جنازہ گاہ میں نمازِ عید۔۔۔۔۔سلیم مرزا

سیاپہ یکطرفہ ہو تو بندہ اس طرف منہ کرکے رو بھی لے، ادھر تو یہ حال ہے کہ جسے دیکھو لال ہے۔۔سبھی الٹابندر چوم کے بیٹھے ہیں ۔
فواد ،پوپلزئی ،اور مفتی کی بک جھک سے قوم کا حاصل ضرب اب کی بار بھی ذہنی اذیت ہی نکلا۔
پس تجربے سے ثابت ہواکہ سائنس اور مولوی کا پرانا فارمولہ اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا فواد اور مولوی کا دھماکہ تباہ کن ہے ۔سیانے سچ کہتے ہیں کہ مولوی کے آگے سے اور سیاستدان کے پیچھے سے مت گزرو ۔کیا خبر کب ان کے اندر کا سائنسدان جاگ جائے ۔۔

جہاں تحریک انصاف کی اکثریت تھی وہاں تو انصاف ہوا، اور شیطان کو ایک دن پہلے رہا کردیا، مگر ن لیگ کے اکثریتی حلقوں کے شیطان کو ایک دن ناحق قید رکھاگیا۔
شکر ہے مریم نواز نے اس جانبداری پہ ٹویٹ نہ کردی کہ ساڈا  شیطان، شیطان اور ان کا شیطان ٹومی۔۔۔

اب جو لنگڑی، لولی اور معاشی بدحالی کاشکار عید مل ہی گئی تو سمجھ نہیں آتا منائیں کیسے۔۔۔ادھر عید کا اعلان ہوا ادھر واپڈا کے فیڈر پہ کوئی چھٹی نہ ملنے پہ جلا بھنا بیٹھا تھا، اس نے سارے علاقے میں شام غریباں کردی ۔رات بھر لائٹ نہیں آئی، کینڈل لائٹ ڈنر کے دوران دو بار بیگم کے کوسنوں سے موم بتی بجھی ۔آخر عائشہ کوماچس دیکر بٹھایا تو اس نے بتایا کہ موم میں ہی ملاوٹ ہے ۔
چاند رات میں آسمان پہ چاند تو مل گیا شہر کو بتی نہ ملی ۔ اندھیرے میں یا مچھر تھے یا میسنجر، وٹس ایپ پہ عید مبارک کے پیغامات ۔جگاترے کی وجہ سے عید کی صبح مسلمانوں کے مقدر سے زیادہ خمار آلود تھی ۔

اسی نشاۃ ثانیہ کے ہاتھوں عید کی نماز سے لیٹ ہوچکے تھے۔
گھر سے نکلتے ہی اتنے فقیر ملے کہ لگا نیازی کا طائفہ جدے کی بجائے کامونکی آنکلا ہے ۔ایک موٹی فقیرنی نے تو باقاعدہ فردوس اعوان کی طرح کوسنے بھی دیے ۔
اب مسجد کی تلاش شروع  ہوئی جو میری طرح تاخیر کا، شکار ہوتی،گھرکے قریب ہی ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نمازیوں سے ابلی پڑی تھی ۔طہارت خانوں تک عوام تھے، فیضان کہنے لگا پاپا یہاں نمازہو سکتی ہے اگر وضو قائم رہےتو ۔۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

وہاں سےآ گے ایک شادی ہال میں خطبہ نکاح کی جگہ عید کا خطبہ چالو تھا ۔ امام دولہا دولہا لگ رہا تھا۔۔۔
جگہ وہاں بھی نہیں تھی اور خدشہ تھا کہ بعدازنماز عید “نیوندرے”کا رواج ہوا تو؟
کسی مخبر نے بتایا کہ جنازگاہ میں بھی عید پڑھائی جارہی ہے ۔ جنازگاہ پہنچے تو ہمیں جوتوں کے قریب جگہ مل ہی گئی ۔ دوپولیس والوں میں سے ایک نے میرے پیٹ کو بغور دیکھا ۔جب اسے یقین ہوگیا کہ یہ یہاں نہیں پھٹے گا تو دیکھنا بند کیا۔۔
جہاں میت رکھی جاتی تھی وہاں مولوی دھرا تھا، نمازِ عید میں نماز جنازہ کا ہلکا ہلکا ذائقہ آرہا تھا ۔۔دوران خطبہ میں نے سامنے لکھی ساری دعائیں پڑھ کر حکومت کی روح کو ایصال ثواب کی نیت سے  بخش دیں ۔
نمازی مرحوم کے لواحقین لگ رہے تھے ۔
نماز عید کے بعد لوگ دھاڑیں مار مار کر ایک دوسرے کو گلے ملے ۔
ایک شناسا میری طرف جھپٹا تو میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا کہ۔۔۔
” بھائی جوتوں میں نہیں ملتے ”
تو ذرا باہر آ، ملتا ہوں  ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply