دینِ الٰہی، الٰہی کا دین اور آج کا نوجوان ۔۔۔ خرم شہزاد

مغل بادشاہ اکبر نے دینِ اسلام چھوڑ کر دین الٰہی ایجاد کیا اور پھر اس پر کاربند رہا، یہ تو سب کو پتا ھو گا۔ دین اکبری یا دین الٰہی ایجادکیوں کیا؟ روایات بہت سی ھیں لیکن اس سوال کا ایک جینوئن جواب ہے۔ اور مومنو! اس سوال کے جواب میں آج کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے ذہن میں پائے جانے والے مذہب کے بارے سوالات کا جواب بھی پایا جاتا ھے۔(زور پڑھے لکھے اور نوجوانوں پر ھے، اندھے مقلدین اور اور اپنے عقیدے کو حرف آخرت سمجھنے والے رِجِڈ حضرات نہیں)۔
اکبر اوائل عمری میں تخت نشین ھوا،علوم کا، مذہب کے مطالعے کا، اسے جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس نے چہار عالم سے مختلف فرقوں اور مسالک کے جید عالم جمع کئیے۔ ہر روز وہ گھنٹوں انکے ساتھ بیٹھ کر مذہبی مسائل پر بحث کرتا، اور مختلف گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتا۔ اب اتنے سارے مختلف مسالک اور فرقوں کے مولانا ایک ساتھ بیٹھے ھوں اور وہ ایک بات پر متفق ہو جائیں، یہ ناممکن کی حد تک مشکل بات ہے۔ اکبر ایک سوال پوچھتا، چھ علما سے چھ مختلف جوابات آتے اور سب ایک دوسرے کے متضاد۔ وہ اُلجھ جاتا، اور اصلی جواب کی کھوج شروع کرتا لیکن ہر ایک کے پاس اپنے جواب کے دفاع میں اتنے دلائل اور روایات ھوتیں کہ مسئلہ سلجھنے کی بجائے الجھتا چلا جاتا۔ جلد ہی وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ اُمّت ایک کلمہ کے علاوہ اور کسی چیز پر متفق نہیں ھے بلکہ کئیوں نے تو کلمہ میں بھی اپنی کھَچ ماری ھوئی ھے۔ دوسرا اس نےان علما کی نجی زندگی کا جاسوسوں کی مدد سےجائزہ لیا تو پتا چلا کہ بیشتر کے قول و فعل میں حد سے زیادہ تضاد ھے۔ ان سب چیزوں نے اسے مذہب سے ہی متنفّر کر دیا۔ اس نے اپنے وضع کردہ قوانین کی مدد سے دین اکبری ایجاد کیا اور تا عمر اس پر کاربند رھا۔
اب اکبر کی جگہ آج کے پڑھے لکھے نوجوان کو رکھ کر دیکھیں، وہ دیوبندی، بریلوی، اھلحدیث یا شیعہ گھر میں پیدا ھوتا ھے اور وہ مسلک موروثی طور پر اس کا بن جاتا ھے۔  بیشتر اوقات  یہ نوجوان تاعمر اسی پر قائم رھتا ھے۔ ان حالات میں مسئلہ نہیں بنتا، لیکن آج کے دور میں تحقیق کی آسانی اور معلومات کے سیلاب نے کام مشکل بنا دیا ھے۔ اب ان سب چیزوں کو مد نظر رکھتے ھوئےاگر غلطی سے اس کو دین اور تقابلِ مسالک و ادیان کا چسکا لگ جائے، اور وہ اکبر کی طرح تحقیق شروع کر دے، اس موضوع پر پڑھنا شروع کردے،مختلف عُلما سے سوال پوچھنا شروع کر دے  تو، زیادہ امکانات اس بات کے ھی ہی ہوں گے  کہ وہ مزید اُلجھے گا،اگر تو دل کو سمجھا بلکہ بہلا کر کسی ایک مسلک پر ٹِک گیا تو مسلمان رھے گا، ورنہ شاید دین سے ہی جائے۔
ذہن میں یہ خیال ایک تو یوں آیا کہ عاطف میاں کا مضمون پڑھنے کا اتفاق ھوا اپنی کنورشن کے بارے میں، اس میں جس نے اپنے دین  کے بارےکم و بیش ویسے ہی خیالات کا اظہار کیا جیسا کہ اکبر نے۔  دوسرا میں اسلام آباد میں رہتا ہوں  اور ارد گرد بہت سے ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں جو انہی الجھنوں کا شکار ہیں۔ یہ لوگ ظاہر کریں یا نہ، لیکن یہ لا دین ہو رہے ہیں، یہ مذہب کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، قصور ان کا بھی نہیں ہے، ان کو سمجھانے والا، پکڑکر واپس لانے والا کوئی نہیں، کیونکہ جن علما کو ان لوگوں پر کام کرنا چاہئیے، ان کی اصلاح کیلئے زندگی وقف کرنی چاہئیے، وہ اپنے مسلکی مسائل، تفرقہ بازی میں اُلجھے ہوئے ہیں، انہیں دوسرے مسلمانوں کو کافر بنانے سے ہی فرصت نہیں اور جو واقعی کافر اور مُلحد بن رہے ہیں، ان کی پرواہ کسی کو نہیں۔
ان حالات میں مذہبی طبقے کی زمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ ان کو اپنے اہداف کا درست تعیّن کرنا ہوگا کہ آیا دین کی سربلندی موجود مسلمانوں کو کافرقرار دینے میں ہے یا الحاد کی جانب مائل لوگوں  کو حلقہ دین میں واپس لانے کو۔ اگر ہم یہ طے نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں کوئی حق نہیں کہ عاطف میاں جیسوں کے قادیانی یا لادین بننے کا الزام سراسر انکو ہی دے سکیں۔ ہمارے علما اور ہم سب بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم سب سے  پوچھ    ہو گی روزقیامت۔
اپنی سمت درست کیجئیے حضور، آج کا نوجوان پُرانے قصے کہانیوں پر یقین نہیں کرتا جو آپ نے رٹے ہوئے ہیں۔ اسلام لاجیکل مذہب ہے، اس کو اس کی اصلی روح اور اصلی فلسفے کے ساتھ سیکھئیے اور پھر دوسروں کو سکھائیے۔ نوجوانوں کی ذہنی سطح پر آئیے، تبلیغ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیجئے، صرف وضع قطع اور ایک مخصوص سٹائل کو دین نہ بنائیے بلکہ ان کی روح و دل کی بالیدگی کا اہتمام کیجئیے۔ ان کو ان کے مسالک پر رہنے دیجئیے،صرف ان کو اچھے مسلمان بنانے پر توجہ دیجئے۔ اور اچھی مسلمانئیت صرف دین کے بنیادی احکامات پر عمل اور اخلاقی طور پر اچھا انسان ھوناھے، باقی سب بیانئیے اور تفصیلات ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply