• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عمران خان کی جدوجہد اور روائتی سیاستدانوں کی شمولیت

عمران خان کی جدوجہد اور روائتی سیاستدانوں کی شمولیت

عمران خان اس ملک کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں تین نسلوں کا سٹار یا رومانس کہا جا سکتا ہے ۔ بطور کرکٹر وہ اس ملک کے ہر بچے ،ہرنوجوان اور بوڑھے کی پسندتھے ۔ جب وہ ریٹائر ہو رہے تھے تو شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جس نے ان کے عمدہ کیریئر اور بہترین قیادت کی تعریف نہ کی ہو ۔ کرکٹ کو خیر باد کہنے کے بعد انہوں نے سماجی جدوجہد کا بیڑا اٹھایا اور اسے بھی نا صرف پایہ تکمیل تک پہنچایا بلکہ خودکو ایک اچھا منتظم بھی ثابت کیا ۔ کرکٹ سے الگ ہونے کے بعد انہیں کئی بار سیاست میں آنے کا کہا گیا لیکن ہر بار یہ کہہ کر دامن بچا گئے کہ اس ملک میں سیاست کرنا بہت مشکل کام ہے ۔
1996 میں انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان تحریک انصاف کے نام سے پارٹی بنائی ۔ 1997 کے انتخابات میں اپنے دونوں آبائی حلقوں لاہور اور میانوالی سے الیکشن لڑے اور شومئی قسمت کہ دونوں جگہ سے ہار گئے ۔ اس وقت انکے ساتھ چند ایک سُچے لوگ تھے جنہیں پاکستان کی عوام نے ریجکٹ کردیا ۔ موجودہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی عمران خان کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا ۔ 2002 میں عمران خان کو پورے ملک میں صرف ایک سیٹ حاصل ہوئی ۔ اس دوران انہوں نے اپوزیشن بینچوں پر قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ وقت گزارا ۔ افغانستان پر امریکی حملہ اور پاکستان کی اس جنگ میں شرکت پر کھل کر تنقید کی، جس کی وجہ سے لبرل حلقوں میں طالبان خان کے نام سے مشہور ہوئے۔ مشرف دور میں چلائی گئی عدلیہ بحالی تحریک کے دوران گرفتار ہوئے اور زندگی میں پہلی بارجیل کی ہوا کھائی ۔ 2008 میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر الیکشن کا بائیکاٹ کیا ۔ مشرف اور ق لیگ سے نالاں عوام نے پیپلز پارٹی کو مرکز اور نون لیگ کو پنجاب میں مینڈیٹ دیا ،لیکن ان دونوں جماعتوں کی نورا کشتی نے پڑھے لکھے اور جدت پسند طبقہ کو کافی مایوس کیا ۔ یہی وہ موقع تھا جب عمران خان نے ملک گیر تحریک کے ذریعے خود کو ان دونوں کا متبادل ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ پڑھے لکھے اور نوجوان طبقہ نے انکے تبدیلی اور احتساب کے نعرہ پر لبیک کہا ۔ عمران خان نے زرداری اور نواز شریف کے انداز سیاست کو تنقید کا نشانہ بنایا اور جلسے جلوسوں کے ذریعے نا صرف اس ملک کی نوجوان نسل کو سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور کیا بلکہ ملک کی ہر سیاسی پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں آگئے ۔ 2013 کے انتخابات میں انکی جماعت نے ہر علاقہ میں ہر جماعت کا مقابلہ کیا ۔
کراچی میں ایم کیو ایم ، پختونخوامیں اے ان پی اور جے یو آئی جبکہ پنجاب میں نون لیگ کا ہر حلقہ میں مقابلہ کیا ۔ اکثر جگہوں پر روائتی سیاستدانوں کے مقابلہ میں نو آموز لوگوں کو ٹکٹ دیے جو ناصرف روائتی سیاست سے نابلد تھے بلکہ انتخابی عمل کے دائو پیچ سے بھی واقف نہ تھے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی جگہ عوام نے اپنی مجبوریوں کے سبب روائتی سیاستدانوں کو جتوا دیا تو کہیں دھاندلی کے ذریعے پی ٹی آئی کے نا تجربہ کار کھلاڑیوں کو آئوٹ کر دیا گیا ۔ انتخابات کے بعد عمران خان سمیت تمام سیاسی پارٹیوں نے دھاندلی کی شکایت کی لیکن ماسوائے عمران خان کسی نے بھی اس کو ملکی سطح پر اجاگر کر نے کے لیے احتجاج نہیں کیا ۔ پاکستان میں ماضی میں بھی ہارنے والی جماعتیں حکومت پر دھاندلی کا الزام لگاتی رہی تھیں ۔اس لیے حکومت نے عمران خان کے احتجاج کو کوئی اہمیت نہیں دی لیکن عمران خان نے اپنے لانگ مارچ اور دھرنے کے ذریعے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ۔ عوام اور اپوزیشن کے سامنے فرعون بنے ہوئے وزیراعظم کے پاس دو راستےتھے یا تو عوامی احتجاج اور دبائو کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کرتے اور انہیں منانے کی سعی کرتے یا پھر اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ہاتھوں کے سامنے سر جھکا دیتے ۔ جمہوری وزیراعظم نے اداروں کے سامنے سر جھکانے کو عوام کی شکایات دور کرنے پر ترجیح دی اور ڈیل کےذریعے اپنی گرتی ہوئی حکومت بچائی۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کا بیرون ملک جانا بھی اسی ڈیل کا نتیجہ تھا ۔ معروف صحافی رئوف کلاسراکے مطابق دھرنے کے دوران جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے عمران خان سے ملاقات کی تو انہیں یہ یقین دلایا کہ وہ حکومت سے وزیراعظم کے استعفیٰ کے علاوہ پانچوں شرائط قبول کروا سکتے ہیں لیکن عمران خان نے استعفیٰ والی شرط سے دست بردار ہونے سے انکار کردیا ۔
آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا ۔ اس دوران عدالت میں ان چار حلقوں کی سماعت ہوئی جنکی نشاندہی عمران خان نے کی تھی اور چاروں حلقوں سےد ھاندلی ثابت ہوگئی ۔ 2 حلقوں میں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا گیا۔ پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد ملکی سیاست میں ایک بارپھر ہلچل مچی ۔ کپتان پھر کمر کس کر میدان میں آگیا اور عدالت کا دروازہ کھٹکایا ۔ اس بار اسکے ساتھ جماعت اسلامی بھی تھی ۔ ایک سال تک کیس پر عمل درآمد نا ہوا ۔ کپتان نےایک بار پھر سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی دی جس پر عدالت عالیہ نے ازخود نوٹس کے ذریعے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی اور معاملہ جے آئی ٹی کے سپرد کر دیا / ۔ اس دوران کپتان کے طرز سیاست میں بھی تبدیلی آئی ۔ اس نے تھوڑا بیک فُٹ پر جاکر کھیلنا بھی سیکھ لیا ۔ پنجاب سندھ اور بلوچستان کے مضبوط سیاستدانوں کو بھی پارٹی میں لیا اور پارٹی کی تنظیم سازی بھی مضبوط اور با اثر لوگوں کے سپرد کی ۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے تحریک انصاف ان علاقوں میں بھی مضبوط ہورہی ہے جہاں روائتی سیاست دانوں کا ڈنکا بجاکرتا تھا ۔عمران خان کے ساتھ بھلے ہی دوسری پارٹیوں سے روائتی سیاست دان شامل ہورہے ہیں جن میں سے کچھ کی شہرت بھی اچھی نہیں ہے مگر عمران نے اپنی جہدوجہد سے راہِ فرار اختیار نہیں کی نہ تو ہمت ہاری اور نہ ہی عوام اس سے بددل ہوئے۔
اس نے نواز لیگ کو مکمل طور پر بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کو بھی شدید نقصان پہنچایا ۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا گراف نیچے آنے پر نون لیگ کی مقبولیت خود بخود بڑھ جاتی تھی جبکہ عوام جب نواز لیگ سے اکتاتی تو پیپلز پارٹی آگے آجاتی مگر اس بارایسا کچھ نہیں ہوا ۔ جہاں حکومت بے نقاب ہوئی وہیں پیپلز پارٹی کے بہت سے اہم لوگوں نے زرداری صاحب کو الوداع کہہ دیا ۔ اب صورتحال سب کے سامنے ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ نے شریف خاندان کے بارے میں عمران خان کے تمام شکوک اور الزامات کی تائید کردی ہے ۔ اب سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے مگر حکمران خاندان کے تضادات اور قلا بازیوں نے عوام کے سامنے انکی ساکھ کو بری طرح مجروح کردیا ہے ۔ دوسری جانب عمران خان نے اپنی انتھک اور طویل جدوجہد کے ذریعے کرپشن ، اقرباء پروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو عوام کی نظروں میں جرم ثابت کردیا ہے ۔ اس سے پہلے کبھی بھی یہ باتیں عوام کے لیے اس قدر قابلِ نفرت نہ تھیں ۔ عمران خان بظاہر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ شاید وہ 2018 میں بھی وزیراعظم نہ بن سکیں مگر عوام کو اتنا شعور ضرور دے چکے ہیں کہ وہ پرانے سیاسی خاندانوں کی نئی نسل کے غلام بننے کے لیے اتنی آسانی سے آمادہ نہیں ہونگے ۔

Facebook Comments

ظہیر تریڑ
میانوالی کا رہائشی دبئی میں رہائش پذیر اردو کا طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply