• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تہران کا امریکی صدر کو سفارتی جواب۔۔ڈاکٹر ندیم بلوچ

تہران کا امریکی صدر کو سفارتی جواب۔۔ڈاکٹر ندیم بلوچ

ہمارے خطے میں حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ بین الاقوامی قوتیں اپنے اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیل رہی ہیں۔ ایک دن تجریہ نگار کہہ رہے ہوتے ہیں کہ مغربی بلاک کا پلڑا بھاری ہے تو اگلے ہی چند دنوں میں پوزیشنز تبدیل ہوچکی ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ امریکہ اب اس قابل نہیں رہا کہ وہ دنیا پر اپنا ورلڈ آرڈر چلا سکے۔ امریکہ بڑی تیزی سے اپنی بین الاقوامی حیثیت کھو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق میں اب بڑی طاقتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ مغرب اور امریکہ کا دنیا پر یک طرفہ حکمران ہو جانا غیر فطری بات تھی۔ ہمیشہ طاقت و معیشت میں مشرق کا ایک مقام رہا ہے اور مغرب اس کے مقابلے میں کچھ خاص نہیں تھا۔ یہ تو صنعتی انقلاب اور مغرب کی توسیع پسندی نے بڑے پیمانے پر طاقت اور اختیارات کو مغرب کے سپرد کر دیا، جس کا وہ ابھی تک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اب چین تیزی سے خطے میں اپنا مقام بنا رہا ہے اور ایشیاء سے افریقہ تک چینی ہر جگہ موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روس بھی حرکت میں ہے، جب آپ طاقت کے استعمال سے ڈرنے لگتے ہیں تو دنیا میں وہ حکمران ہو جاتا ہے، جو طاقت کے استعمال سے خوفزدہ کرکے اقوام پر تسلط قائم کر لیتا ہے۔ اس لیے ہر ملک و قوم کے پاس اتنی طاقت کا ہونا انتہائی ضروری ہے، جس میں وہ اپنا دفاع یقینی بنا سکے۔

امریکی صدر جیو بائیڈن کا دورہ مشرق وسطیٰ ایک ایسے صدر کا دورہ تھا، جو اپنی طاقت کھو چکا ہے اور اب چاہتا ہے کہ دوسروں کے سہارے اپنی حکومت کو قائم رکھے۔ حیران کن طور پر جب محمد بن سلمان کو جمال خاشقچی کے قتل کا طعنہ دیا گیا تو جواب غزل کے طور پر اس نے بھی عراق کی ابو غریب جیل امریکی مظالم کو بیان کر دیا، جو کہ بڑی بات ہے۔ تیل کی بڑھتی قیمتوں نے امریکی اور یورپی معیشت کو تیزی سے متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ روس کی طرف سے گیس بند کرنے کے خطرات نے بھی یورپ کی معیشتوں کے لیے مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ کافی عرصے بعد یورپ میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔ یہ لوگ مشرق کو آگ میں مبتلا کرکے انسانی حقوق کے لیکچر دیا کرتے تھے۔ اب انہوں نے یوکرین میں جنگ کے شعلے روشن کرکے بڑی غلطی کی ہے، جس سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے اور جنگ کی آگ کی تپش یورپ کو جلا رہی ہے۔

اسرائیلی اور پرو امریکی میڈیا نے اس دورے کو غیر ضروری کوریج دی، مگر اس کے نتائج ان کی توقع کے برعکس ہیں، نہ ہی سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ ہی کسی فوجی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ تیل کی پیداوار بڑھانے کے حوالے سے بھی وعدے وعید ہی ہوئے ہیں۔ ویسے مجھے امریکی صدر کے اس بیان پر کوئی حیرت نہیں ہوئی، جس میں اس نے کہا کہ فلسطین اور اسرائیل کے مذاکرات کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے، یعنی ابھی اسرائیل نے فلسطین پر مکمل قبضہ نہیں کیا، جب اس کا مکمل قبضہ ہو جائے گا تو مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہوگا؟؟؟ امریکی صدر کے دورے کے بعد ترکی اور روس کے صدور ایران پہنچے ہیں، دنیا کے میڈیا نے وہ تصاویر بڑے پیمانے پر دکھائیں، جس میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی درمیان میں اور ان کے دائیں بائیں روسی اور ترکی کے صدور ہیں اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ تصویر ان قوتوں کے لیے بڑے پیغام رکھتی ہیں، جو ایران کو تنہا کرنا چاہتی ہیں، مگر ایران کی خارجہ پالیسی کمزور بنیادوں پر نہیں کھڑی بلکہ ایران نے امریکی پابندیوں کے باوجود اپنے ہمسایہ ممالک سے بہترین تعلقات رکھے ہیں۔

شام کے مسئلہ پر ترکی اور ایران میں بہت سے اختلافات ہوئے، مگر ایران نے ان معاملات کو سفارتی انداز میں حل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب ترکی فوجی اقدامات کے ذریعے شام میں کچھ خاص کامیابیاں حاصل نہیں کرسکا تو ایران اور روس کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ روس نے پہلے بھی ایک انتہائی اہم شاہراہ کو شام کی حکومت کے حوالے کیا اور ترکی سے معاہدے کے مطابق وہاں ترکی مخالف فورسز کو نہیں آنے دیا۔ اب یہ ملاقاتیں شام کے مسئلے کے مستقل حل کی طرف کوشش ہے۔ اس میں ترکی کو یقیناً کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی ہوں گی۔ امریکہ شام سے بڑی مقدار میں تیل چوری کر رہا ہے اور علی الاعلان شامی عوام کے وسائل کی لوٹ مار کر رہا ہے، اسی لیے رہبر معظم نے روسی صدر سے ملاقات میں یہ کہا کہ امریکہ کو مشرقی فرات سے نکال دینا چاہیئے۔ اس میں ترکی کا کردار بہت ہی اہم ہوگا، اسی لیے ترکی کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے اور دوسرا ترکی کو نیٹو سے الگ کرنے کے لیے بھی ایسی ملاقاتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا کہ روسی صدر کے اس دورے کا مقصد یہ ہے کہ یوکرین جنگ میں ایران سے ہتھیار درآمد کیے جائیں، بالخصوص ایرانی ڈرونز کو حاصل کیا جائے۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے، یورپ اور امریکہ دنیا کے خود ساختہ حکمران بنے ہوئے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ کس ملک کو اسلحہ بیچا جا سکتا ہے اور کس ملک کو اسلحہ نہیں بیچا جا سکتا، مگر اب ایسا نہیں ہوسکے گا۔ ایران ایک آزاد ملک ہے اور روس ایک آزاد ملک ہے، وہ جس سے مرضی تجارت کریں، اس میں کسی دوسرے کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔ روس ایران میں چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، یہ بھی بہت اہم اقتصادی پیش رفت ہے۔ اسی طرح ایران سے روس تک اقتصادی راہداری بھی تعلقات کو استحکام دے گی۔ تہران میں روس اور ترکی کے صدور کا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہونا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کافی بھیانک ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ پابندیوں، دھمکیوں اور ناکہ بندیوں کا زمانہ گزر چکا ہے، دوستی کا زمانہ ہے، جو زیادہ دوست بنائے گا، وہی کامیاب رہے گا، میرے خیال میں یہ تہران کا جیوبائیڈن کے دورے کا بہترین جواب ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply