خود نوشت/احمد اقبال۔حصہ چہارم

حصہ چہارم
نہ پھول تھے نہ چمن تھا نہ آشیانہ تھا
چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
15 اگست سے قبل ہی نگاہوں میں اجنبیت آگئی تھی۔ زندگی امتحان لیتی ہے تو اخلاقی اورانسانی قدریں اور مذہبی رواداری ہمسائیگی اور شناسائی کے دعوے۔ یہ سہارے یہ سوت کے دھاگے۔ ایک جھٹکے سے ٹوٹ جاتے ہیں (جانثار اختر)۔ یوم آزادی قریب آیا تو ماحول یکسر بدل گیا۔ گردونواح میں میرٹھ سے دہلی تک مسلمان آبادی ایک کمزور اقلیت تھی۔ کہیں دور سے ’’جے ہند‘‘ کے نعرے سنائی دیتے تھے تو رات کی خاموشی کچھ اور ہولناک ہو جاتی تھی۔ ہم گرمی میں کپڑوں پر کپڑے چڑھائے اونگھتے جاگتے تیار بیٹھے رات گزار دیتے تھے کہ حملہ ہوا تو بھاگ سکیں۔ 15 اگست کو نہ جانے کون کانگریسی لیڈر آگیا۔ اس کا شاندار استقبال ہوا ،اور ایک جلسے میں اس نے ترنگا لہرایا تو میں اور بھائی بھیا ابا کے ساتھ نہرو کیپ لگا کے شریک ہوئے جو وہاں سب میں مٹھائی کے ساتھ تقسیم کی جارہی تھیں۔ اور تو مجھے کچھ یاد نہیں اب واپس آئےتو بہت پریشان تھے۔
اسی رات میں سکسینہ کے کوارٹر کے سامنے سے من کی موج میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ گاتا گذر رہا تھا کہ اس نے باہر آ کے میری پھینٹی لگائی’’مسلے کتے، میرے دروازے پر بھونکتا ہے‘‘ یہ وہی تھا جو مجھے اور بھائی کو ریڈیو سننے کے لیے اندر بلا لیتا تھا۔ گھر آکے روتے روتے ابا سے شکایت کی تو ایک جھانپڑ اور پڑا۔ اماں نے بچایا کہ بچے کو کیا پتا ،ورنہ ابا اپنے طریقے سے پورا سمجھاتے۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے عافیت اسی میں جانی کہ ہمیں دہلی میں ایک دوست کے گھر عارضی طور پر شفٹ کر دیا جائے۔ بعد میں پاکستان تو جانا ہی ہے۔ وہ لکھ کر دے چکے تھے۔ ان کے اس فیصلے کا منطقی جواز وہ خود جانتے تھے 70 سال بعدان کی پانچویں نسل یقیناً’’بہت فائدے میں ہے‘‘۔۔۔ اس عزت اور آسودہ حالی کا وہاں آج تصور بھی نہ ہوتا ۔عارضی منتقلی میں ہم نے پہننے کے کپڑوں کے سو ا کچھ نہ لیا تھا ۔
ہم دہلی میں قرول باغ کے ایک گھر میں عارضی طور پر قیام پذیر ہوئے۔ یہ مسلمانوں کا علاقہ تھا۔ گھر کی چھت پر لہرانے والا سبز ہلالی پرچم آج کی اصطلاح میں سیکیورٹی رسک تھا لیکن صاحب خانہ کے لیے انا کا مسئلہ۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ ہمیں بھی جام شہادت پلانے کوتیار تھے لیکن جھنڈا اتارنے کو معرکئہ کفرو اسلام میں اپنی شکست سمجھتے تھے۔ ابا روز میرٹھ کی جانب 50 کلومیٹر مراد نگر کی بستی چلے جاتے تھے جہاں آرڈیننس فیکٹری تھی اور خیال یہ تھا کہ وہاں حالات بہتر ہوتے تو ہم بھی لوٹ جائیں گے اور پھرالوداعی دعوتوں کے بعدتمام سامان سفر باندھ کے اسی طرح پاکستان سدھاریں گے ,جیسے اب تک ایک شہر سے دوسرے شہرجاتے رہے تھے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ابا ایک دن واپس آ رہے تھے کہ دہلی اسٹیشن پر بم پھٹا اور پکڑ دھکڑ میں وہ بھی دھرلیے گئے لیکن آرڈیننس فیکٹری کا کارڈ دکھانے سے بچ گئے۔ اس کے بعد وہ بھی لوٹ کے نہ گئے۔ بعد میں سن لیا کہ گھر کو آگ لگادی گئی اور ابا کی برسوں میں جمع ہونے والی کتابوں، رسالوں کی فائلوں اوربیاضوں کا ذخیرہ راکھ ہو گیا، رفتہ رفتہ دہلی میں فسادات نے شدت اختیار کی تو نکلنے کی فکر ہوئی مگر وسیلہ کوئی نہیں بن رہا تھا۔
اسے آپ حسن اتفاق کہیے یا انتظام دست غیب کہ ابا کا 15 سال قبل کے ایک ہندو شاگرد کپٹن تنویر نے سر راہ اپنے استاد کو پہچان لیا اور اس نے ملٹری کا ایک ٹرک معہ دو مسلح محافظوں کے بھیج دیا ہم یوں نکلے کہ ہمارے اوپر کچھ ہلکا پھلکا سامان تھا اور دونوں محافظ رائفلوں کا رخ سڑک کی طرف کئے کھڑے کہ کوئی بلوائی قریب بھی آئے تو گولی مار دیں ۔ہر طرف سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایک جگہ میں نے سر اٹھا کے دیکھا اور وہ ہولناک منظر آج تک میری یاد داشت میں ہے۔ سڑک کے کنارے ایک لاش پڑی تھی اور دوسرا زخمی” پھڑک” رہا تھا۔
ٹرک نے ہمیں دہلی کے نظام الدین اولیا اسٹیشن پہنچایا جہاں سے پاکستان جانے والی اسپیشل ٹرینیں چلتی تھیں۔ ایک میدان میں سینکڑوں خیمے نصب تھے جن میں گردو نواح کے شہروں، قصبوں سے آنے والے اپنے خاندانوں کے ساتھ پڑے تھے۔ جن کو کسی اسپیشل ٹین پر جگہ مل جاتی تھی وہ جاتے وقت مفت کا سرکاری خیمہ کسی کو بیچ کر دام کھرے کر لیتے تھے ۔ ہزاروں کھلے آسمان تلے پڑے تھے۔ ہم نے بھی اپنی جگہ بنالی اور ابا نے کسی طرح ایک دری کا سائبان ڈال دیا۔ کہیں سے کچھ کھانے پینےکو لائے۔ سہ پہر کے وقت کچھ ہوائی جہاز نمودار ہوئے اور انہوں نے اوپر دائرے میں چکر لگاتے ہوئے غوطہ مار کر کھانے کے ڈبے گرائے۔ اس میں بھی لوٹ مچی تو طاقتور اور مستعد ذخیرہ کرنے میں کامیاب رہے اورپھر حکومت پاکستان کی فراہم کردہ مفت کی خوراک کو منہ مانگے دام بیچتے رہے۔
رات کو آسمان ٹوٹ کے برسا اور سب جل تھل ہوگیا۔ ہم بھی سب کی طرح ٹخنے ٹخنے پانی میں بیٹھے صبح ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ بارش اگلے دن دوپہر تک جاری رہی۔ ابا نے بتایا کہ اس میدان حشرجیسے افراتفری کے عالم میں بھی لوگوں نے کسی بھی ایرے غیرے کے ساتھ دو بول پڑھائے اور بیٹی تھما کے سر کا بوجھ اتارا۔ کچھ یوں گئیں کہ پھر نہ ملیں اور نہ جانے کس انجام سے دوچار ہوئیں۔ اسپیشل ٹرین پر جگہ ملنا آسان نہ تھا۔ ایک انار اور سو بیمار والی کیفیت تھی کچھ لوگ بھاری رقوم لے کرجگہ دلواتے رہے۔۔ دوسری رات بھی سوتے جاگتے کٹی۔ صبح منہ اندھیرے خواتین قلعہ کی دیوار کی طرف رفع حاجت کے لیے جاتی تھیں وہاں سے کئی جوان لڑکیاں اندھیرے میں اٹھالی گئیں۔ یہ نہ سمجھئے کہ یہ سب لوٹ مار یا بد معاشی کرنے والے ہندو ہوں گے۔ یہ سب وہیں مقیم مسلمان کرتے تھے۔ پکڑنے والا کوئی نہ تھا۔
تیسرے دن پھر ہندو کپٹن تنویر کی کوشش سے ہمیں ایک ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں جگہ ملی۔ وہ بہت سے کھانے پینے کے سامان کے ساتھ اپنے سابق ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملنے آیا تو سختی سے تاکید کی کہ راستے میں اترنا کہیں نہیں ہے، نہ کہیں سے کچھ لینا ہے۔ پانی تک میں زہر ملا ہونے کی خبریں عام تھیں۔ خدا خدا کرکےٹرین چلی اور دہلی کے مضافات سے خیر و عافیت کے ساتھ گزرگئی، تو پھر رات بھر چلتی رہی۔ ماں باپ بیٹھے رہے اور ہم ان کی گود میں سر رکھے سوتے رہے ۔کھڑکیاں بس اتنی کھلی تھیں کہ تازہ ہوا ملے اور لوگ دم گھٹ کے نہ مر جائیں۔ ستمبر کا آغاز تھا۔ گرمی اور حبس سے سب کا حال خراب تھا۔ رات کے وقت نہ جانے کس جگہ دو فوجی آئے اور ٹین کا ایک باکس چھوڑ گئے اس میں بسکٹ، پیسٹریاں اور کیک رس بھرے ہوئے تھے۔ بھوکوں کے پیٹ میں کچھ گیا لیکن پانی عنقا تھا ۔کچھوے کی رفتار سے رینگتی ٹرین دوسرے دن جالندھر پہنچی تو وہاں پٹری اکھاڑ دی گئی تھی انجن قلابازی کھا کے دور جاگرا اور کچھ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ اس کے ساتھ ہی دونوں طرف کھڑی قد آدم فصلوں میں چھپے مسلح سکھوں نے حملہ کیا۔
یوں توہر مہاجر ٹرین کی حفاظت کے لیے ملٹری ساتھ چلتی تھی لیکن سنا یہی گیا تھا کہ وہ قتل عام کے خاموش تماشائی کا فریضہ ادا کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں، اس ٹرین کے ساتھ جو فورس تھی اسے ایک انگریز کپٹن کمانڈ کر رہا تھا، ملٹری نے دونوں طرف پوزیشن لے کر فائرنگ کی جو وقفے وقفے سے سارا دن جاری رہی، درمیان میں سکھوں کے نعرے ’’جو بولے سو نہال۔ ست سری اکال‘‘ بھی سنائی دیتے رہے۔ کھڑکیاں بند، حبس اور گھٹن کے ساتھ کرپانوں سے ذبح کئے جانے کا خوف۔ بھوک اور پیاس کی کسے پروا۔ بملی۔ پھر امرتسر سے انجن آیا ،پٹری مرمت ہوئی اور امدادی کام ختم ہوجانے کے بعدنہ جانے کس وقت رات کو ٹرین نے پھر حرکت کی۔ اگلاامرتسر کا اسٹیشن تھا سکھوں کا گولڈن ٹمپل والا ہیڈ کوارٹر۔ اب میں جانتا ہوں کہ وہ لاہور سے 50 کلومیٹر پر بھارت کا آخری اسٹیشن ہے اس وقت وہ سفر کا سب سے پر خطر مرحلہ تھا۔ کسی نے چلا چلا کے اعلان کیا’’پینے کا پانی لے لو‘‘ اور بالٹی لے کر ابا بھی اتر گئے۔ ایک قطار میں چندباتھ روم بنے ہوئے تھے۔ ابا اندر گئے اور کسی نے باہر سے کنڈی لگادی۔ سکھ جمع ہو کے’’ست سری اکال‘‘ کےنعرے لگانے لگے۔ ہجوم پر خون سوار تھا لیکن زندگی باقی تھی۔ کوئی سکھ کرنل یونیفارم میں ادھر سے گذرا اس نے ریوالور سے ہوائی فائر کیے اور بلوائیوں کو بھگایا۔ پھرایک ایک کر کے قیدی آزاد کیے تو ان سب کے ایک ایک زبردست الوداعی جھانپڑ رسید کیا ۔پنجابی میں اس فرشتہ رحمت کی گالیاں بھی دعائے خیر ہی لگیں اس نے کہاکہ سالے مسلو۔ ابھی تم سب کا جھٹکا ہو جاتا۔ پیاس سے مر جائو ڈبے میں لیکن نیچے مت اترو۔ توبہ توبہ کرتے زندہ سلامت لوٹ آنے والوں نے اس وقت بس اتنا کہا کہ پانی نہیں ملا۔ کچھ دیر بعد ٹرین پھر حرکت میں آئی۔
کھڑکیاں بدستور بند تھیں گرمی اورشدید حبس سے سب ہی قریب مرگ ہوں گے۔ نہ جا نے کب اچانک شور سا اٹھا۔ غور کیا تو نعرے پاکستان زندہ باد کے تھے۔ ایک دم سب مردے جیسے جی اٹھے۔ کھٹ کھٹ کر کے ہر کھڑکی کھل گئی سب کھڑکیوں سے باہر لٹک کے گلا پھاڑنے لگے، تازہ خنک ہوا اندر آئی۔ آج 70 سال بعد اس وقت بھی یہ لکھتے ہوئے میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔ پاکستان آ گیا تھا۔ یہ پاکستان کی ہوا تھی۔ ٹرین پاکستان کی سر زمین پر چل رہی تھی۔ وہ وقت صبح صادق کا تھا۔ ٹرین قصور کے اسٹیشن میں داخل ہوئی اور رکی تو سب مرد پلیٹ فارم پر سجدے میں گرگئے۔ ڈبے میں عورتیں زار و قطار رو رہی تھیں اور بچوں کو چمٹا کے پیار کر رہی تھی۔ پلیٹ فارم کی مسجد سے فجر کی اذان کی صدا سنائی دے رہی تھی۔ وہیں صف بندی ہوئی اور نماز فجر ادا ہوئی تو سینکڑوں پاکستانی میزبان گلے لگ گئے۔ وہ اپنے ساتھ گرم گرم پوریاں، چنے اور حلو ےکا روایتی لاہوری ناشتا لائے تھے۔ اتنا کہ ٹرین کے مسافر تعداد میں دوگنے ہوتے تب بھی زیادہ تھا۔ ڈھائی دن کے بھوکےٹوٹ کر گرے۔ ساتھ گرم چائے تھی ان میں خواتین بھی تھیں جو ڈبوں میں گھس آئیں اور میں نے انہیں بھی اماں کے گلے لگ کر آنسو بہاتا دیکھا۔ استقبال کیلئے آنے والوں کو سرحد پار سے آنے والے مہمانوں کے پل پل کی خبرتھی۔
کوئی مخبری کا نظام ایسا تھا کہ وہ تیار ملتے تھے۔ یہ بھی سنا ہے کہ بعض اوقات ہندو سکھوں کی بھارت جانے والی مہاجر ٹرین کو روک لیا گیا کہ ہماری ٹرین چھوڑو تو ہم بھی چھوڑتے ہیں۔ لیکن جو ٹرین دو دن پہلے روانہ ہوئی تھی اس میں صرف چار افراد لاشوں کے خون آلودہ انبار کیے نیچے سے زندہ برآمد ہوئے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب کہ حقیقت کیا تھی اور افسانہ کیا۔ 3 گھنٹے بعد پھر لاہور کی آخری منزل کے لیے حرکت میں آئی جہاں زیادہ پر جوش میزبانوں کا جم غفیر اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ ٹرین خالی ہوکے لوکو شیڈ میں چلی گئی پلیٹ فارم پر ایک شہر ہجرت آباد ہو گیا۔(جاری ہے)

Facebook Comments

احمد اقبال
تقریبا"50 سال سےمیں کہانیاں لکھتا ہوں موضوعاتی،قسطوار،مزاحیہ ۔شاعری کرتا ہوں۔ موسیقی، فلموں اور کرکٹ کا شوق ہے، یار باش آدمی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”خود نوشت/احمد اقبال۔حصہ چہارم

Leave a Reply