خضر صاحب- ایک تارااور ٹوٹا/کبیر خان

ہم نے جس عہد میں آنکھ کھولی، راولاکوٹ میں ’’جھنڈل کِیڑے کی گولی‘‘سے ’’پھُٹ وال‘‘(فٹ بال) کھیلا جاتا تھا۔ جی ہاں، جھنڈل کیڑے کی گولی ۔اور وہ گولی پورے اسکول کے صرف ایک بستے میں پائی جاتی تھی جس کا خصم کھوجا الیاس نامی ایک لڑکا تھا۔ وہ لڑکا ایک ٹانگ سے معذور ہونے کے باوجود جھنڈل کیڑے والی گولی سے کھیل کھیل کرراولاکوٹ کا بہترین فٹ بالربنا ۔ اور پھر الیکٹریکل انجنئیر ہو کر اعلیٰ سرکاری عہدے سے ریٹائر ہوا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اب بھی جھنڈل کیڑے کی گولی سے فٹ بال کھیلتا ہے یا نہیں لیکن اتنا جانتے ہیں کہ وہ نچلا بیٹھنے والا نہیں ، کوئی نہ کوئی ایسا’’کلکھّن‘‘ ضروراختیار کر رکھا ہو گا، جو اُسے دوسروں سے منفرد کرتا ہو۔ اُس گولی کی بدولت آدھے سے زیادہ اسکول اُس کا بستہ بردار بننے کے لئے اک دوجے کی بکھیوں میں کہنیاں مارا کرتا تھا۔ یہ اسی گولی کا اعجاز/ایجاز تھا کہ کئیوں کو کہنیاں مار کر آگے بڑھنے کا ہنر آگیا۔اور اب قوم کی راہنمائی کر رہے ہیں ۔
ہمارے لڑکپن کے عہدِ زرّین میں کھِدو کے علاوہ پھُٹ وال،والی بال،انّی چوہی، پِٹھّو سیک، چیچاں ، بنٹے ، گُچھّی اور بجائیں شوق سےکھیلا جاتا تھا۔ دیگر مقامی کھیلوں میں کھِدو کے ساتھ ہاکی اور گِلّی کے ساتھ اِٹّی ڈنڈا کھیلا جاتا تھا۔ زنانہ کھیلوں میں چھُپن چھپائی ، پنج گیٹے ، چیچاں(پہلک، دولک) اور گُڈی گُڈے کا بیاہ مقبول تھا۔ مردانہ کھیلوں سے کُشتی اور کبڈی خارج نصاب ہو چکے تھے ۔ اور اُن کی جگہ ’’بچّیاں‘‘در آئی تھیں۔ یہ کھیل انتہائی سرعت کے ساتھ مقبول ہورہا تھا۔ ہم نے بھی دیکھا دیکھی اس نووارد کھیل کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اور بنّے ،بہر، کھیت کھلیان یا راہ رستے میں جہاں کہیں زمیں کا ہموار ٹکڑا دستیاب ہوا ،دو پتّھر یا چار ڈھیلے رکھ کر بچّیاں بنانا شروع کر دیتے :۔۔ ہ۔۔۔۔ ہیک،ہ۔۔۔۔۔ دو۔۔۔۔ ، ہ۔۔۔۔ تریہہ۔
ہمیں گنتی بھی آتی تھی، یہاں سے وہاں تک دوڑنا بھی جانتے تھے ، کھدّوُکے قرارواقعی ’’ٹوڑے پٹنا ‘‘ بھی آتا تھا۔ لیکن اس کھیل کی ایک اصطلاح ہماری سمجھ بوجھ سے باہر تھی۔ وہ یہ کہ’توڑا پٹنے‘ کے بعد اس سرے سے اُس سرے تک بھاگنے سے جو بچّی بنتی ہے،اُس نوزائیدہ کو ’’رنّ‘‘کیوں کہتے ہیں ؟۔ نیز اس قدر بھاگ بھاگ کرسرِ عام بچّیاں بنانے کی ضرورت کیا ہے۔۔۔۔؟ محکمہ فیملی پلاننگ کے قواعد رائج الوقت کے مطابق ایک بچّے اور ایک بچّی پر اکتفا کیوں نہیں کیا جاتا۔ دوسرے یہ کہ جو کوئی ما کھایا زیادہ سے زیادہ بچّیاں بناتا ہے،اُسے آٹھ دس رنّوں سے دوچارہونے کا کوئی الاوٗنس بھی ملتا ہے یا سُکھے تے مل ماہیا اور بس؟
یہ اور ایسے ہی کچھ شرعی سوالات ہم کسی پڑھے پڑھائے سے پوچھنا چاہتے تھے لیکن کسی نے ہمیں سنجیدگی سے نہیں لیا۔آخر ایک دن ،جس گراوٗنڈ میں ہم پِٹھو سیک کھیلا کرتے تھے، وہیں دُدّھ چِٹّے کپڑوں والے کچھ بابو لوگ کالے چشمے ڈاٹے آن برسے۔ انہوں نے انتہائی صاف ستھری چپّیڑیں اور چھ رندے ہوئے یہ بڑے بڑے کِلّے اٹھا رکھے تھے۔ اُنہوں نے آتے ہی وہ کِلّے ویسے ہی گاڑھ دیئے جیسے شب برات میں موٹھے گاڑھتے ہیں ۔۔۔۔ آدھے اِدھر، آدھے اُدھر۔ پھر ایک اس طرف ، دوسرا اُس طرف،چپّیڑ تان کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی لش لش کرتی ایک گولی(گیند)دوسری طرف سے ایک بابو نے پھینکی اور اس کے ساتھ ہی گراوٗنڈ میں پھیلے ہوئے بابووں نے پہاڑے کی طرح بن سوچے سمجھے نعرہ لگا۔۔۔۔۔۔۔ ’’ہاوز دیٹ‘‘۔ وہ سارادن ہاوزدیٹ کرتے رہے۔کیکر کی چھاوں تلے ایک اجنبی آن ہمارے قریب بیٹھ گئے۔اور لگے ہاوزدیٹ کرنے۔ اُن کی دیکھا دیکھی ہم بھی ہاوزدیٹ کیا کئیے۔ ’’تم کس کے پاسے ہو۔۔۔؟‘‘دس بارہ ہاوزدیٹ کے بعد اُنہوں نے پوچھا۔ ہم اس نوع کے خارج نصاب سوال کا کیا جواب دیتے،خاموش رہے۔ ’’ میں اُس لمبے لڑکے کے پاسے ہوں۔۔۔۔‘‘وہ ایک سلمّ اسمارٹ کھلاڑی کی طرف اشارہ کر رہے تھے’’اپنا پٹھّا ہے‘‘۔ اُن کا پٹھّا ہمیں بھی اچھا لگا۔ وہ اتنا ہنس مکھ تھا کہ چپیڑ پر چپیڑ پڑنے کے باوجود ہنس بول رہاتھا۔ ہم نے تھوڑی دیر کے بعد پٹھّے والے پڑوسی سے پوچھا۔۔۔۔آپ کے پٹّھے کا نام کیا ہے۔۔۔۔؟
خضرحیات نام ہے اس کا۔۔۔۔‘‘ وہ بولے’’اسی کے نام پر میں نے اپنے بیٹے کا نام خضر رکھا ہے ۔ دعا کر اِس جیسا نہ نکلے۔۔۔۔۔، یہ کچھ زیادہ ہی بھلا مانس ہے۔ ‘‘وہ باقی دن ہم نے انہی کے قرب میں ہوزدیٹ کرتے بتا دیا۔ جب وہ سب بھی ہماری طرح ہوزدیٹ کرتے کرتے نڈھال ہو گئے تو ’’باقی کل‘‘پر دھر کر کھیل ختم کر دیا گیا۔ پڑوسی کے ساتھ ہم نے بھی مصافحہ کی شکل میں اپنا لُچ تلا۔ اور یہ سوچ کر گھر کی راہ لی کہ بندہ بھلا مانس ہے، کل اس سے ضرور پوچھیں گے کہ اس کھیل میں بنائی جانے والی بچّیاں فوری طور پر رنّیں کیوں قرار دی جاتی ہیں؟ لیکن دوسرے روز بارش ہو گئی۔ اور گراونڈ اگلے مہینہ تک گہل بنا رہا۔ پھر کبھی موقع نہیں ملا۔ وہ پہلی اور آخری بار تھی جب ہم نے سردار خورشید خان،سردار اشرف خان، سردار انور خان، سردار پرویز خان ایڈوکیٹ کے علاوہ سردار خضر حیات خان جیسے لوگوں کو قریب سے کھیلتے دیکھا۔
اس کے بعد سردار خضرحیات کو بالمشافہ دیکھنے اور ملنے کا موقع تب ملا جب چند برس قبل وہ ہماری چھوٹی ہمشیرہ کی رحلت پر تعزیت کے لئے ہمارے ہاں تشریف لائے۔ وہ خود سر کے ایک خطرناک اپریشن سے گذرے ہوئے تھے ، اس لئے اُن کا سرکھانا مناسب نہیں تھا۔ لیکن اس سے پہلے اور بعد خط و کتابت کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ ہلکا پھلکا رابطہ رہا۔ ایک بار تعلیم کے فروغ ، سدھن ایجوکیشنل کانفرنس ،اور راولاکوٹ میں کرکٹ کے فروغ کے حوالہ سے بات چھڑی لیکن غائب دماغی کی وجہ سے ہم اپنا سوال اُن کے سامنے نہ رکھ سکے۔پروفیسر سردار خضر حیات خان تین روز قبل اس جہانِ فانی سے اُٹھ گئے۔ہمارا سوال تشنہ جواب رہ گیا۔۔۔ کرکٹ کے کھیل میں بچّیوں کر رنّیں بنانے کی علّت کس نے ڈالی؟خضر صاحب حیات ہوتے تو آج اُن سے ضرور پوچھتے ۔۔۔۔۔ کہ آج ہی پاکستان کی کرکٹ ٹیم ’’چند رنّوں‘‘ سے ہار گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply