ہتھوڑا مین: ایک گمنام سپر ہیرو ۔۔۔ معاذ بن محمود

 

جھیل کے نیلگوں پانی میں جس قدر زندگی جھلکتی ہے باہر کی دنیا میں اتنا ہی سناٹا رہتا ہے۔ مغرب کو ڈوبتا سورج اس سناٹے میں اندھیرے کی آمیزش کرنے کے درپے ہے۔ جھیل کے ارد گرد گھنا جنگل باہر سے آنے والوں اور جھیل کے درمیان وحشت کی دیوار لیے کھڑا ہے۔ ہوا میں اُڑتے پرندوں سے جھیل کی حفاظت ایک وسیع ترین جال کے ذریعے ہوتی ہے۔ کسی بھی متوقع چرند سے بچنے کو جھیل کے چاروں اطراف لوہے کا مضبوط جنگلہ موجود ہے جس میں چوبیس ہزار والٹ کا کرنٹ اس کی کمزور نسوں میں گرم لہو کی طرح اب بھی دوڑ رہا ہے۔

اپنی جوانی میں وہ انڈے اٹھایا کرتا تھا۔ انڈے۔۔۔  مرغی کے انڈے۔ اس بازار میں جہاں انڈے نازک ترین جنس سمجھے جاتے وہ مشہور تھا کہ وہ اپنے اٹھائے انڈے کبھی ٹوٹنے نہ دیتا۔ کہتے ہیں ایک جوہری ہی ہیرے کی اصل شناخت کر سکتا ہے بس ویسے ہی، پہچان رکھنے والے ایک بزرگ نے انڈے اٹھاتے اس جوان کو پہچان لیا۔ یہ بزرگ اپنے وقت کے قاضی القضاء تھے اور طے کر چکے تھے کہ اس جوان کو ہتھوڑا تھما کر ایک دن سپر ہیرو بنانا ہے۔ یہ کٹھن راستہ کس طرح سے طے ہوا اس پہ ایک الف لیلوی داستان لکھی جاسکتی ہے۔ بس اتنا کافی جانیے کہ قاضی القضاء بزرگ نے اپنے دور کے بادشاہ شاہ جرداری سے باقاعدہ جنگ لڑ کر جوان کو اس کی طاقت دلائی کہ مستقبل میں ہتھوڑا مین بن سکے۔ 

وہ عجیب صلاحیتوں کا مالک تھا۔ وہ نام لیے بغیر بتا دیا کرتا کہ کس کا ذکر کر رہا ہے۔ اس نے اپنے دور کی عوام کو بلا تلاطم دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا جن میں سے ایک کا وہ نام بھی نہیں لینا چاہتا تھا۔ اس کا ہتھوڑا انتہائی طاقت کا حامل تھا۔ کہتے ہیں اس کے ہتھوڑے کی جان کسی سپہ سالار میں بند تھی۔ اس کی انگلی ایک جنبش سے شاہ وقت کو گدا اور گدھا کو شاہ وقت بنا ڈالتی۔ اس کا ہتھوڑا جب چلتا تو کئی سورماؤں کو لوہے کے چنے چبانے پڑ جاتے۔ ساحرانہ قوتوں کا مالک یہ جوان اپنے بڑھاپے کے آغاز تک دنیا واقعتاً بدل چکا تھا۔

وہ ایک عرصے سپر ہیرو رہا اور پھر گمنام ہوگیا۔ اپنے ہیروئزم کے آخری دنوں جب وہ ایک دن نہا رہا تھا، جسم پہ صابن لگاتے ہی اس کے غسل خانے کا پانی بند ہوگیا۔ اس لمحے اس کا ہتھوڑا بھی ساتھ نہ تھا۔ آنکھوں میں رستے لائف بوائے اور چاروں طرف چھائے اندھیرے نے اسے یہ احساس دلایا کہ پانی کا فقدان اور اندھیرے کی بہتات کس قدر خوفناک کیفیت کا نام ہے۔ پس شاور میں پانی آتے ہی اس نے آنکھیں کھولیں اور الف نون حالت میں خود سے عہد کیا کہ “خدا کی قسم یہ اندھیرے میں مٹا کر اور پانی بہا کر ہی رہوں گا”۔ یہی وہ لمحہ تھا جب اس نے نیلگوں پانی والی جھیل پر ڈیم بنانے کا تہیہ کیا۔ 

اس نے اپنا عہد پورا کرنے کا عملی آغاز اپنی ذات سے کیا اور اپنی تمام تر آمدنی، جائداد، تنخواہ، بینک بیلینس، بلٹ پروف گاڑیاں غرضیکہ سب کچھ بیچ باچ کر پیسہ ڈیم فنڈ میں ڈال دیا۔ مگر اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس تمام ہیسے سے تو ڈیم کی چار دیواری بھی کھڑی نہیں ہوسکتی۔ پس یہاں سے آگے اس نے بھیک مانگی، چندہ مانگا، دوسروں کی تنخواہوں سے رقم چھینی، مجرموں کو جرمانے لگائے، ریاست کا پیسہ لوٹنے والوں سے اربوں واپس نگلوائے اور ڈیم فنڈ میں ڈالتا گیا۔ قریب ساڑھے تین سو سال تک چندہ جمع کرنے کے بعد وہ بالآخر ڈیم بنانے میں کامیاب ہو ہی گیا۔

اپنے مقصد میں کامیاب ہونے پر ہتھوڑا مین سے پوچھا گیا کہ گمنامی اور گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بعد اگر کسی نے ڈیم سے پانی چوری کر لیا تو آپ کیا کریں گے؟

اس نے وہ جواب دیا جو رہتی دنیا تک تاریخ کے پنوں میں مصنوعی سونے کے پانی سے لکھ لیا گیا۔ خوب سوچ کر گویا ہوا۔۔۔ “میں ریٹائیرمنٹ کے بعد خود ڈیم کے باہر جھونپڑی ڈال کر پہرہ دیا کروں گا”۔ 

دور بہت دور سائبیریا سے آنے والی مرغابیاں اکثر جھیل کے پانی کو ترستی ایک بوند کی آس میں اس جال میں پھنس جایا کرتی ہیں۔ سردیوں کی لمبی راتوں میں وہ، اکیلا، تن تنہا، جھیل کے کنارے واقع جھونپڑی میں ایسی بدنصیب مرغابیوں کو بھونتے ہوئے ایک عجیب سی مسکراہٹ چہرے پر سجا لیتا ہے۔ بھنی ہوئی مرغابی اور ساتھ فرائی مچھلی کا امتزاج اس کی “جان” میں “جان” ڈال دیا کرتا ہے اور وہ اکثر رات رضائی سے باہر نکل کر پرجوش چیخ مارتا ہے۔۔۔

“تمیں کیا ملوم رابعہ، میں کتنا مجبور ہوں”۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

رابعہ کی طرف سے جواب مگر کبھی نہ آتا۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply