدوجہد میں پہلی قید ایوبی آمریت میں کاٹی۔پھر ضیاء الحق کی آمریت کا دور آیا تو ایک بار پھر  شاہ محمد شاہ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاگیا یہ سلسلہ قید و بند کا پھر تھما نہیں حتٰی  کہ  ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے جمہوری دور میں بھی شاہ محمد شاہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آیا۔

وقت گزرتا گیا ،شاہ محمد شاہ کی زندگی میں وہ لمحہ بھی آیا کہ جب اسکی والدہ محترمہ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئیں اور شاہ محمدشاہ اس وقت جیل میں تھا کہ جیلر شاہ محمد شاہ کی بیرک میں پیرول آرڈر لئے دستخط کروانے آیا تو شاہ محمد شاہ نے جمہوریت کو آمریت پر ترجیح دیتے ہوئے احتجاجاً دستخط سے انکار کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا کہ یہ وقتی رہائی کا پروانہ ایک آمر سے مدد کی بھیک مانگنے کے مترادف ہے۔ میں ایک آمر سے رحم کی بھیک کبھی نہیں لوں گا۔اور یوں وہ ماں کے آخری دیدار سے بھی محروم رہا۔

حالات یہاں تک آئے کہ ایک بار تو شاہ محمد شاہ کو جلاوطن کیا گیا اور ایک بار جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کردیاگیا۔آج 19 جنوری شاہ محمد شاہ کی اکہترویں سالگرہ ہے۔مجموعی طور پر شاہ محمد شاہ کی زندگی کا آٹھ سالہ دورانیہ قید و بند کی صعوبتیں کاٹتے گزرگیا جبکہ آٹھ سالہ دورانیہ جلاوطنی میں گزرگیا۔

آج ہمیں شاہ محمد شاہ کی اکہتر سالہ زندگی یہ پیغام دے رہی ہےکہ جمہوریت پھولوں کی سیج نہیں ،کانٹوں کا ایک بستر ہے۔ آج ہمیں اگر لنگڑی لولی جمہوریت میسر ہے تو یہ اس بدترین آمریت سے کئی درجہ بہتر ہے جس میں انسان اظہارِ رائے کی آزادی جیسے بنیادی حق سے بھی  محروم کردیاجاتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس جمہوریت کی آبیاری میں شاہ محمدشاہ جیسے کئی کرداروں کی تلخ قربانیاں شامل رہی ہیں۔   آج کے اس پُر مسرت موقع پر میں شاہ محمد شاہ کی جدوجہد کو خراجِ  تحسین پیش کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت قائد اعظم کے اس پاکستان کو ان کے خوابوں کی اصل روح نصیب فرمائے اور شاہ محمد شاہ کو عمر ِخضر عطافرمائے۔آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply