• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • کوانٹم ٹیلی پورٹیشن: کیا مادی اجسام کی روشنی کی رفتار سے منتقلی ممکن ہے ؟۔۔ملک شاہد

کوانٹم ٹیلی پورٹیشن: کیا مادی اجسام کی روشنی کی رفتار سے منتقلی ممکن ہے ؟۔۔ملک شاہد

 

آپ نے ”اسٹار ٹریک “ سیریز کی ٹی وی سیریل اور فلموں میں انسانوں کو چشم زدن میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے دیکھا ہوگا۔نیز “Beam me up Scotty” کا جملہ، اور پھر کرداروں کے ہوا میں تحلیل ہونے کا منظر بھی آپ کے ذہن میں محفوظ ہو گا۔ یہ تصور” ٹیلی پورٹیشن“ کہلاتا ہے اور یہ سائنس فکشن فلموں کا ایک اہم عنصر ہے۔ یہ اچھوتا تصور روشنی کی طرح تیز رفتار سفر اور ٹائم مشینوں جیسی حیرت انگیز تخیلاتی ایجادات کی عکاسی کرتا ہے۔ بظاہر یہ تصور ہماری حقیقی دنیا میں ناممکن نظر آتا ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ٹیلی پورٹیشن کا تصور مختصر پیمانے پر ہی سہی، لیکن اب یہ حقیقت کا روپ دھارنے جا رہا ہے۔

کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کی ”پیدائش “
ٹیلی پورٹیشن کا تصور، جسے اصطلاحی طور پر ”کوانٹم ٹیلی پورٹیشن “ کہنا زیادہ مناسب ہے، البرٹ آئن سٹائن اور نیلز بوہر کے درمیان ہونے والے ایک طویل علمی مباحثے سے اخذ کیا گیا تھا۔ آئن سٹائن نے کوانٹم تھیوری کے لئے بنیادیں فراہم کیں اور وہ شروع میں اس کا حمایتی تھا لیکن ہائزن برگ کے اصول عدم یقین (uncertainty principle)کے بعد اس کے خیالات میں تبدیلی آگئی۔ جب ماہرین طبیعیات کی نئی نسل نے یہ دریافت کیا کہ کوانٹم ذرات میں امکانات کی حکمرانی ہے تو آئن سٹائن نے اپنی سوچ تبدیل کر لی۔ بوہر کے ساتھ مباحثے میں آئن سٹائن کا یہ مشہور جملہ “خدا کائنات کے ساتھ پانسےنہیں کھیلتا” (God does not play dice with the Universe) دراصل کوانٹم نظریات میں امکان/احتما کی کلیدی اہمیت پر ایک اعتراض ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے بعد آئن سٹائن ایک طویل عرصے تک کوانٹم فزکس کی معقولیت چیلنج کرتے ہوئے اس پر اعتراضات کرتا رہا۔ اس سلسلے میں 1927ءمیں برسلز میں دنیا کے ممتاز ترین طبیعیات دانوں کی ایک کانفرنس ہوئی (جسے “سالوے کانفرنس” کا نام دیا گیا) جہاں آئن سٹائن اور نیلز بوہر کے درمیان متذکرہ بالا نظریات پر بہت بحث ہوئی۔ اس بحث میں آئن سٹائن کوانٹم نظریات پر حملے کرتا رہا اور نیلز بوہر ان کی توجیہہ پیش کرتا رہا۔ عینی شاہدین کے مطابق، اس مباحثے میں نیلز بوہر نے آئن سٹائن کو چاروں شانے چت کردیا تھا۔

اس سلسلے میں سب سے آخری اور دلچسپ حملہ 1935ءمیں ایک مقالے کی صورت میں ہوا جسے آئن سٹائن نے اپنے دو ساتھیوں پوڈولسکی اور روزن کی معاونت سے تیار کیا تھا۔ یہ مقالہ اپنے مصنفین کے ناموں کے پہلے حروف کی مناسبت سے ”ای پی آر“(EPR) کے نام سے مشہور ہوا۔ اس مقالے کا عنوان تھا ”کیا حقائق فطرت کے بارے میں کوانٹم میکانیات کا بیان مکمل سمجھا جا سکتا ہے؟“۔ اس مقالے کا اصل مقصد تو کوانٹم میکانیات پر اعتراض کرنا تھا لیکن اس میں آئن سٹائن اور اس کے ساتھیوں نے انجانے میں ایک نیا تصور پیش کردیا۔ اس تصور کے مطابق، کوانٹم ذرات کا ایک ایسا جوڑا (pair) ممکن ہے جنہیں ایک واحد موجی تفاعل (ویو فنکشن) کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے، اوریہ دونوں ذرات ایک دوسرے سے دور ہوتے ہوئے بھی باہم مربوط (entangle) ہو سکتے ہیں۔ یہ دونوں ذرات کائنات میں مخالف سمتوں میں انتہائی دوری پر واقع ہو سکتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک ذرّے میں پیدا ہونے والی تبدیلی ، فوری طور پر دوسرے ذرّے میں ظاہر ہو جائے گی۔ یعنی وہ دونوں ذرّات عین ایک ہی لمحے میں ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ آئن سٹائن کا خیال تھا کہ اس نے کوانٹم تھیوری پر حملہ کرنے کے لئے ایک کمزوری دریافت کر لی ہے لیکن درحقیقت اس نے کوانٹم ذرّات کی ایک انتہائی اہم خصوصیت کی نشاندہی کی تھی۔ قریباً نصف صدی بعد کئے گئے باریک بین تجربات سے ظاہر ہوا کہ یہ باہمی ہم آہنگی ، جسے آئن سٹائن نے ”entanglement“کا نام دیا تھا، واقعی ممکن ہے۔

ٹیلی پورٹیشن کا طریقہ کار
سادہ اور آسان الفاظ میں، ٹیلی پورٹیشن کا مطلب کسی چیز، یعنی مادی وجود کو ایک سے دوسرے مقام تک بالکل اسی طرح نشر(transmit) کر دینا ہے جیسے ٹی وی یا ریڈیو کی نشریات بھیجی جاتی ہیں۔ گویا کوانٹم میکانیات کے مطابق، ذرّات اور توانائی ، دونوں نہ صرف ایک دوسرے کے قائم مقام ہیں بلکہ انہیں ایک دوسرے میں تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر یہ امکان پیش کیا جاتا ہے کہ ایک نہ ایک دن سائنسی ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کر لے گی کہ انسانوں یا مادی اشیاءکو توانائی (یعنی برقی مقناطیسی لہروں) میں تبدیل کر کے، ایک سے دوسری جگہ ”منتقل “ (teleport) کیا جا سکے گا اور دوسری جگہ موجود ”ریسیور“ ان لہروں کو وصول کر کے دوبارہ سے مادے میں تبدیل کر دے گا۔ اس طرح انسان کی ایک سے دوسرے مقام تک منتقلی گھنٹوں اور منٹوں کی بجائے صرف سیکنڈوں میں ہو جائے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی جسم کو کامیابی کے ساتھ ٹیلی پورٹ کرنے کے لئے، ٹیلی پورٹیشن مشین کو اس جسم کے ہر ایک ذرے کی کوانٹم سطح تک کی عین ویسی ہی نقل بنانا ہوگی۔ اس عمل میں کسی گڑ بڑ کی صورت میں ٹیلی پورٹ کیا گیا جسم اصل جسم سے مختلف ہو سکتا ہے۔ (1980ءکی دہائی میں بنائی گئی ایک فلم ”دی فلائی”(The Fly)میں بھی کچھ ایسا ہی دکھایا گیا کہ ٹیلی پورٹ ہونے والے سائنسدان کے جسم کے ساتھ ایک مکھی بھی ٹیلی پورٹ ہو گئی اور نتیجے کےطور پردوسری جگہ پہنچنے کے بعد اس مکھی کا سر، سائنسدان کے سر کی جگہ منتقل ہوگیا)۔

کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کا طریقہ کار
تاہم کوانٹم میکانیات میں ہی اس عمل کو ممکن بنانے کے لئے ایک چور دروازہ موجود ہے جس کے مطابق، ذرات کو منتقل کرنے کی بجائے ، ایک ذرے کی کوانٹم خصوصیات کو ہی کسی دوسرے ذرے میں، چشم زدن میں، دور دراز مقام پر اس طرح منتقل کیا جا سکتا ہے کہ وہاں ”اصل کی ہو بہو نقل“ وجود میں آ جائے۔ لیکن چونکہ ایک ہی کوانٹم حالت بیک وقت دو ذرات میں موجود نہیں رہ سکتی اس لیے کوانٹم خصوصیت کی دوسرے ذرّے میں منتقلی کے بعد پہلے ذرّے کی کوانٹم حالت تباہ ہو جائے گی۔یعنی یوں کہیے کہ نقل کے وجود میں آتے ہی، اصل وجود خود ہی غائب (یا تباہ) ہو جائے گا۔ یہ عمل اصطلاحی طور پر ” کوانٹم ٹیلی پورٹیشن“ کہلاتا ہے اوراسی عمل کو آئن سٹائن نے ”باہمی ہم آہنگی“(entanglement) کا نام دیا تھا۔

باہمی ہم آہنگی کے اس طریقے کو کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کے عمل میں استعمال کرنے کا خیال سب سے پہلے 1993ءمیں پیش کیا گیا۔اس سال مانٹریال میں بین الاقوامی ماہرین کے درمیان ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں ٹیلی پورٹیشن کے عمل کو ممکن بنانے کے لئے مختلف طریقوں پر غور کیا گیا۔ آئی بی ایم کے ایک محقق چارلس بینٹ نے خیال ظاہر کیا کہ باہم مربوط (entangled) ذرات کا ایک جوڑاایسا مطلوبہ مواصلاتی چینل مہیا کر سکتا ہے جس کے ذریعے کسی نظام کی کوانٹم میکانیاتی حالت کو کسی دوسرے مقام پر (خواہ وہ پہلے مقام سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو) فی الفور ٹیلی پورٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس مذاکرے کے آرگنائزرگائلز بریسرڈ نے اس موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کئی گھنٹوں کی مغز سوزی کے بعد آخر کار ہم ٹیلی پورٹیشن کے لئےایک قابل عمل حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ،اگرچہ یہ حل بہت غیر متوقع ہے۔

کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کے عمل کےلئے تین ذرات کی ضرورت ہوتی ہے: دو باہم مربوط ذرات جن میں سے ایک ٹرانسمیٹراور دوسرا ریسیور کے طور پر کام کرتا ہے، جبکہ تیسرا وہ ذرہ ہے جس کی کوانٹم میکانیاتی حالت کو ٹیلی پورٹ کرنا مقصود ہے۔ اس تیسرے ذرے کو اس قابل بنایا جا تا ہے کہ وہ ٹرانسمیٹر ذرے کے ساتھ عمل کرتے ہوئے اس میں مطلوبہ کوانٹم تبدیلی پیدا کرے۔ یہ تبدیلی عین اسی وقت دوسرے ریسیور ذرے میں ظاہر ہو جائے گی۔ اس عمل کے ذریعے مختلف اقسام کی کوانٹم معلومات مثلاََ کسی بنیادی ذرے کا گھماؤ  (spin)اورقطبیت (polarization) وغیرہ کو ٹیلی پورٹ کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ معلومات روایتی مواصلات کے ذریعے بھی دور دراز موجود ریسیور ذرے تک پہنچائی جائیں تو وہ ذرہ اپنے شریک (پارٹنر) ذرے کی کوانٹم حالت اختیار کر لیتا ہے ۔ اس طرح ایک ذرّہ مقام Aسے مقام Bکی طرف نشر (transmit) کیا جا سکتا ہے۔

کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کے عملی تجربات
1997ءمیں ویانا میں انتون زیلنجراور روم میں فراسسکو ڈی ماٹینی نے ایک فوٹون کی قطبیت کو دوسرے فوٹون میں منتقل کرتے ہوئے، جزوی ٹیلی پورٹیشن کا مظاہرہ کیا۔ 2004ءتک زیلنجر نے فوٹون کی اس قطبیت کو دریائے ڈینوب کے نیچے موجود ایک سرنگ میں 600میٹر تک کے فاصلے تک ٹیلی پورٹ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ فوٹونز کو ٹیلی پورٹ کرنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے، کیونکہ روشنی کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس عمل میں کامیابی کے نتیجے میں اس طریقہ کار کو دیگر مادی ذرات پر لاگوکیا جا سکے گا۔

دریائے ڈینوب والے تجربے کے بعد دس سال تک سائنسدانوں کی زیادہ تر کوشوں کا محور یہ تھا کہ کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کے عمل کو پختہ اور دہرائے جانے کے قابل بنایا جائے۔ نیز اس عمل کو فوٹونز سے بڑھا کر ایٹم تک لے جانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی۔

2009ءمیں یونیورسٹی آف میری لینڈ اور یونیورسٹی آف مشن گن کے ماہرین نے ”جوائنٹ کوانٹم انسٹیٹیوٹ“ (JQI) کے زیر نگرانی ایک تجربہ کیا جس میں ایک ایٹم کی کوانٹم حالت کو ایک میٹر کے فاصلے پر موجود ایک دوسرے ایٹم میں منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس عمل میں وقت کی درستگی کی شرح 90فیصدتھی۔ میری لینڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق کی بنیاد پر یونیورسٹی آف ڈیلف (Delft) کے ماہرین نے الیکٹرانوں کی ایک خصوصیت یعنی ”گھماؤ” (spin) کو الیکٹرانوں کے درمیان تین میٹر کے فاصلے پر وقت کی 100فیصد درستگی کے ساتھ منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ تجربہ کوانٹم کمپیوٹنگ کے لئے درکار مواصلاتی چینل کی تیاری میں ایک اہم سنگ میل تھا۔ ڈاکٹر ہینسن کہتے ہیں کہ یہ تجربہ دو سالڈ اسٹیٹ چپس کے درمیان ٹیلی پورٹیشن ظاہر کرنے والا پہلا تجربہ تھا۔محض کچھ ہی دن بعد، ایک اور ٹیم نے اس مظاہرے کی حد بڑھاتے ہوئے اسے اچانک 143کلومیٹر کے ریکارڈ فاصلے تک پہنچا دیا۔ یہ تجربہ اینتون زیلنجر کی ٹیم نے سرانجام دیا۔ اس ضمن میں نسبتاً  حالیہ پیش رفت یہ ہے کہ آرہس یونیورسٹی ڈنمارک کے جیکب شیرسن اور ان کے رفقائے کار نے سیزیم کے لگ بھگ دس کھرب ایٹموں کے درمیان کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کا کامیاب تجربہ کیا۔

بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ یہ تمام تجربات ڈیلف کی ٹیم کے تین میٹر کے تجربے کو پختگی فراہم کررہے ہیں لیکن اگر طویل فاصلوں کو مد نظر رکھیں تو ان میں درستگی کی شرح صرف 1فیصدہے۔ یہ شرح حقیقی دنیا کے ان کمپیوٹنگ معاملات تک رسائی کے عمل کو ناممکن بناتی ہے جو کہ صرف اور صرف درستگی پر انحصار کرتے ہیں۔

ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جیسا کہ کرس مونرو، جن کا تعلق جے کیو آئی مشی گن کی ٹیم سے ہے، نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جے کیو آئی اور ڈیلف تجربات، دونوں میں سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ دونوں تجربات تکلیف دہ حد تک سست تھے۔ ایک کامیاب کیوبٹ کی منتقلی کا مرحلہ تقریباً 5منٹ سے زائد وقت میں مکمل ہوتا تھا۔ و ہ کہتے ہیں کہ ان دونوں تجربات میں کوانٹم ذرات کو کامیابی کے ساتھ باہم مربوط (entangle) کرنے کے عمل کا امکان بہت کم تھا یعنی دس لاکھ میں صرف ایک۔ اس کا مطلب ہے کہ انھیں بڑے پیمانے کی کوانٹم ٹیلی پورٹیشن میں کسی بھی طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم مونرو کی ٹیم نے حال ہی میں ٹیلی پورٹیشن کی رفتار کو 5000گنا تک تیز رفتار کرنے کا اہتمام کیا ہے جس کے بعد یہ طریقہ کار کس حد تک قابل حل کے کچھ قریب ہو گیا ہے۔
کیا انسانی جسم کو ٹیلی پورٹ کرنے کا خواب کبھی پورا ہو سکے گا ؟

بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ کوانٹم کمپیوٹر کے لئے درکار کوانٹم ٹیلی پورٹیشن بہت جلد ممکن ہو جائے گی لیکن کیا ہم کبھی کوئی ٹھوس شے بھی ٹیلی پورٹ کر سکیں گے؟ انسانی جسم کو ٹیلی پورٹ کرنا تو ابھی بہت بعید از قیاس نظر آتا ہے، تاہم کرس مونرو کا کہنا ہے کہ ابھی ہمارے لیے ایک قدر ے بڑے مالیکیول کو ٹیلی پورٹ کرنا بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ ” اگر آپ ایک ڈی این اے مالیکیول کی کوانٹم حالت کو ٹیلی پورٹ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ عمل مستقبل قریب میں توشاید ممکن نہ ہو لیکن سائنسی معاملات کے ساتھ ساتھ کئی اخلاقی معاملات بھی بحث طلب ہیں۔مثلاً  جب ہم انسانی جسم کی منتقلی کی بات کرتے ہیں تو کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کے طریقے کے تحت، ہم جسمانی اعضاءکو نہیں بلکہ انھیں تعمیر کرنے والی ہدایات کو منتقل کریں گے۔ یہ ہدایات ایک ریسیونگ ڈیوائس میں پہنچیں گی جہاں ان ہدایات کے مطابق ان اعضاءکی دوبارہ تیاری کےلئے درکار ایٹم پہلےسےموجود ہونے چاہئیں۔ گویا ٹیلی پورٹ ہونے والی واحد چیز دراصل ایٹموں کی درست ترین ترتیب اور کوانٹم انفارمیشن(کوانٹم اطلاع) ہوگی ۔“

اگر ہم انسانی جسم کی ٹیلی پورٹیشن کے سائنسی امکان پر ہی بات کریں تو کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کے عمل میں پختگی کے باوجود اس سارے عمل میں کئی دیگر تکنیکی مسائل کا بھی سامنا کرنا ہوگا جن میں سے ایک اہم مسئلہ بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہے۔وائرس جیسی کسی چھوٹی چیز کو ٹیلی پورٹ کرنا توشاید ممکن ہو جائے گا لیکن کسی بڑے جسم کو ٹیلی پورٹ کرنے کا عمل ذرہ ذرہ کر کے ہی مکمل کیا جا سکتا ہے۔ ایک انسانی جسم تقریباً  7×1027 ایٹموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ ہم ایک سیکنڈ میں ایک ہزارارب (ایک ٹریلین) ایٹموں کو پراسس کر سکیں ، تب بھی ایک انسانی جسم کے تمام ایٹموں کو پراسس کرنے میں 10×1015 سیکنڈ صرف ہوں گے۔ یہ 20کروڑ سال کا عرصہ بنتا ہے۔ نیز یہ کہ ڈیٹا کی اتنی زیادہ مقدار کو ٹرانسمٹ کرنے کے لئے، ایک محتاط اندازے کے مطابق قریباََ 1012گیگا واٹ آور توانائی درکار ہو گی ۔ برطانیہ کے تمام بجلی گھروں کی کل صلاحیت 83گیگا واٹ آور(83000میگا واٹ آور) ہے۔ یعنی ایک انسانی جسم کو ٹیلی پورٹ کرنے کے لئے برطانیہ کے تمام بجلی گھروں کی قریباََ 10سال کی توانائی درکار ہو گی۔ یاد رہے کہ پاکستان کی توانائی کی کل ضرورت محض 21000میگا واٹ آور ہے۔

اگر یہ سب کچھ بھی ممکن ہو جائے تب بھی شاید کچھ مسافر ٹیلی پورٹیشن ڈیوائس کو استعمال کرنا پسند نہ کریں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ آپ خود مقام Aسے مقامBپر منتقل نہیں ہو ں گے بلکہ یہ عمل دراصل آپ کے جسم کے ایک ایک ایٹم کی کوانٹم معلومات حاصل کرے گا اور یہ معلومات دوسری جگہ موجود ریسیونگ ڈیوائس تک منتقل کرے گا جہاں آپ کی ایٹموں کی ہو بہو نقل تیار کی جائے گی۔ جی ہاں! ٹیلی پورٹ کیا گیا جسم دراصل آپ کے جسم کی ہو بہو نقل ہو گی اور آپ کا اصل جسم تباہ ہو جائے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹیلی پورٹیشن کے عمل کے دوران آپ کی دماغی خلیات کی ترتیب میں کچھ فرق آ جائے اور دوسری جگہ پہنچ کر آپ اپنے آپ کو آئن سٹائن سمجھنا شروع کر دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاید ہم مستقبل قریب میں روشنی کی رفتار سے سفر نہ کر سکیں، لیکن کوانٹم ٹیلی پورٹیشن ہمیں قابل عمل کوانٹم کمپیوٹرز کے کچھ قریب ضرور لے آئی ہے۔

Facebook Comments

ملک شاہد
ملک محمد شاہد موبائل: 03007730338 اعزازی مدیر ماہنامہ گلوبل سائنس کراچی۔۔ اعزازی قلمی معاون : سہ ماہی اردو سائنس میگزین ، لاہور مصنف: 100عظیم سائنسی دریافتیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply