آہ!ورلڈکپ فائنل/محمد وقاص رشید

پھر وہی سرما کی رت کا ایک ملگجا سا بھیگا بھیگا دن تیس برس پہلے کی یادوں کو تازہ کرنے کی امید جگاتا طلوع ہوا۔ کون سی یادیں۔ ارے بھیا ایک ملک بستا ہے یہاں جو سیاست ، صوبائیت ، لسانیت ، جمہوریت و آمریت، امارت و غربت اور ذات پات جیسی نہ جانے اور کتنی تقسیموں میں بٹا ہوا ہے۔

یہ قوم ایک کھیل پر اکٹھی ہوتی ہے اور وہ ہے کرکٹ انکے لیے یہ ایک قومی خوشی ہے۔ ویسے یہ تمام اختلافات بھلا کر یا انکے ساتھ صلح جوئی سے رہنا سیکھ کر کرکٹ ہی کی طرح دوسرے میدانوں میں بھی یکجان ہو جاویں تو تقسیم کی دراڑیں بھر کر منزل کی جانب جانے والی پگڈنڈیاں بن سکتی ہیں۔

وہی گراؤنڈ ، وہی دو ٹیمیں اور وہی ورلڈ کپ کا فائنل ، ایسے میں اس یاد کے تازہ ہونے کی امید تو فطری ہے۔ اس آس کے ساتھ قوم ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھی تو پہلی خبر تو اچھی نہیں تھی جب پاکستان ٹاس ہارا اور بیٹنگ کی دعوت ملی۔ بحرحال سوچا کہ بیٹنگ بہت فارم میں ہے سیمی فائنل والا مومینٹم لے کر آغاز کریں اور سکور کو 160+ تک لے جائیں تو یہ بھارت کی باؤلنگ نہیں ہے۔ پاکستان کی باؤلنگ ، ورلڈکپ کا فائنل ، پریشر میچ میں انگلینڈ کے انڈین خور بلے باز قابو آ سکتے ہیں۔

بابر اعظم اور رضوان جب میدان میں اترے تو بڑی آس تھی کہ سیمی فائنل میں غیر معمولی کارکردگی کا اعتماد ان کی بدن بولی میں نظر آئے گا۔ کہنیاں پسلیوں سے علیحدہ ہونگی ، پیروں کی حرکت گیند کی لائن اور لینتھ کا پیچھا کرے گی اور شاہنوں کی عقابی نگاہیں گیند کو بلے سے پاش پاش کرتے ہوئے پاور پلے کو اس فائنل میں ٹیم کی اصل پاور میں تبدیل کردیں گی۔

لیکن یہ دیکھ کر دل تھوڑا پشیمان سا ہوا کہ تبلیغی جماعت کے کرکٹ ٹیم کے ساتھ بھیجے گئے امیر جناب رضوان صاحب جو فرماتے ہیں کہ ان سے آف سائیڈ کی بال اللہ لیگ سائیڈ پر لگواتا ہے اور انکی تیکنیک پر اعتراض کرنے والے اگر ملک کی بہتری کے لیے تنقید کرتے ہیں تو خدا جزائے خیر دے اور اگر اپنی ذات کے لیے تنقید کرتے ہیں تو اللہ انہیں ذلیل کرے گا۔

طالبِ علم ہر کسی کے مذہبی جذبات کے احترام کا دل سے قائل ہے لیکن اپنے قومی سطح کے پروفیشن میں اپنی ناقص کارکردگی پر مذہب کو ڈھال بنا نے کا ہر گز نہیں۔ اگر آپ ذہن میں ہر بال کو لیگ سائیڈ پر کھیلنے کا ذہن بنا کر آف سائیڈ کی بال پر گرتے ہیں آپکا سر سیدھا نہیں رہتا اور آپ بار بار ان سائیڈ ایج پر بولڈ ہو جاتے ہیں تو اس میں خدا کی رضا میں راضی ہو نے والی ٹویٹس کر کے آپ صرف مذہب کو اپنی ڈھال بناتے ہیں ورنہ پھر وہی سوال کہ خدا نے بٹلر اور سٹوک سے کورز میں چوکے لگوائے تو آپ سے کیوں نہیں ۔ اگر خدا آف کی بال آپ سے لیگ پر لگواتا ہے تو اس نے فری ہٹ بھی آپ سے مس کروا دی۔ اسی خدا پر اسی تبلیغی فلسفے سے یقین رکھنے والے آپکے بیٹنگ کوچ محمد یوسف دنیا کی بہترین کور ڈرائیو مارنے والے کھلاڑی رہے ہیں بھائی صاحب۔

بابر کا ہاف شاٹس کھیلنا سمجھ سے بالاتر تھا۔ اپنے پسندیدہ ایریاز میں آئی ہوئی گیندوں کو بھی وہ ہلکی پھلکی فلکس ، نجز اور چپنگ کرتا رہا۔ اسکے سوا وجہ نظر نہیں آتی کہ حد سے زیادہ دفاعی ذہن سے بیٹنگ کر رہا تھا اور پھر وہی ہوا جب اسکے رن آ بال کی ضرورت تھی تو وہ عدل رشید کی گگلی کا شکار ہو گیا۔

حارث کو ذہنی پختگی اور کرکٹنگ شاٹس سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس میں پوٹینشل ہے دلیری ہے لیکن صورتحال کے مطابق اگر وہ ایک بلے باز کی طرح اپنی گیم کو بہتر نہیں بناتا اور محض بلا گھمانے کو ہی بیٹنگ سمجھتا ہے تو اسکا کیرئیر خطرے میں ہے۔

شان مسعود وہ واحد بیٹسمین ہے جو کل خود اعتمادی سے میدان میں اترا اور ہر بال کو اسکے میرٹ پر کھیلتا رہا۔ کاش کہ وہ آخر تک رہ جاتا ویسے میرے خیال میں جس بال پر وہ آؤٹ ہوا لمبی باؤنڈری میں دس پندرہ میٹر آگے کھڑے ہوئے فیلڈر کے ہاتھوں میں دینے کی بجائے اچھی ٹائمنگ سے یا تو پوری شاٹ کھیلتا یا پھر گراؤنڈ شاٹ ہی کھیل دیتا کیونکہ اسکا آخر تک جانا ضروری تھا۔

شاداب بھی کریز میں رہ کر پچھلے قدم پر سلاگنگ کی مسلسل کوشش کرتا رہا اور کوئی بھی اور شاٹ ٹرائی ہی نہیں کی ۔ اور رہی بات افتخار کی تو یقین کیجیے جس طرح طوطے اسکے اڑے ہوئے تھے اللہ اللہ۔ عادل رشید کا سارا اوور میڈن کھیل گیا۔ جو چند گیندیں اس نے ضائع کیں ان میں سے ایک پر بھی سنگل لینے کی بھی ٹرائی نہیں کی۔ ان کھلاڑیوں کی تیکنک پر حیرت ہوتی ہے جو صاف پتا چلتا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بھی ون ڈے کی طرح عمودی بلے سے پہلی دس بارہ گیندیں بالکل ڈمپ کرنے آتے ہیں ، او بھیا یہ والی کرکٹ دنیا سے رخصت ہو چکی ۔ اب ون ڈے بھی ایسے نہیں کھیلا جاتا۔ انگلینڈ کے کھلاڑی بھی آؤٹ ہوتے رہے پاکستان کی بالنگ بھی انگلینڈ سے بہتر تھی سوائے وسیم کے لیکن انگلش بلے بازوں میں سے اس منفی ذہن سے کوئی بھی نہیں کھیلا۔

آخری چار اوورز میں صرف اٹھارہ رنز پاکستان کی بیٹنگ کے ورلڈکپ فائنل کے شایانِ شان ہر گز نہیں تھے اور یہی ہار کی وجہ بنی جو بعد میں ثابت ہوا کہ اگر پندرہ رنز بھی اور ہوتے تو اس وقت راقم الحروف اپنی تحریر سے فتح کے جشن میں شامل ہو رہا ہوتا۔

مایوس دِلوں میں شاہین شاہ آفریدی کی جادوئی گیند نے ہیلز کی وکٹیں اڑا کر امید کی کرن پیدا کی تو انتھک حارث نے سالٹ اور بٹلر کی وکٹوں سے اس کرن کو ایک چراغ میں بدل دیا ۔ اس پر نسیم شاہ کی شاہکار سوئنگ بولنگ نے چار چاند لگا دیے تو شاداب کی شاندار لیگ بریک بالنگ نے کیری بروک کو آؤٹ کر کے جیت کا باقاعدہ یقین سا پیدا کر دیا۔

بد قسمتی سے شاہین شاہ آفریدی ہیری ببروک کا کیچ لیتے ہوئے اپنے بیمار گھٹنے کو ایک بار پھر زخمی کروا بیٹھا اور یہ میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا جب اسکی بچی ہوئی پانچ گیندوں پر افتخار کو بارہ رنز لگ گئے۔

محمد وسیم جونئیر ٹیم میں وہ واحد باؤلر ہے جو ریورس سوئنگ کر سکتا ہے لیکن ایک بار پھر اہم ترین موقع پر وہ ڈھیلی ڈھالی شاٹ پچز اور فل ٹاس کرتا رہا جسکا بین سٹروک اور معین علی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

بابر کا ذہن اہم مواقع پر متحرک کپتانی کی تکنیکس سے بے بہرہ نظر آتا ہے ۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ نواز کو جب بالنگ ہی نہیں دینی تو اسکا ٹیم میں کام کیا ہے۔ نسیم کا ایک اوور بچا لینا بہت ضروری تھا۔ افتخار کی پانچ گیندوں میں رنز لگ گئے تو آپ حارث کی طرف جاتے بجائے اپنے ویک لنک کی جانب۔

بہرحال بیٹسمینوں کی  ناقص کارکردگی سے ون سائیڈڈ بنائے گئے ایک عام میچ کو پاکستانی باؤلرز نے اپنی جانفشانی سے واقعی ایک سنسی خیز ورلڈکپ فائنل میں تبدیل کر دیا اور پاکستانی قوم ایک اجتماعی خوشی سے محروم ہو گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پسِ تحریر ! حسبِ معمول رضوان بھائی نے ایک ٹویٹ داغ دیا ہے کہ ہم اللہ کی رضا میں راضی ہیں۔ قومی ٹیم کے آف دی فیلڈ اور آن دی فیلڈ تھنک ٹینکس بیٹسمینوں کی بیٹنگ اور ٹیم سلیکشن پر توجہ دیں نہ دیں صرف ایک مہربانی فرمائیں کہ یہ بتا دیں کہ اللہ کی رضا ہر بڑے ایونٹ میں انکے ساتھ کیوں ہو جاتی ہے جو کرکٹ کے میدان گیند اور بیٹ سے کھیلتے ہیں لوگوں کے مذہبی جذبات سے نہیں ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply