عامر لیاقت اور خواجہ سراؤں کی اَن بَن۔۔ذیشان محمود

ایک دہائی قبل کی بات ہے کہ ہمارے محلے میں ایک بوڑھا خواجہ سرا مانگتے آیا کرتا تھا۔ وہ کوئی میک اپ میں لتھڑا، چمکیلے، بھڑکیلے لباس میں ملبوس کوئی فیشن ایبل خواجہ سرا نہ تھا۔ ہمیشہ سفید کپڑوں میں ملبوس، سر پر سلیقے سے دوپٹہ پھیلائے نظر آتا۔ چادر نما دوپٹہ سر پر اچھی طرح ٹکا ہوتا جو کانوں کے پیچھے سے ہوتا ہوا اوپری جسم کو ڈھانپے رکھتا۔ شاید جوانی میں اس نے خوب میک اپ کا استعمال کیا تھا جس وجہ سے اس کی جلد سیاہ رنگ کی داغ دار تھی۔ گول کالا چشمہ لگائے اور ایک ہاتھ کمر پر ٹکا کر جبکہ دوسرے ہاتھ میں لفافہ یا کپڑے کا تھیلا پکڑے دھیمی چال سے چلتا نظر آتا۔ محلے کے بچے ، بڑے لوگ اسے آپا، اماں، خالہ، بوڑھا ہیجڑا سمیت کئی دیگر ناموں سے پکارتے یا چھیڑتے۔ کبھی بازار تو کبھی دروازے پر مانگنے آتا اور اپنی تیز کرخت آواز میں کہتا ’آپا آئی ہے‘۔ والدہ کے ساتھ بازار جاتے تو ہر کسی کو سلام کرتا اور روک روک کر دعا دیتا نظر آتا۔ کوئی پیسے پکڑا دیتا تو کوئی نہ دیتا، لیکن کبھی اس کے منہ سے  بددعا نہیں نکلی تھی۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ خواجہ سراؤں کو کبھی تنگ نہ کرنا ،یہ فوری بددعا دیتے ہیں۔ اور سکول میں دوسرے بچوں سے تو ان کی بددعاؤں کی قبولیت کی داستانیں سنی تھیں جن میں سب سے بڑی بد دعا یہ سنی کہ جس کو یہ بددعا دیں وہ ہیجڑا بن جاتا ہے۔

بچے جب اردگرد جمع ہو کر اسےآوازے کستے تو وہ بددعا دینے کا کہتا یا ہلکی پھلکی گالی نکال کر یا جوتی دکھا کر ڈراتا۔ لیکن کبھی اس کو کسی سے لڑتے نہ دیکھا۔ ایک گلی سے دوسری گلی ہوتا ہوا وہ غائب ہو جاتا۔ نامعلوم کہاں سے آتا اور کہاں چلا جاتا۔

ہماری گلی میں دو کم عمر بھائی چھوٹا منّا اور بڑا منّا مشہور تھے۔ ہر کسی کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور رکھتے۔ ایک بار اپنے پڑوسیوں کا گاڑی میں پڑا بریف کیس لے کر بھاگ گئے۔ اتفاق سے اس بوڑھے خواجہ سرا کا بھی وہاں سے گزر ہو گیا۔ ان بھاری بھر کم عورتوں نے جن کا سامان گم ہوا تھا، اس بوڑھے خواجہ سرا کو چور سمجھ کر خوب ذلیل کیا، مارا پیٹا اور برہنہ کر ڈالا۔ وہ بیچارہ بوڑھا زمین پر پڑا اپنی بے گناہی اور چوروں کو بددعائیں دیتا رہا۔ پھر اس کے بعد سے کسی نے اسے محلے میں نہیں دیکھا۔ ایسی بے عزتی کے بعد تو سفید پوش لوگ بھی محلہ تو کیا شہر تبدیل کر لیتے ہیں پھر وہ  تو ٹھہرا معاشرے  کا سمجھا جانے والا” گند”۔ شاید اس کے دل سے نکلی آہ تھی یا بددعا جس نے چوروں کا ایسا پیچھا کیا کہ وہ دونوں پکڑے گئے اور پھر چھوٹا منا یکدم بیمار ہوا اور چل بسا۔

اس حقیقی کہانی کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کی ایک معروف متنازع شخصیت رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت جو عالم دین کے ٹائٹل کے ساتھ ساتھ کئی قسم کے تمغے سجائے ہوئے ہیں، نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں پاکستانی قوم کو خواجہ سراؤں سے بات کرتے ہوئے تمیز اور دائرہ اخلاقیات میں رہنے کا سبق دیا ،پھر انہی دو خواجہ سراؤں کو اپنا سر مونڈھنے کا چیلنج دے ڈالا۔ یہ واقعی اس کے لئے ایک تکلیف دہ اور غیر اخلاقی امر تھا، یہ چیلنج پورا نہ کر نے پر اسے پروگرام چھوڑ کر جانا پڑا۔
https://youtu.be/LOnWausrft8
جس کے بعد پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر نے عامر لیاقت صاحب کو ایک لاکھ روپے دینے کی شرط پر اپنا سر مونڈھنے اور وگ اور میک اپ کے ساتھ کسی سگنل پر بھیک مانگنے کا چیلنج بھی دیا ہے۔
https://youtu.be/xvbmU6PbG4I
اخلاقیات کے درس دینے والے یہ عالم دین پاکستان کے میڈیا پر آئے دن چھائے رہتے ہیں۔ اس سے قبل بھی ان کے متنازع بیانات پر ایک اقلیت کے لوگوں کو جانی نقصان پہنچا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا تعالیٰ کی مختلف قسم کی مخلوقات کی اقسام میں سے ایک قسم انسان ہے اور انسان بھی دیگر مخلوقات کی طرح مونث اور مذکر میں منقسم ہے لیکن مذکورہ بالا ملی جلی مخلوق بھی انسان کہلاتی ہے۔ اور انسان کہلائے جانے کے سبب اشرف المخلوقات میں ہی شمار ہوتی ہے۔ خواجہ سراؤں کی بددعاؤں کی قبولیت کے تو چرچے زبان زد عام ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان خواجہ سراؤں سے محض ریٹنگ کے لئے اخلاقیات سے گری حرکت کروانے کی ضد پر اینکر پرسن و پاکستان کی آمر جماعت کے رکن عامر لیاقت صاحب کی بارہ آہیں کیا رنگ لاتی ہیں۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply