اس وقت فیس بک کے چنڈو خانے میں دو لکھنے والے ہدف ملامت پر ہیں۔ ۔ بد قسمتی سے ایک شو بز کی دنیا کے باسی ہیں اور دوسرے پیشے سے معلم ہیں اور شوق سے کہانی کار۔ ایسا تماشا← مزید پڑھیے
ثقافت کا غلغلہ تو بہت ہے لیکن بیشتر دانشور اس میں رقص وموسیقی اور لباس خوراک تک محدود رہتے ہیں۔ گھر کی تعمیر کو فیشن میں شمار کرتے ہیں اور نتائج بھگت کر روتے ہیں۔ ایسا ہندوستان پر ہونے والے← مزید پڑھیے
بیوی نے ناشتے کے خالی برتن سمیٹ کر ٹرے میں رکھے”آپ نے جواب نہیں دیا میری بات کا” میں نے بے خیالی میں اس کی طرف دیکھا”کون سی بات۔۔” “میں نے کہا تھا کہ لائٹ لگانی ہے لان میں۔۔جیسی مسز← مزید پڑھیے
ایڈورڈز کالج میں بزم ادب کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ میں نے اسے فعال کیا۔ غالب کی برسی آئی تو میں نے ایک نیا تجربہ کیا جس میں تفریح کا سامان بھی تھا۔۔۔ میں نے غالب اس کی← مزید پڑھیے
اچانک دست قدرت نے دوستی کے اس مربع کو تکون میں بدل دیا۔ ماجد ائیر فورس میں تھا اور رسالپورمیں اپنی تربیت کی تکمیل کر چکا تھا۔ دستور کےمطابق اس کی نسبت ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی خاندان کی ایک← مزید پڑھیے
میں سمجھتا ہوں زندگی کو سمجھنے کا سلیقہ اور شعور اسی دور کی عطا ہے جب میں ایڈورڈز کالج میں تھا۔ مجھے وہاں احساس ہوا کہ میں جو دیکھتا یا سنتا ہوں اس کا مطلب بھی سمجھ سکتا ہوں۔ وہ← مزید پڑھیے
گارڈن کالج کا طالب علم ہونا کسی بھی طالب علم کے لیے عمر بھر کا سرمایہ افتخار ہو سکتا ہے لیکن میری بد قسمتی کہ یہاں سے حصول علم کے سوا میں نے وہ سب کیا جوکالج کے ماحول میں← مزید پڑھیے
ان گلی کوچوں سے آگے ۔۔ ادھر میں نے میٹرک پاس کیا ادھر بابوجی کو جیسے خواب آرزو کی تعبیر مل گئی۔ ان کو ملٹری ہسپتال سے ،ملحق سڑک پر دوکمروں کا کوارٹر مل گیا، یہ تنگ سی سڑک سیدھی← مزید پڑھیے
پنڈی کہ ایک شہر تھا۔۔۔۔ اپنے میر صاحب جب دہلی سے لکھنو پہنچے تو کسی مشاعرے میں ان کی فقیرانہ وضع کا تمسخر اڑانے والوں نے سوال کیاکہ میاں کہاں کے ہو۔۔ باری آنے پر انہوں نے جو قطعہ پڑھا← مزید پڑھیے
حصہ چہارم نہ پھول تھے نہ چمن تھا نہ آشیانہ تھا چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا 15 اگست سے قبل ہی نگاہوں میں اجنبیت آگئی تھی۔ زندگی امتحان لیتی ہے تو اخلاقی اورانسانی قدریں اور مذہبی رواداری ہمسائیگی← مزید پڑھیے
15 اگست سے قبل ہی نگاہوں میں اجنبیت آ گئی تھی ۔ زندگی امتحان لیتی ہے تو اخلاقی اورانسانی قدریں اور مذہبی رواداری ہمسائیگی اور شناسائی کےدعوے ۔۔یہ سہارے یہ سوت کے دھاگے ۔۔۔ ایک جھٹکے سے ٹوٹ جاتے ہیں(جانثار← مزید پڑھیے
خود نوشت” میں کون ہوں اے ہم نفسو۔۔۔”کا دوسرا باب پدرم سلطان بود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمدخان خالص یوسف زی پٹھان تھے جو افغانستان سے آئے تھے اوربستی انہی کے نام پر محمد پور ہوئی ،ان کی تعمیر کردہ سرمی پتھروں کی← مزید پڑھیے
جناب”احمد اقبال” صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ،مکالمہ آج سے ان کی زیرِ طبع سرگزشت کی ہفتہ وار اشاعت کا سلسلہ شروع کر رہا ہے۔قارئین کی دلچسپی کے لیئے احمد اقبا ل صاحب کا مختصر تعارف پیش← مزید پڑھیے