حکایاتِ گانجا فروش ۔۔۔ حارث خان

“دھندہ بھروسے سے نہیں اصول سے چلتا ہے”

گانجا فروش یہ کہہ کے خاموش ہو گیا۔ بات اس کی بھی ٹِھیک تھی کہ اُدھار کشمیر کی آزادی تک بند ہے۔

چکراتے سر کے ساتھ گھر واپس آیا۔ محنت کا صلہ تو ملا نہیں، گھر آتے ہی گھر والی گھر والی کے لیے محنت کرنی پڑی (برتن دھو کر)۔ روتی کھاتے ہوئے ٹی وی پر دیکھا کہ شاہ صاحب کشمیر کے مسلے پہ کھل کے بات کر آئے ہیں۔ گویا اب کشمیر فتح ہو کر رہے گا۔ پِھر ممکن ہے اُدھار ملنا شروع ہو جائے؟

اُدھار سے یاد آیا، اُدھار تو ہم نے ایک دنیا سے لے رکھا ہے اور بقول میرے موجودہ رہنما کے، میں اور ہر ہر پاکستانی مبلغ ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ سکہ رائج الوقت کا مقروض ہے۔ مزید یہ کہ یہی رہنما یہ سارے پیسے واپس بھی لانے والا ہے۔

مگر اِس سب سے مجھے کیا فائدہ؟ مجھے تو تو پَچاس روپے کی ادھاری تک كو منہ نہ لگایا اُس منحوس گانجے فروش نے۔

ایک بار کسی موالی سے کسی نے پوچھا بھائی تم سب سے زیادہ ٹن كب ہوتے ہو؟ موالی بولا اس وقت جس وقت میں نہیں پیتا۔ یہی حال میرا بھی تھا۔ اب میں سیاست کے موجودہ حالات میں وارد ہو چکا تھا اور میرا تخیل خود ہی سوال اور خود ہی جواب دے رہا تھا۔ میرے ٹن پنے کی معراج یہی تو تھی، جب مجھے گانجے فروش نے نہ کر دی اور میں اپنی ذات کے عالم خشکے سے رابطے میں آن پہنچا۔ 

سبحان اللہ!

کسی سے سنا ملک کی فوج اور عدلیہ ہمارے پیچھے کھڑے ہیں۔ عالمِ خشکے سے جواب میں صرف اِک مسکراہٹ آئی۔ 

کہا کہ ہم انڈیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔عالم خشکے سے جواب آیا میاں دھونے كو پانی نہیں اور نام سمندر خان؟

اب تک بیچ میں پانی یاد آ چکا تھا۔ مگر پانی تو ہے نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ڈیم جو نہیں۔ مگر ساڑھے تین سو ڈیم؟ عالم خشکے سے فوراً سے پیشتر آواز آئی “بکواس بند کر”۔ سوچا دس دس روپے میں ڈیم کیسے بنے گا؟ پِھر یاد آیا قطرہ قطرہ ہی تو بنے ہے سمندر۔ سوال تو سوال ہے، کھڑا پھر بھی رہا۔ خیر دِماغ موالی اپنی بلندیوں پہ عالم خشکے سے کلام میں تھا کہ جواب آیا، اگر وہ کالا ڈیم بناتے تو خرچہ قدرے کم ہوتا۔ مزید صدا آئی، ڈیم کے چاروں جانب دیوار اٹھانے سے بہتر تھا تِین طرف پہاڑ ہوتے اور صرف ایک دیوار کا خرچہ اٹھانا پڑتا۔ یہ جواب کچھ سمجھ آیا۔ لیکن کھڑا ہونے والا سوال پھر کھڑا ہوگیا۔ سوچنے لگا کہ جب ایک چیز باآسانی بن بھی سکتی ہے اور رہنما کا کہنا بھی یہ ہو کہ روك سکو تو روك لو، پِھر یہ باغ والے کالے ڈیم كو چھوڑ کر اِس بھاشا کی کیا ضرورت؟ ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن اچانک مجھے پِھر اسی گانجے فروش کی بات یاد آگئی کہ دھندہ بھروسے سے نہیں اُصُولوں سے چلتا ہے اور اِس رہنما کے اصول اب میری سمجھ میں آنے لگے ہیں کہ یہ والا قائد ٹھونک بجا کے خدمت کرنے آیا ہے۔ اسی لیے اس خدمت کی قیمت قدرے زیادہ ہے۔ 

Facebook Comments

حارث خان
ایک عام آدمی، معاشرے کا چلتا پھرتا نمائندہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply