• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پارلیمنٹ کی طاقت کے پیچھے اصل طاقت کون سی ہے؟۔تحریر/ڈاکٹر ابرار ماجد

پارلیمنٹ کی طاقت کے پیچھے اصل طاقت کون سی ہے؟۔تحریر/ڈاکٹر ابرار ماجد

پارلیمنٹ پاکستانی سیاست کا ایک نیا باب لکھ رہی ہے۔ یوں بظاہر تو پارلیمان عدالت عظمیٰ کے ساتھ کشمکش کی صورتحال سے دوچار ہے مگر عدالت عظمیٰ کے اندر سے اٹھنے والی عدالتی رائے جس نے نہ صرف چیف جسٹس کے بنچ بنانے کے اختیارات بارے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ سوؤ موٹو کے اختیار پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے ہیں اور اوپر سے چیف جسٹس صاحب سمیت ان کے ہم خیال ججز جو ان کے بنچز میں تسلسل کے ساتھ حکومتی مقدمات سننے میں ساتھ بیٹھتے رہے ہیں بارے آڈیو لیکس نے ان ججز کو عوامی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔

جہاں ججز کا کنڈکٹ اور عدالتی فیصلے اختلافی نوٹس کے سبب تنقید کی زد میں آئے اور اسی بنچ میں موجود ججز کے جاری کردہ اختلافی نوٹس نے ان بنچز اور فیصلوں بارے تنقید کو اور بھی آسان بنا دیا اور لوگ عدالت ہی کے معزز ججز کے اختلافی نوٹس کے حوالوں سے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور حکومت کو بھی جواز مہیا ہوگیا کہ وہ اپنے خلاف فیصلے کو دو تین کے بجائے چار پانچ کی نسبت کا فیصلہ کہتے ہوئے وہ اس کے خلاف قرارداد منظور کروانے میں حق بجانب لگنے لگے۔

اس سارے منظر نامے کے پیچھے وہ تمام سہولت کاریاں اور فیصلے تھے جن کا آغاز 2014 کے دھرنوں اور یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سے ہوتا ہوا میاں نواز شریف کی نااہلی سے ہُوا۔ اس سارے دورانیے میں پارلیمان عدالت عظمیٰ کے تقدس میں ہر سزا کو برداشت کرتے آ رہے تھے مگر ان کے اندر ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں بارے تحفظات ضرور تھے۔ مگر اس وقت اس سارے کھیل میں فوجی سہاروں کا بھی ساتھ میسر تھا جس کی وجہ سے پارلیمان اپنی بے بسیوں کو چھپائے کسی خاص وقت کی تلاش میں خاموش ظلم و ستم سہتی رہی۔

اس دوران 2008  سے لے کر 2018  تک حکومت کو گرانے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں ایک دوسرے کو سہارا مہیا کرکے جمہوریت کو دوام بخشتے رہے۔ نواز شریف نے 2008  سے لے کر 2013  تک پیپلز پارٹی کا ساتھ دے کر جمہوریت کے خلاف عمل پیرا قوتوں کو شکست دینے میں پورا پورا ساتھ دیا اور اسی طرح 2013  سے لے کر  2018  تک پیپلز پارٹی نے بھی مسلم لیگ کا ساتھ دے کر مشکلات جھیلیں مگر جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا۔

مک مکا کے طعنے بھی سنے، جیلیں بھی جھیلیں، دم بھی گھٹتا رہا مگر اشاروں کناؤں میں اپنے خلاف ظلم و ستم کی نشاندہی  بھی کرتے رہے اور جمہوریت کے پرچم کو بھی تھامے رکھا۔ آخر 2018  کے الیکشن میں جمہوریت کے روپ میں بہروپیے کی صورت وہ کوششیں اپنا رنگ دکھانے میں کامیاب ہوگئیں جن کا بعد میں پچھتاوا بھی ہوا مگر اس وقت تک ملک و قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہو چکا تھا اور بہروپیے اپنے قدم جما چکے تھے جن کو قوم ابھی بھی شائد پوری طرح سے سمجھنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے ملک سیاسی انتشار کا نشانہ بنا ہوا ہے۔

بڑے بڑے انکشافات اور الزام تراشیاں ہوتی رہیں۔ بیساکھیوں کو ڈنڈے بنا کر اپنے ہی محسنوں کو ہانکنے کی کوششیں بھی زمانے کی آنکھ نے دیکھی ۔ بڑی سبق آموز داستانیں رقم ہوئیں اور سہولت کاریوں کے دور بھی چلتے رہے مگر جمہوریت کا پرچم تھامے پاکستان کی پختہ ذہن سیاسی جماعتیں اپنی سُست روی سے اپنی منزل کی طرف بڑھتی رہیں۔ طاقت اور اختیارات کے گھمنڈ میں غرق طاقتوں سے غلطیاں بھی ہوتی رہیں جو اپنی داستانوں کے نشان بھی چھوڑتی رہیں اور بالآخر آج صورتحال یہ ہے کہ پارلیمان میں موجود پاکستان کی اکثریتی بڑی سیاسی جماعتوں کا اتحاد پارلیمنٹ کی سپرمیسی کو منوانے کے لئے ابھی بھی زور آزمائی کی مشق سے گزر رہا ہے۔

اس سارے منظر نامے کےآثار یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اب ڈٹ گئے ہوئے ہیں اور ان کے اس اعتماد کے پیچھے محرک وہ ساری داستانیں ہیں جو جمہوریت کے ساتھ کھیل میں لکھی جاتی رہی ہیں اور اب ان کا انتقام وہ صرف اور صرف جمہوریت کا دوام ہی سمجھتے ہیں اور ایک مضبوط پارلیمان جس کو ریاست کے تمام وسائل اور سہولتوں سے لیس وہ ادارے جن کا مقصد صرف اور صرف ملک و قوم کی فلاح ہے، کا ساتھ اور یہ احساس دلانا ہے کہ یہ وسائل اور سہولتیں ریاست اور اس ملک و قوم کی امانت ہیں اور ان کا استعمال ان کی فلاح کے لئے ہی استعمال ہونا چاہیے نہ کہ اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کی تکمیل کی خاطر۔

اکیسویں صدی کی تمام سیاسی داستانیں خواہ وہ فوجی آمریت کی ہوں یا بادشاہت کی وہ ایک ہی گواہی دے رہی ہیں کہ اس وقت معاشی خوشحالی ہو، سائنسی ترقی یا سیاسی استحکام وہ صرف اور صرف جمہوریت ہی کے کسی نہ کسی حلیے کے حصے میں آیا ہے۔ اس وقت کامیاب ریاستوں کی کامیابی کا راز مضبوط جمہوری نظام حکومت میں ہی ہے خواہ وہ ہمارے ہمسایہ قرب جوار میں ہو یا میلوں دور کی مسافت پرپھیلی مشرق و مغرب یا شمال و جنوب کی پارلیمانی، صدارتی یا بنیادی جمہوریتیں۔

جمہوری طرز سیاست میں جیسے جیسے سیاستدانوں میں پختگی آتی جاتی ہے انکے باہمی اختلافات اصولی بنیادوں پر قائم ہوکر انکاجمہوریت کی پختگی پر یقین مضبوط ہوتا چلاجاتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت پختہ ہو اور یوں سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں میں سے مخلص قیادت نتر کر سامنے آتی چلی جاتی ہے۔ مفاد پرست اور ناپختہ سیاستدان راستے کی رکاوٹ ضرور بنتے ہیں مگر یہ جمہوریت کو مزید پختگی دیتے ہیں اور دونوں اطراف کی صفیں واضح ہوتی چلی جاتی ہیں اور سیاستدانوں کی ان صفوں میں منتقلی بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امید کی جاتی ہے کہ جمہوری پختگی میثاق جمہوریت کے راستے سے ہوتے ہوئے اب ایک پختہ شاہراہ پر گامزن ہو چکی ہے اور اپنی منزل کی طرف اپنے سیاسی کارواں کے ہمراہ رواں دواں رہے گی۔ آمریت سے جمہوریت کی منتقلی اور پختگی کا عمل یوں ہی طے پاتا ہے۔ ہائبرڈ فیز بھی آتے ہیں، جیسے جیسے سہولت کاروں کی ہوصلہ شکنی ہوتی ہے ان کے آلہ کاروں کی امداد کمزور پڑتی جاتی ہے، امدادی ہاتھ ملتے جاتے ہیں، عوام میں شعور اجاگر اور عوام کی حقیقی نمائندہ پارلیمان کی طاقت کا توازن بحال ہوتا جاتا ہے اور یہی پارلیمان کے اعتماد کے پیچھے اصل طاقت ہوتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply