آئن سٹائن اور فوٹون (63)۔۔وہاراامباکر

آئن سٹائن نے پلانک کے خیالات کو لیا تھا اور ان سے فزکس کے گہرے اصول اخذ کئے تھے۔ آئن سٹائن کو معلوم تھا کہ ریلیٹیویٹی کی تھیوری کی طرح کوانٹم تھیوری نیوٹن کی فزکس کے لئے ایک چیلنج تھی۔ لیکن اس وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ کوانٹم تھیوری کتنا بڑا چیلنج تھی اور جب اس کو ڈویلپ کیا گیا تو اس کے فلسفانہ نتائج کتنے گہرے نکلنے تھے۔ آئن سٹائن نہیں جانتے تھے کہ انہوں نے کس میں ہاتھ ڈالا ہے۔

اپنے تیسرے پیپر میں آئن سٹائن نے جو نکتہ نظر پیش کیا، اس میں روشنی کو لہر کے بجائے کوانٹم پارٹیکل تصور کیا گیا تھا۔ اس سے قبل میکسویل کی تھیوری بہت کامیابی سے اس کی بطور لہر وضاحت کرتی آئی تھی۔ فزکس کی کمیونیٹی کو آئن سٹائن کا یہ آئیڈیا قبول کرتےایک دہائی سے زیادہ عرصہ لگا۔ اور آئن سٹائن کا اپنا اس بارے میں کیا خیال تھا؟ یہ ہمیں ان کے ایک دوست کو لکھے گئے خط سے اندازہ ہوتا ہے جو ان تینوں پیپروں سے پہلے لکھا۔ جہاں پر ریلیٹیویٹی کے پیپر کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ “اس کا کچھ حصہ شاید تمہیں اچھا لگے”، وہاں پر کوانٹم کے بارے میں پیپر پر انہوں نے بہت جوش سے لکھا ہے، “یہ بہت ہی انقلابی آئیڈیا ہے”۔ اور یہی وہ کام تھا جس کا واقعی سب سے زیادہ اثر ہوا اور یہی وہ کام تھا جس پر انہیں 1921 کا نوبل انعام دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئن سٹائن نے پلانک کے کام کو آگے بڑھایا تھا۔ جہاں پر پلانک نے کام فزکس کو ایٹم کے تصور سے نجات دلانے کے لئے کیا تھا، وہاں پر آئن سٹائن کا کام اس سے بالکل برعکس تھا۔ اور ایٹم کے بارے میں انہوں نے براونین موشن کی وضاحت سے اسے حاصل کر لیا تھا۔

لیکن آئن سٹائن نے فزکس میں اس سے اگلا جو تصور متعارف کروایا تھا، وہ نگلنا زیادہ دشوار تھا۔ یہ روشنی کی ایٹموں کی طرح کی تھیوری تھی۔ اس تک وہ پلانک کی کی گئی تحقیق کے تجزیے سے پہنچے تھے۔ وہ پلانک کے تجزیے سے متفق نہیں تھے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لئے انہوں نے خود ریاضی کے ٹول بنائے تھے۔ اور پھر بھی اسی نتیجے پر پہنچے تھے، جو پلانک کا تھا۔ بلیک باڈی ریڈی ایشن کی وضاحت کوانٹا کے تصور کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ لیکن آئن سٹائن کی وضاحت میں ایک بہت کلیدی ٹیکنیکل فرق تھا۔ پلانک کا خیال تھا کہ ریڈی ایشن کا پیکٹ کی صورت میں ہونے کی وجہ مادے کی خاصیت ہے جبکہ اس کے برعکس آئن سٹائن نے خیال پیش کیا تھا کہ یہ خود ریڈی ایشن کی خاصیت ہے۔

آئن سٹائن بلیک باڈی ریڈی ایشن کو فطرت کے ایک بنیادی نئے دریافت شدہ ریڈیکل اصول کے طور پر دیکھتے تھے۔ اور وہ یہ کہ تمام الیکٹرومیگنیٹک ریڈی ایشن پیکٹ کی صورت میں ہے، جیسے روشنی کے ایٹم ہوں۔ اور یہ وہ بصیرت تھی جس تک آئن سٹائن سب سے پہلے پہنچے تھے اور اس کا احساس کر لیا تھا کہ کوانٹم اصول انقلابی ہیں۔ یہ ایک مسئلے کو حل کرنے کا ریاضی کا ایڈہاک حربہ نہیں ہیں بلکہ ہماری دنیا کی بنیادی حقیقت ہیں۔ انہوں نے اس کو لائٹ کوانٹا کہا اور 1926 میں انہیں فوٹون کا نام مل گیا۔

اگر آئن سٹائن کام یہاں تک چھوڑ دیتے تو آئن سٹائن کی فوٹون کی تھیوری ایک متبادل ماڈل ہوتا، جو پلانک کی طرف ایک مسئلے کی متبادل وضاحت کر دیتا۔ لیکن اگر فوٹون کا تصور اصل تھا تو اس کو صرف بلیک باڈی تک محدود نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اور آئن سٹائن نے ایسا ایک فینامینا ڈھونڈ لیا جو فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ کہلاتا ہے۔

اس مظہر میں روشنی دھات سے ٹکرا کر الیکٹران خارج ہونے کی وجہ بنتی ہے۔ اور ان کا ہم الیکٹرک کرنٹ سے معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ تکنیک بعد میں ٹیلی ویژن کی ڈویلپمنٹ میں اہم ہو گئی اور ابھی بھی کئی آلات میں استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دھواں ڈیٹیکٹ کرنے کے لئے یا پھر لفٹ میں دروازہ بند کرنے کے لئے۔ اس دوران روشنی کی شعاع ایک سے دوسرے سرے تک جا رہی ہوتی ہے اور اس سے کرنٹ پیدا ہوتا ہے۔ جب آپ اس میں داخل ہوتے ہیں تو یہ بہاوٗ ٹوٹ جاتا ہے اور دروازہ کھلا رہتا ہے۔

اس مظہر کو Hertz نے 1887 میں دریافت کیا تھا لیکن اس کی وضاحت نہیں کر سکے تھے کیونکہ اس وقت تک الیکٹران بھی دریافت نہیں ہوئے تھے۔ الیکٹران ہرٹز کی وفات کے تین سال بعد تھامپسن نے 1897 میں دریافت کئے۔

الیکٹران کی دریافت کے بعد فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ کی وضاحت ممکن ہوئی کہ یہ روشنی ٹکرا کر الیکٹران کے توانائی حاصل کر کے اپنی جگہ سے نکل جانے سے ہوتا ہے۔ اس کے تجربات آسان نہیں تھے لیکن طویل تجربات سے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ کے تجربات کی وضاحت تھیوریٹیکل تصویر میں فٹ نہیں ہو رہی۔

مثال کے طور پر جب روشنی زیادہ کر دی جائے تو الیکٹران زیادہ نکلتے ہیں لیکن ان کی توانائی پر فرق نہیں پڑتا۔ اس کا کلاسیکل فزکس کی وضاحت سے تضاد تھا۔ کیونکہ زیادہ روشنی میں زیادہ توانائی ہوتی ہے اور اس کے مطابق زیادہ توانائی جذب کرنے والے الیکٹرانز کو تیز تر اور زیادہ توانائی والا ہونا چاہیے تھا۔

آئن سٹائن ان مسائل پر کئی برسوں سے سوچ رہے تھے اور 1905 میں انہوں نے کوانٹم کنکشن جوڑ لیا۔ اس کی وضاحت اس صورت میں کی جا سکتی تھی اگر روشنی فوٹون پر مشتمل ہو۔ اس کے مطابق روشنی کا فوٹون جب الیکٹران سے ٹکرائے گا تو الیکٹران کو خاص توانائی منتقل کرے گا۔ اور اس توانائی کا انحصار روشنی کی فریکوئنسی یا اس کے رنگ سے ہو گا۔ زیادہ فریکوئنسی والے فوٹون کے پاس زیادہ توانائی ہو گی۔ جب کہ اگر صرف روشنی بڑھائی جائے اور فریکوئنسی نہیں تو فوٹون کی تعداد میں اضافہ ہو گا لیکن ایک فوٹون کی توانائی میں نہیں۔ اس وجہ سے زیادہ الیکٹران تو نکلیں گے لیکن ان کی توانائی میں فرق نہیں آئے گا۔

یہ تجویز کہ روشنی فوٹون سے بنی ہے، میکسویل کی بہت ہی کامیاب الیکٹرومیگنیٹک تھیوری سے متضاد تھا، جو کہتی تھی کہ روشنی لہروں کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ آئن سٹائن نے (ٹھیک) تجویز کیا کہ کلاسیکل میکسویل جیسی خاصیتوں کا مشاہدہ صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب فوٹونز کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اثر ایسا دکھائی دے۔ اور یہ عام روزمرہ کا کیس ہے۔

ایک سو واٹ کا بلب ایک سیکنڈ کے ایک اربویں حصے میں ایک ارب فوٹون خارج کرتا ہے۔ جبکہ روشنی کی کوانٹم نیچر اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب روشنی بہت مدہم ہو جیسا کہ فوٹوالیکٹرک فینامینا جیسا ایفیکٹ ہے۔ اور یہاں پر فوٹون کے پیکٹ والی نیچر نمایاں ہونے لگتی ہے۔ لیکن آئن سٹائن کے اندازے دوسروں کو قائل کرنے کے لئے کافی نہیں تھے۔ یہ خیالات بہت ریڈیکل تھے اور تقریباً ہر جگہ سے انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

اس بارے میں بہت ہی دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ جب آئن سٹائن کو پروشین اکیڈمی آف سائنس کا حصہ بنایا گیا۔ پلانک اور کئی دوسرے صفِ اول کے سائنسدانوں نے 1913 میں مشترکہ سٹیٹمنٹ دی جس کا اختتام اس پر تھا، “خلاصہ یہ کہ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ فزکس کے بڑے حل طلب مسائل میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہے جس پر طبع آزمائی کر کے جدید فزکس کو آگے بڑھانے میں آئن سٹائن نے اپنا حصہ نہیں ڈالا۔ کئی بار انہوں نے غلط سمت بھی اختیار کی ہے اور قیاس آرائیوں میں بہت دور نکل گئے ہیں، جیسا کہ روشنی کے کوانٹا کے بارے میں، لیکن ہم انہیں اس بارے میں موردِالزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ کیونکہ جب آپ بالکل نئے خیالات فزکس جیسی exact سائنس میں بھی دیتے ہیں تو یہ کام غلطی کا رِسک لینے کی جرات کے بغیر نہیں کیا جا سکتا”۔

بڑے سائنسدانوں نے آئن سٹائن کے بارے میں جو رائے دی تھی، وہ بالکل درست تھی۔ تاہم انہوں نے آئن سٹائن کی جس غلطی کی نشاندہی کی تھی، اس بارے میں وہ بالکل غلط تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزیدار بات یہ کہ فوٹون تھیوری کے ابتدائی مخالف رابرٹ ملیکن تھے اور آخر میں انہی کا کیا ہوا تجربہ تھا جس کی ایکوریٹ پیمائش نے آئن سٹائن کا خیال کنفرم کر دیا۔ (ملیکن کو اپنے تجربے اور بعد میں الیکٹران کے چارج کی پیمائش کرنے پر 1923 کا نوبل انعام ملا)۔

جب آئن سٹائن کو 1921 میں نوبل انعام دیا گیا تو اس کے ساتھ یہ سٹیٹمنٹ تھی، “البرٹ آئن سٹائن کی تھیورٹیکل فزکس میں خدمات کے لئے اور فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ کی دریافت کے لئے”۔

نوبل کمیٹی نے آئن سٹائن کا فارمولا کا انتخاب تو کیا تھا لیکن اس کے ساتھ منسلک فکری انقلاب کو نظرانداز کر دیا تھا۔ نہ ہی روشنی کے کوانٹا کا ذکر تھا اور نہ ہی آئن سٹائن کی کوانٹم تھیوری میں کنٹریبیوشن کا۔ مورخ ابراہام پائیس لکھتے ہیں، “یہ تاریخی سٹیٹمنٹ اس وقت کی فزکس کی کمیوینیٹی کے اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتی تھی”۔

اس سے اگلی دہائی میں کوانٹم مکینکس کی رسمی تھیوری کی آمد کے بعد فوٹون یا کوانٹم تھیوری کے بارے میں شکوک و شبہات ختم ہو گئے۔ اور نیوٹن کے حرکت کے قوانین کا نیچر آف رئیلیٹی کی وضاحت کا وقت ختم ہو گیا۔ اور جب وہ وقت آیا تو آئن سٹائن نے اس کی کامیابی تسلیم کی لیکن اب اس کے مخالف وہ خود ہی تھے۔

آئن سٹائن کوانٹم تھیوری کو ایک عارضی خیال سمجھتے رہے جس کو کوئی زیادہ فنڈامینٹل تھیوری جلد ہی الٹا دے گی اور روایتی تصورات بحال کر دے گی۔

آئن سٹائن نے 1905 میں جو تین پیپر شائع کئے، ان میں سے ہر ایک نے فزکس کا دھارا بدل دیا۔ اور وہ بقیہ عمر میں اس کو واپس تبدیل کرنے کی سعی کرتے رہے۔ جو انہوں نے خود شروع کیا تھا، اس کو واپس لے جانے کی کوشش میں رہے۔ 1951 میں اپنے لکھے گئے آخری خطوط میں انہوں نے اپنے دوست مشل بیسو سے اعتراف کیا کہ وہ ناکام ہو گئے ہیں۔ “پچاس سال کی غور و فکر سے بھی میں اس سوال کا جواب جاننے میں ذرا سی بھی پیشرفت نہیں کر سکا۔ روشنی کے یہ کوانٹا کیا ہیں؟”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply