یومِ مئی/جمیل آصف

بچپن سے ہی کام کاج کے لیے مختلف ذریعہ معاش کو اپنایا جس میں چنے چاٹ بیچنا مڈل کلاس میں سبزی منڈی میں جانا اور میٹرک میں مختلف ورکشاپس پر جا کر کام کرنا ۔
یہ کوئی عار اور شرم کی بات نہیں نا ہی ہونی چاہیے ۔فسٹ ائیر میں ایک گھی کی ایجنسی پر ملازمت کرنا بہت سے سبق سکھا گیا ۔
سیکنڈ ائیر میں پہلا بزنس شروع کیا تو شدید قسم کا نقصان دیکھا، دھوکا ہوا جس کا بنیادی سبب والد صاحب کا کراچی کی ایک پارٹی سے کچھ لین دین تھا اور اس شاطر مزاج شخص نے مجھے کام پر ابھارا اور ہینڈی کرافٹ کراچی لانے کو کہا ۔
نوجوان تھا اچھے معاشی خوابوں کی تکمیل اور والدہ کی مادی خواہشات پورا کرنے کے لیے اس کی باتوں میں آگیا ادھار مال پکڑا اور چل دیا ۔اس نے اپنے پیسے پورے کیے مجھے پنجاب کا رستہ دکھایا کہ حساب پورا ہوا ۔28 دن شدید اذیت گزارے اور واپس آگیا ۔
والد صاحب نے ہمیشہ کی طرح بے حسی دکھائی ۔1999 میں ایک بڑا قرض سر پر آن پڑا ۔
اسی دوران تھرڈ ائیر میں جا پہنچا ایک آڑھتی کے پاس 500 روپے ہفتہ پر پلے داری شروع گرمیوں میں صبح سے شام تک گندم اٹھاتا، عزیز رشتے دار مذاق اڑاتے، کالج جاتا واپس آتا زندگی ایک چکی تھی دو پاٹوں میں پستی رہی۔
قرض اتارتا اپنے اخراجات پورے کرتا ۔دن نکلتے رہے. لیکن ایمان داری اور صبر کا دامن نا چھوڑا
کچھ حوصلہ دیتے زیادہ تر مذاق اڑاتے گدھے سے تشبیہ ملتی خاموشی سے کام کرتا رات کو تھک ہار کے سو جاتا ۔ شہر کی شوگر مل میں بطور جوس کلرک کام کیا ۔
حالات زیادہ تنگ ہوئے کالج کی چھٹیوں میں دوبارہ کراچی جا پہنچا ۔
رات کے ٹھکانے اور تین وقت کی روٹی کے لیے گارڈن میں 2d بس کے گیراج میں جا پہنچا ۔دھوبی گھاٹ پر کھلا گیراج اور خراب حالات میں وقت گزارا کچھ کام سیکھا تو پیسے بھی ملنے شروع ہوئے ۔
کراچی میں موجود عزیزوں کے دروازے بند ہوئے اہانت آمیز رویوں کا سامنا ہوا جن سے آج تک ان کے مکروہ کردار کی بدولت شدید نفرت ہے ۔صدر سے استعمال شدہ کپڑے خریدے تو بنا بٹن کے کامن پن سے کام چلایا۔
بس میں سو جاتا گرمی لگتی تو باہر بینچ جوڑ کر اس پر لیٹتا تو مچھر آ جاتے.
قمیض کے بازوں سے ہاتھ اندر کرتا گردن کو کالر میں اور شلوار کے پائنچوں سے پاؤں کو سمیٹتا ایک کچھوے کے خول کی طرح سکڑ کر رات گزارتا ۔ اللہ پر توکل کرتا رہا وہ راتیں زندگی کے بہت سے تاریک پہلو آشکار کر گئی ۔
کچھ وقت کے بعد پھر واپس آیا دوبار 2003 میں اللہ نے بزنس کا موقع دیا ۔ فورتھ ائیر کے پیپر دئیے اور 4 سال کی آزمائش کے بدلے خوب نوازا ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ان تمام مکروہ چہروں سے خود کو دور کیا ۔
کراچی کی ایکسپورٹ کی مارکیٹ میں نام بنا ملک بھر کی دستکاری کی صنعت کے مرکزی سپلائرز میں شمار ہونے لگا ۔ اللہ نے خوب نوازا، بہت کچھ بنایا جس شہر کے ویران کھنڈر گیراج کے گندے میدان میں رات پر سکڑا پڑا رہتا یا گارڈن کی لیاری ندی کی کچی بستی میں گندے کوارٹر میں سوتا تھا اسی شہر کے اچھے ہوٹلوں میں رہتا اچھے کھانے کھاتا اور شکر ادا کرتا ۔بلاشبہ کوآپریٹو مارکیٹ میرے لیے سونے کی کان ثابت ہویی اور کراچی شہر نے سارے دکھ دھو دئیے ۔ جو مجھے کراچی ہی کے لالو کھیت کے ایک بیوپاری سے ملے ۔
اچھے کاروباری لوگ تھے، انہوں نے میری پزیرائی کی کاروبار میں راہنمائی کرتے اور سکھاتے، حوصلہ دیتے میری کاروباری تربیت کر گے ۔ان کے لیے دعائیں ہر وقت زبان پر رہتی ہیں ۔روبی ہینڈی کرافٹ کے عبدالعزیز مرحوم نے بیٹوں کی طرح شفقت کی ان کے سیل مین عبدالحمید مرحوم ان کے بیٹے ڈائمنڈ کلاتھ ہاوس والے خالد بھائی عابد بھائی اپنے بھائیوں کی طرح سلوک کرتے ۔یہ ایک اچھے کاروباری تعلق کی زندہ مثال ہیں ۔
وقت بدل جاتے ہیں تلخیاں باقی رہتی ہیں امید، ناامیدی اور خوف کے سایہ میں کشتی پار لگ ہی جاتی ہے لیکن روح گھائل ہوتی ہے خوبصورت دن اسی کشمکش میں بیت جاتے ہیں اور یہی زندگی کا حصہ ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply