کینسر (87) ۔ نئی ٹیکنالوجی، نئی ادویات/وہاراامباکر

سان فرانسسكو میں سلیکون ویلی میں جینیاتی انجیرنگ کی کمپنی قائم ہوئی تھی۔ یہ جینن ٹیک تھی جس نے ایک نئی ٹیکنالوجی ایجاد کی تھی جو “ری کمبیننٹ ڈی این اے” کی تھی۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے جینز کو چھیڑا جا سکتا تھا۔ ایک جاندار سے دوسرے میں ڈالا جا سکتا تھا۔ گائے کی جین کو بیکٹیریا میں۔ یا انسان کی جین کا کتے کے خلیے میں سنتھیسس کیا جا سکتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جین کو توڑ کر نئے جین بنائے جا سکتے تھے جن سے ایسے پروٹین بن سکتے جو قدرتی طور پر موجود نہیں ہوتے۔ جینن ٹیک اس تصور پر قائم ہوئی کہ اس جینیاتی ٹیکنالوجی کی مدد سے نئی اور اچھوتی ادویات تیار کی جا سکیں گے۔ محض دو لاکھ ڈالر کی سرماریہ کاری اور ڈی این اے ٹیکنالوجی کے لائسنس سے یہ کمپنی قائم ہوئی اور ادویات کی تلاش شروع کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دوا (ڈرگ) کیا ہے؟ یہ کوئی بھی ایسی شے ہے جو کسی جاندار کی فزیولوجی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ یہ سادہ مالیکیول ہو سکتے ہیں، جیسا کہ نمک اور پانی جو خاص حالات میں فارماکولوجیکل ایجنٹ کا کام کر سکتے ہیں۔ یا پیچیدہ اور کثیر جہتی کیمیکل ہو سکتے ہیں۔ قدرت سے اخذ کردہ جیسا کہ پنسلین یا کیمیائی طور پر مصنوعی تیار کردہ، جیسا کہ امینوپٹرین۔ میڈیسن میں سب سے پیچیدہ ڈرگز پروٹین ہیں۔ یہ خلیے میں تیار ہوتی ہیں اور انسانی فزیولوجی پر گونا گوں اثرات دکھاتی ہیں۔ انسولین ایسی پروٹین ہے جو خون میں شوگر کی سطح ریگولیٹ کرتی ہے۔ گروتھ ہارمون میٹابولزم کو کنٹرول کر کے بڑھنے پر اثر دکھاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروٹین کی ڈرگز تیار کرنا انتہائی مشکل تھا۔ انسولین کی تیاری کے لئے گائے اور سور کے اعضا کو پیس کر یخنی بنائی جاتی تھی اور اس میں سے اسے اخذ کیا جاتا تھا۔ آٹھ ہزار پاونڈ تلی میں سے ایک پاونڈ انسولین حاصل ہوتی تھی۔ گروتھ ہارمون کو تیار کرنے کے لئے ہزاروں انسانی لاشوں میں سے پچوٹری غدود نکالے جاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ری کمبیننٹ ڈی این اے ٹیکنالوجی سے یہ ممکن ہوا کہ جینن ٹیک انسانی پروٹین کا مصنوعی سنتھیسس کر سکے۔انسانوں یا جانوروں میں سے یہ پروٹین اخذ کرنے کے بجائے، جینن ٹیک انسانی جین کو بیکٹیریا میں ڈال کر بیکٹیریا سے مزدوری کروا کر یہ پروٹین بڑی مقدار میں بنوائے۔
اور اس ٹیکنالوجی نے زبردست کامیابی حاصل کی اور ادویات میں انقلابی ثابت ہوئی۔ انسولین کو 1982 میں بنایا گیا۔ 1984 میں خون جمانے والا فیکٹر جو ہیموفیلیا کے مریضوں میں خون بہنا کنٹرول کر سکتا تھا۔ 1985 میں گروتھ ہارمون بنا۔ یہ سب انسانی پروٹین بیکٹیریا یا دوسرے جانداروں میں بنائے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اسی کی دہائی کے آخر میں جینن ٹیک کے پاس نئے استعمال ختم ہو چکے تھے۔ کمپنی نے پرانی ادویات نئے طریقے سے بنائی تھیں۔ اب اسے اپنا طریقہ کار بدلنے کی ضرورت تھی۔ جینن ٹیک نے نئی ادویات شروع سے بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ “ٹارگٹ ڈسکوری پروگرام” تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply