میخائل گوربا چوف

میخائل گورباچوف (پیدائش1931ء)

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ چالیس برسوں میں سب سے اہم سیاسی وقوعہ سوویت یونین کی تقسیم اور اشتمالیت پسندی کازوال ہے کہ یہ تحریک جس نے تمام دنیا کو باہم یکجا کردینے کاکھٹکا پیدا کررکھا ہے۔حیران کن سریع الرفتاری سے آمادہ بہ زوال ہوئی۔اور اب وہ تاریخ کی کاٹھ کباڑ کی ٹوکری کاحصہ معلوم ہوتی ہے۔ایک شخص ایسا ہے کہ جس نے اس زوال اور انحطاط کے حیرت انگیز عمل میں بنیادی رول ادا کیا ہے‘وہ میخائل گوربا چوف ہے۔جو1985ء سے1991ء کے دوران چھ برس سوویت یونین کاسربراہ رہا۔
گورباچوف جنوبی روس کے دیہات پری وولنو“میں1931ء میں پیدا ہوا۔اس کابچپن تاریخ کے خونخوار آمروں میں سے ایک جوزف سٹالن کی آمریت کے سفاکانہ دور میں گزرا۔میخائل کااپنا دادا ”اینڈری“ نوسال تک سٹالن کے عقوبت خانوں میں قید رہا اور1941ء میں رہا ہواجب جرمنی کوروس پر حملہ آور ہوئے چندماہ ہوئے تھے۔میخائل خود اتنانوعمر کہ جنگ عظیم دوئم میں شریک نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کاباپ فوج میں شامل ہو گیا ۔اس کابڑا بھائی اسی جنگ میں کھیت رہاجبکہ”پریوولنو“ کاقصبہ قریب آٹھ ماہ جرمنوں کے قبضہ میں رہا۔
تاہم یہ واقعات گورچوف کے آگے بڑھنے میں حائل نہ ہوسکے۔ اس نے سکول میں عمدہ درجے میں امتحان پاس کیا۔وہ پندرہ برس کاتھا جب وہ نوجوان اشتمالیت پسندوں کی جماعت کومسومول“میں داخل ہوا۔چار سال تک وہ ایک مشترکہ”پارویسٹر“مشین کوچلاتارہا۔1950ء میں وہ ماسکوسٹیٹ یونیورسٹی میں داخل ہوا‘جہاں قانون کامطالعہ کیا۔1955ء میں اس نے گریجوایشن کی۔وہیں 1952ء میں وہ اشتراکی جماعت کارکن بن گیا تھا اور وہیں اس کی ملاقات اپنی مستقبل کی بیوی رئیسہ میکسی مووناٹیٹورینکو سے ہوئی۔گریجوایشن کرنے سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے شادی کرلی‘ان کے ایک لڑکی ”آرینا“ ہوئی۔
قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد گورباچوف سٹاوروپول واپس آیا اور جماعت کی انتظامیہ میں ترقی حاصل کرتا آگے بڑھنے لگا۔1970ء میں وہ علاقائی جماعت کااولین سیکرٹری بن گیا۔اگلے برس وہ ”اشتراکی جماعت“ کی مرکزی کمیٹی کارکن مقرر ہوا۔1978ء میں اس کوبڑی کامیابی ملی۔وہ وفاقی کمیٹی کاسیکرٹری بننے ماسکوگیا‘جہاں زراعت کاشعبہ اس کے زیر انتظام تھا۔1979ء میں وہ ”پولٹبورو“ کا(جوحقیقتاََ سوویت یونین کی حکمران انتظامیہ تھی) امیدوار رکن بن گیا۔1980ء میں مکمل رکن کے طور پر اس کاتقرر ہوا۔
یہ تمام کامیابیاں اسے1964ء سے1982ء کے درمیانی عرصہ میں حاصل ہوئیں جب لیونڈبرزنیف سوویت یونین کاسربراہ تھا۔برزنیف کی موت کے بعد مختصر عرصہ کے لیے اینڈروپوف (84۔1982ء) سربراہ رہا‘اور پھر چرننکو(85۔1984ء) برسراقتدار آیا۔انہی برسوں میں گورباچوف پولٹبیورو کے ممتاز رکن کی حیثیت سے ابھرا۔11مارچ1985ء کوچرننکو کاانتقال ہوا۔اگلے دن اس کی جانشینی کے لیے گورباچوف کانام بطور جنرل سیکرٹری نامزد ہوا(پولٹبیورونے خفیہ طور پر اس کے حق میں رائے شماری کی۔تاہم ایک افواہ یہ ہے کہ گورباچوف کووکٹرگریشن سے بس معمول سے زائد نمائندگی حاصل تھی۔جو ایک خاموش قدامت پرست رکن تھا۔اگردویاتین افراد اسے ووٹ دیتے تو تاریخ کس قدر مختلف ہوتی)۔
بیشتر سوویت رہنماؤں کے برعکس گورباچوف نے جماعت کارکن بننے سے قبل غیر ملکی سفر کیے تھے۔فرانس(1966ء) اٹلی(1967ء)کینیڈا(1983ء) انگلستان(1984ء) سو جب وہ منتخب ہوا تو متعدد مغربی رہنماؤں کوامید تھی کہ گورباچوف اپنے پیش روؤں کے برعکس ایک جدید اور آزاد خیال سربراہ ہوگا۔واقعی ایسا ہوا‘لیکن کسی کو ان اصلاحات کی تعداد اور رفتار اطلاق کااندازہ نہیں تھا جو بعدازاں ظاہر ہوئی۔گورباچوف کے منتخب ہونے کے بعد سوویت یونین کو متعدد مشکلات کاسامنا ہوا۔یہ سب مشکلات اس مالی درماندگی کے باعث پیدا ہوئی تھیں جس کاسبب اسلحہ سازی پر حکومت کے بے بہا اخراجات تھے۔سواسلحہ سازی کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے اس نے امریکی صدر رونالڈ ریگن کی اعلیٰ سطحی اجلاس کی تجویز قبول کی۔چار مختلف مقامات پر دونوں صدر باہم ملے۔جنیوا(1985ء) ریک جاوک (1986ء) واشنگٹن(1987ء) اور ماسکو(1988)۔ان ملاقاتوں کاانتہائی ڈرامائی نتیجہ اسلحہ سازی پر بندش عائد کرنے کامعاہدہ تھا جو دسمبر 1987ء کو طے ہوا۔یہ پہلا معاہدہ تھا جس نے حقیقتاََ نیو کلیائی ہتھیاروں کی تعداد میں تخفیف کی جویہ بڑی طاقتیں تیار کرچکی تھی۔دراصل درمیانی فاصلہ پر مار کرنے والے تمام میزائل بہ یک قلم جنبش ختم کردئیے گئے۔
دوسرا اقدام جس نے بین الاقوامی تناؤ میں کمی کی‘گورباچوف کاافغانستان سے روسی فوجوں کوواپس بلانے کافیصلہ تھا۔سوویت فوج1979ء میں اس ملک میں داخل ہوئی تھی‘جب برزنیف صدر تھااور تب ابتدا میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔لیکن بعدازاں جب ریگن نے افغان گوریلافوج کوزمین سے ہوا میں مار کرنے والے”سٹنگر“ میزائل مہیا کرنے کافیصلہ کیا(جس سے سوویت فضائی فوج کی کمر ٹوٹ گئی) تو حالات نے رخ بدلا‘اور سوویت یونین ایک غیر فیصلہ کن اور طویل جنگ کے چکر میں پھنس گیا۔بیرونی دنیا نے افغانستان پر روسی فوجوں کی شدید مخالفت کی‘جبکہ خود ملک میں بھی اس فیصلہ کوپسندیدگی کی نگاہ سے نہ دیکھا جاتا تھا۔لیکن برزنیف‘اینڈروپوف اور چرننکو(اول گورباچوف بھی ) اسے طول دینے پر آمادہ رہے‘مبادا انہیں کسی شرمندگی کاسامنا کرنا پڑے۔آخر گورباچوف نے اپنے نقصانات کاسلسلہ منقطع کرنے کافیصلہ کیا۔1988ء کے اوائل میں اس نے سوویت فوجوں کے انخلاء سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کیے(انخلاء کاعمل طے شدہ تاریخ فروری1989ء میں مکمل ہوا۔
خارجہ پالیسی کی یہ تبدیلیاں ڈرامائی تھیں‘تاہم گورباچوف کی اصلاحی کاوشوں کارخ داخلی معاملات کی طرف تھا۔ آغاز ہی سے اس نے دیکھ لیا تھا کہ سوویت معیشت کے مصائب کے سدباب کے لیے”پرسسٹرائیکا“(تشکیل نو) کے منصوبے کی ضرورت ہے۔اس تشکیل نوکے منصوبے کاایک پہلو تو یہ تھا کہ گورباچوف کی قیادت میں ’اشتراکی جماعت‘(جوپہلے حکومت کے تمام انتظام کواپنی گرفت میں رکھنے کی مجاز تھی) کی طاقت میں غیرمعمولی کمی واقعی ہوئی۔ معاشی پر تشکیل نویوں ہوئی کہ چند شعبوں میں نجی کاروبار کی اجازت کے لیے قانون سازی ہوئی۔
یہ امراہم ہے کہ گورباچوف کاہمیشہ اصرارہا کہ وہ مارکس اور لینن کاایک مخلص مقلد ہے اور اشتراکیت پسندی“پر مکمل ایمان رکھتا ہے۔ایک جگہ اس نے وضاحت کی کہ اس کامقصد محض اشتراکی نظام کی اصلاح ہے تاکہ یہ فعال ہوسکے۔
غالباً ان اصلاحات میں سب سے انقلابی اصلاح”گلاسناٹ یا آزاد معیشت“کی پالیسی تھی جسے گورباچوف نے1986ء میں وضع کیا۔گلاسناٹ کاایک پہلو تو یہ تھا کہ حکومت اپنی سرگرمیوں اور عوامی مفاد سے متعلق واقعات میں زیادہ آزادروی اور صاف گوئی کامظاہرہ کرے۔دوسرا پہلویہ تھا کہ حکومت لوگوں اور رسائل وجرائد کوسیاسی امور پر بحث کرنے کی اجازت دے۔یعنی ان افکار کی اشاعت کی اجازت دی گئی‘جن کے اظہار پر چند سال قبل لوگوں کوقید ہوجاتی تھی (بلکہ سٹالن کے دور میں توسزائے موت تک دی گئی)۔گلاسناٹ کے ذریعے اب یہ آزادی عام ہوئی۔سوویت رسائل وجرائد اب آزادی کے ساتھ حکومتی پالیسیوں‘اشتراکی جماعت ‘اعلیٰ سرکاری افسران حتیٰ کہ خود گورباچوف کوہدف تنقید بناسکتے تھے۔
سوویت یونین کوجمہوریت کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک(ہم قدم1989ء میں اٹھایا گیا جب نئی”سوویت پارلیمنٹ“ عوامی نمائندگان کی مجلس کے لیے عام انتخاب کاانعقاد کیا گیا ۔یہ بے شک مغربی انداز کے آزاد انتخابات نہیں تھے کیونکہ ان امیدواروں میں نوے فیصد حزب اقتدار جماعت کے اراکین تھے‘ نہ ہی کسی دوسری سیاسی جماعت کو اس میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔پھر انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوئے۔اس میں امیدواروں کے متعلق انتخاب کی گنجائش رکھی گئی۔رائے شماری میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔1917ء میں اشتراکیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ آزاد انتخابات کی طرف پہلا واضح قدم تھا۔
ان انتخابات کی نتائج غیر متوقع تھے۔بہت سے آزمودہ کار رہنما جوبلا مقابلہ ہی منتخب ہوتے رہے مات کھا گئے اور متعدد کم اکثریت والے اراکین ان انتخابات میں ہار گئے۔سوویت یونین میں ان موثر اصلاحات کے نفاد کے باوجود کوئی ان انقلابی تبدیلیوں کا قبل ازوقت اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔جومشرقی یورپ میں1980ء۔1990ء کے درمیان وقوع پذیر ہوئیں۔جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر یہ تمام علاقہ روسی فوجوں کے تسلط میں تھا۔1940ء کی دہائی میں اشتراکی علاقے خاص طور پر جوسوویت یونین کے زیر تحت تھے‘ قریب چھ ممالک میں قائم ہوچکے تھے۔جیسے بلغاریہ‘رومانیہ‘پولینڈ‘ہنگری‘چیکوسلواکیہ اور مشرقی جرمنی۔علاقے عمومی طور پر غیر معروف تھے۔لیکن ان کے رہنما فوج اور خفیہ پولیس کی سرکردگی میں چالیس برس وہاں حکمران رہے۔حتیٰ کہ جب معروف بغاوت کے نتیجے میں کوئی اشتراکی آمر تخت سے ہٹا دیا جاتا جیسا1956ء میں ہنگری میں ہوا توروسی فوجیں فوراً وہاں پھرسے اشتراکی حکومت قائم کردیتی تھیں۔جون1989ء میں پولینڈ میں ہونے والے انتخابات سے صاف ظاہر ہوگیا تھا کہ اس علاقے میں اشتراکی حکومت کوعوام کی کتنی کم حمایت حاصل تھی۔تاہم ستمبر1989ء تک ایسا معلوم ہونے لگا تھا کہ مشرقی یورپ پر اشتراکی یعنی روسی اقتدار کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں۔اس سال کے آخر تک تمام نظام تاش کے پتوں کے بنے گھر کی طرح تیز طوفان میں تتربتر ہوگیا۔
مسائل کاآغاز مشرقی جرمنی میں ہوا۔1961ء میں بدنام زمانہ دیوار برلن کی تعمیر کے بعد سے مشرقی جرمنی کے متعددا فراد مغربی جرمنی فرازہونے کی کاوشیں کرچکے تھے۔جبکہ کئی ایک آزادی کی خواہش میں اسے پھلانگتے ہوئے مارے جاچکے تھے۔سالہاسال تک یہ دیوار اس حقیقت کی علامت کے طور پر ایستادہ رہی کہ مشرقی جرمنی اور تمام اشتراکی حکومتیں عقوبت خانوں سے بڑھ کرکچھ نہیں ہیں۔ مشرقی جرمنی کاکوئی باشندہ کسی بھی راستے سے مغرب میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔کیونکہ حکومت نے تمام سرحدوں کوکانٹے دار تاروں کے جنگوں ‘الارموں فوجی گشتی دستوں اور خندقوں سے ڈھانپ رکھا تھا تاکہ کوئی وہاں سے فرارنہ ہوسکے۔تاہم1988ء اور1989ء میں مشرقی جرمنی کے متعدد افراد ایک دوسرے راستے سے فرارہونے میں کامیاب ہوئے۔یعنی پہلے وہ کسی دوسرے مشرقی یورپ کے ملک میں داخل ہوتے(اس کی قانوناً اجازت تھی) وہاں سے پھر وہ مغرب میں فرار حاصل کرتے۔
اکتوبر1989ء میں ایرک ہونکرنے‘جوایک کٹراشتراکیت پسند رہنما تھا اور کئی سالوں سے مشرقی جرمنی پر حکمران تھا‘فرارنے اس دوسرے راستے پر قدغن لگانے کی کوشش کی۔چند روز بعد مشرقی برلن میں ایک بڑا احتجاجی جلوس نکالاگیا۔جوہونکر کے خلاف احتجاج کررہاتھا۔ حالات میں گورباچوف نے برلن کادورہ کیا اور ہونکر کومشورہ دیاکہ وہ ان اصلاحات کے نفاد میں تاخیرنہ کرے اور یہ کہ اس احتجاج کوبزوردبادے اور اس پرواضح کیا کہ سوویت یونین کے فوجی دستے(جوتب مشرقی جرمنی میں 380.000کی تعداد میں موجود تھے) مشرقی جرمنی کی عوام کے خلاف استعمال نہیں کیے جائیں گے۔
گورباچوف کے اس کے بیان میں آئندہ مشرقی جرمنی کی پولیس اور فوج کی طرف سے ہونے والے خونی اقدامات کی پیشین گوئی موجود تھی۔ان اقدامات نے مظاہرین کا حوصلہ بڑھایا۔چنددنوں کے اندر مشرقی جرمنی کے مختلف شہروں میں بڑے احتجاج عوامی مظاہروں کاسلسلہ شروع ہوا۔دو ہفتوں کے اندر ہونکر کومجبوراً استعفیٰ دینا پڑا‘اس کا جانشین ایگن کرنز بھی ایک اشتراکیت پسند تھا‘سرحدوں پر بند شیں قائم رہیں اور مظاہروں کاسلسلہ جاری رہا۔آخر9نومبر کوکرنزنے اعلان کیا کہ دیوار برلن کومسمار کردیا جائے گا اور مشرقی جرمنی کے باشندے مغربی جرمنی میں آزادی سے داخل ہوسکیں گے۔
چندا علانات اس جشن کاسبب بنے اور اسی طور چند اعلانات نے سریع الرفتار اور گہرے نتائج پید کیے۔چنددنوں کے اندر لاکھوں جرمنو ں نے سرحدپار کی تاکہ مغربی جرمنی میں زندگی کی موجودہ صورت کودیکھ سکیں۔جوکچھ انہوں نے دیکھا وہ انہیں یہ سمجھانے کے لیے کافی تھاکہ چوالیس سالہ اشتراکی دور حکومت نے ان کی آزادی اور خوشحالی کوپامال کیا ہے۔
دیوار برلن کی مسماری نے ایک فلسفی کے اس مقولے کی غیر معمولی صداقت کو ثابت کیاکہ حقائق بجائے خود اس قدروقیع نہیں ہوتے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ لوگ انہیں کس طرح دیکھتے ہیں۔کرنز کے اعلان کے چند دنوں بعد تک دیوار برلن بدستور قائم رہی اور یہ خدشہ موجودرہا کہ حکومت کسی وقت بھی سرحدوں کوپھر سے بند کرسکتی ہے۔جبکہ لوگوں نے ایسا سمجھا کہ شاید سرحدیں ہمیشہ کے لیے کھل چکی ہیں۔چونکہ سبھی ایسا سمجھ رہے تھے سویوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے واقعی دیوار کومسمار کردیا گیا ہے۔
تمام مشرقی یورپ میں دیوار برلن کی مسماری کے لیے ویسا ہی ردعمل ظاہر کیا جیسا دوسوسال پہلے فرانسیسی باشندوں نے”ہیسٹایل“ کی پامالی پر پیش کیا تھا۔یکے بعد دیگرے مختلف ممالک میں لوگ اپنے آقاؤں کے خلاف سراپا احتجاج بن کراٹھ کھڑے ہوئے اور اشتراکی حکومتوں کوجوطویل مدت سے ان پر مسلط تھیں‘پرے ہٹا دیا۔
بلغاریہ میں ”توڈرزیوکوف“ پینتیس سالوں سے نہایت آہنی گرفت کے ساتھ حکمرانی کررہا تھا۔ 10نومبر1989ء کو وہ استعفیٰ دینے مجبور ہوگیا۔ایک ہفتہ بعد پراگ میں بڑا عوامی مظاہرہ ہوا۔یہ چیکو سلواکیہ کادارالحکومت تھا۔10ستمبر تک یہ گسٹاف ہسک کے استعفیٰ پر منتج ہوا اور اشتراکی جماعت کاقتدار ختم ہوگیا۔ہسک کی جگہ جیکلاف ہیول برسراقتدار آیاجواہم باغیوں میں سے تھا اور اسی برس کے ابتدائی چند ماہ اس نے سیاسی قیدی کی حیثیت سے جیل میں گزارے تھے۔
ہنگری میں حالات نے کہیں زیادہ تیزی سے پلٹا کھایا۔وہاں حکومت نے اکتوبر1989ء میں مخالف سیاسی جماعتوں کی قانونی حیثیت کوتسلیم کرلیا۔26نومبر کو آزاد انتخابات منعقدہوئے۔نئی سیاسی جماعتوں نے اشتراکی جماعت کوفیصلہ کن شکست دی اور یہ اقتدار کسی خونریزی کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔
پولینڈ میں حالات کی تبدیلی کی رفتار اس سے بھی زیادہ تھی۔اسی سال کے اوآخر میں اشتراکیوں کی مخالف فاتح جماعت نے اشتراکیت کے مکمل انخلاء کافیصلہ کیا اورا یک جنوری1990ء میں ملک میں بھی کھلی منڈی کی معیشت رائج کردی۔
مشرقی جرمنی میں ایگن کرنز کوشاید امیدتھی کہ سرحدیں کھول دینے سے مخالفت کا غبار کچھ چھٹ جائے اور احتجاج ختم ہوجائے۔تاہم ایسا کچھ نہ ہوا‘احتجاج جاری رہا۔3دسمبر1989ء میں کرنز نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔چاردن بعد حکومت نے آزاد انتخابات کے انعقاد کااعلان کیا‘(جس میں متوقع طور پر اشتراکیوں کوشکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی)۔
آخری میدان رومانیہ کاتھا جہاں سخت گیر آمر”نکولائی چاؤ سیسکو“ تخت اقتدار سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں تھا۔جب15دسمبر کو”ٹیمی سورا“میں اس کے خلاف عوامی احتجاجی مظاہرے ہوئے‘ تو اسکی فوج نے ہجوم پر گولی چلادی۔لیکن مشتعل عوام کو اس طور دبایا نہیں جاسکتا تھا۔مظاہروں کاسلسلہ جلد ہی دوسرے شہروں میں بھی پھیل گیا۔25دسمبرکو چاؤ سیسکو کوگرفتار کرکے قتل کردیا گیا۔یہ مشرقی یورپ کا آخری ملک تھا جو آزاد ہوا۔
ان یاد گار واقعات کے نتائج یوں ظاہر ہوئے۔
(1) چیکوسلواکیہ اور ہنگری سے سوویت فوجوں کاانخلاء عمل میں آیا۔
(2) نئی آزاد ریاستوں میں آزاد انتخابات کاانعقاد ہو جس میں عمومی طور پر اشتراکیوں کوبری طرح مات ہوئی۔
(3) ان متعدد ممالک میں جو سوویت یونین سے ملحق تھے‘مارکسزم کی مکمل تنسیخ واقع ہوئی(جیسے منگولیا اور رایتھوپیا)
(4) جرمنی کے مشرقی ومغربی حصوں میں الحاق اکتوبر 1990ء میں مکمل ہوا۔
ان تمام تبدیلیوں سے کہیں زیادہ اہم سوویت یونین تیزی سے نموپانے والی قومیت پرستی کی تحاریک تھیں۔اپنے نام کے باوجود سوویت یونین ایک رضاکارانہ اتحاد ہرگز نہیں تھا ’بلکہ یہ ”زاروں“ (CZARS) کی حکومت میں قدیم روسی سلطنت ہی کی ایک توسیع تھی‘جسے ان شہنشاہوں نے جنگ کے ذریعے حاصل کیا تھا۔(زاروں کی سلطنت کو مغربی اقوام“اقوام کی عقوبت گاہ“ پکارتی تھیں)۔ان مقبوضہ اقوام میں سے اکثر آزادی کی خواہش مندتھیں‘جس طر قدیم برطانوی‘فرانسیسی اور ڈچ سلطنتوں کے باشندے آزادی کی تمنا رکھتے تھے۔سٹالن کے آہنی دور اقتدار یا اس کے جانشینوں کے قدرے کم سفاک ادوار میں ایسی خواہش کابرملا اظہار ممکن نہیں تھا۔لیکن گورباچوف کی گلاسناٹ پالیسی کے تحت قومیت پرستی کے روپے کو فروغ ملا اور زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ایسی تحریکیں سراٹھانے لگیں۔ایسٹونیا‘ لیونا مولددیویا اور متعدد دیگر سوویت ریاستوں میں عدم اطمینانی کی لہر پیدا ہوئی۔لیتھونیا کی چھوٹی ریاست میں پہلی صدائے احتجاج بلند ہوئی۔11مارچ1990ء میں ہونے والے عمومی انتخابات میں بنیادی مسئلہ یہی تھا کہ آئندہ اقتدار کی نوعیت کیاہوگی۔لیتھونیا کی پارلیمنٹ نے واضح الفاظ میں سوویت یونین سے اپنی مکمل علیحدگی کا مطالبہ کردیا۔
اصولی طور پر الیتھونیا کامطالبہ جائز تھا۔سالہا سال تک سوویت آئین میں یہ شق موجود رہی کہ ہر ریاست علیحدگی اختیار کرنے کاحق رکھتی ہے۔تاہم گورباچوف سے پہلے یہ بات طے شدہ تھی کہ اس حق کواستعمال کرنے کی ہر کاوش کودبا دیا جائے۔جبکہ غداروں کے لیے سخت سزائیں موجود تھیں۔گورباچوف کاجواب دلچسپ تھا۔اس نے لیتھونیا کے مطالبہ کوفوراََ غیر قانونی قرار دیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ مطالبہ واپس نہ لیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمدہوں گے۔اس کی تجارتی بندرگاہوں کوبند کردیا گیا اور طاقت کے مظاہرے کے طور پر لیتھونیا کے دارالحکومت میں فوجی دستے داخل کردیے گئے۔لیکن اس نے فوجی قوت سے صوبے کو کوئی نقصان نہ پہنچایا‘نہ کسی کوقتل کروایا سیاسی رہنماؤں کوگرفتار کیا۔ (جیسا کہ سٹائن لازماً کرتا)۔
لیتھونیا ایک مختصر ملک ہے اور نہ ہی سوویت یونین کے لیے معاشی یاعسکری اعتبار سے کوئی اہمیت بنتی ہے۔اہم لیتھونیا کی اس جرات نے مثال قائم کی۔جب اس مطالبے پر لیتھونیا کے خلاف کوئی سنگین اقدامات نہ کیے گئے تو دیگر سوویت ریاستوں میں قومیت پرست عناصر کوامید کرن دکھائی دی۔دومہینوں کے اندر لٹویا کی پارلیمنٹ نے بھی سوویت یونین سے علیحدگی کے مطالبہ کی منظوری دے دی۔12جون 1990ء میں روسیSSR“ سوویت سوشلسٹ ری پبلک‘(سوویت یونین کی سب سے بڑی ریاست) نے خود مختاری کااعلان کردیا۔سال کے اختتام تک تمام پندرہ سوویت ریاستوں نے آزادی یا خود مختاری کے مطالبے پیش کردیے۔
قدرتی طور پر یہ بے بہاتبدیلیاں گورباچوف کے اقدامات کانتیجہ تھیں جبکہ اشتراکی جماعت اور سوویت فوج کے متعدد قدامت پرست رہنماؤں کی نظر میں یہ گورباچوف کی فاش غلطیوں کاثمر تھا۔ اگست1991ء میں ان میں سے چند ایک رہنماؤں نے حکومت کے خلاف بغاوت کی۔گورباچوف کوگرفتار کرلیا گیا۔اور یوں معلوم ہوا کہ نئے حکمران اس کی اصلاحات میں ترامیم کریں گے۔تاہم سوویت یونین کے دیگر اہم رہنما‘جن میں بورس یلسن کانام قابل ذکرہے‘ اور جو بعدازاں سوویت یونین کاسربراہ بھی بنا‘اس بغاوت کے خلاف تھے۔یہی رائے عوام کی اکثریت کی تھی۔بغاوت تھوڑے ہی عرصہ میں ختم کردی گئی۔
بغاوت کی ناکامی کے بعد حالات میں غیر معمولی سرعت سے تبدیلیاں پیداہوئیں۔اشتراکی جماعت کوفوری طور پر اقتدار سے محروم کردیا گیا۔اس کی سرگرمیوں پر ممانعت قائم کی گئی۔اس کی املاک ضبط کرلی گئیں۔مزید برآں سال کے آخرتک سوویت یونین کی تمام ریاستوں کوعلیحدگی کااختیار دے دی گیا۔رسمی طور پر”سوویت یونین“منہدم ہو گئی۔ ان رہنماؤں کو جو اس اشتراکی نظام کو سرے سے ختم ہی کردینا چاہتے تھے۔دسمبر1991ء میں گورباچوف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔اس صورت حال سے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔اپنے دور اقتدار میں پیدا ہونے والی تمام تبدیلیوں کے لیے گورباچوف کس حد تک ذمہ دار ہے؟
اس کی زیر قیادت سوویت یونین میں متعدد معاشی اصلاحات نافذہوئیں۔تاہم یوں معلوم ہوتاہے۔اس تمام عمل میں اس کاحصہ مختصر ہے۔عمومی طور پر یہ اصلاحات اس نے اشتراکی نظام کی واضح ناکامی کے باعث مجبوراً وضع کیں جبکہ جو اصلاحات اس نے کیں‘وہ مختصر بھی تھیں اور بعد ازوقت تھیں۔ دراصل سوویت یونین کی معیشت کی کمزور کارگزاری ہی گورباچوف کے ناگزیر زوال کاسبب بنی۔
دوسری طرف مشرقی یورپ کی آزادی میں گورباچوف کاکردار واقعتا ً قابل تحسین ہے۔چھ ممالک سوویت تسلط سے آزاد ہوئے۔جبکہ یہ تبدیلی اس سے برعکس ممکن نہیں تھی۔نہ ہی ان تمام وقوعات میں گورباچوف کے اثرات پر شک کیا جاسکتا ہے۔مشرقی یورپ میں پیدا ہونے والی اصلاحی تحاریک روس میں آزاد خیالی کے فروغ اور اس کے ایسے موافق بیانات کانتیجہ تھیں کہ وہ مشرقی یورپی ممالک کو اپنی تقدیر کاخود فیصلہ کرنے کا حق دینا چاہتاہے۔مزید یہ کہ اکتوبر1989ء میں جب مشرقی جرمنی میں بڑا عوامی مظاہرہ ہوا توگورباچوف نے ذاتی طور پر اس میں دلچسپی لی۔ایسے ہی حالات میں سابقہ روسی سربراہان عموماََ فوجی دستوں کی مددلیتے اور بغاوت کردبانے کے لیے ہر ممکنہ سفاکانہ حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔تاہم اکتوبر1989ء میں گورباچوف نے ”ہونکر“کو سمجھایا کہ وہ عوامی احتجاج کربزور دبانے کی کوشش نہ کرے۔اس فیصلہ کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔لیتھونیا کی بغاوت کو دبانے کے لیے اس کے فوجی قوت کے استعمال سے احتراز کے فیصلہ نے دیگر سوویت ریاستوں میں اس عمل کوتیز کرنے میں بنیادی کردار اد اکیا۔
اسلحہ سازی پر بندش لگانے اور سردجنگ کے خاتمے کے لیے گورباچوف کی مساعی سے انکار ممکن نہیں ہے۔بیشتر ناقدین کاخیال ہے کہ اس کامیابی کاسہرا رونالڈ ریگن کے سرہی بندھتا ہے۔کیونکہ اس نے یہ ثابت کرکے کہ سوویت یونین کے مقابلے میں امریکی مالی طورپر صاحب حیثیت ہے اور اسلحہ سازی کی جنگ کے اخراجات کازیادہ متحمل ہوسکتا ہے۔ اس نے سوویت رہنماؤں کوسرد جنگ ختم کرنے پر آمادہ کیا۔ا ن ناقدین کایہ موقف بھی ہے کہ کسی معاہدے کوممکن بنانے کی خاطر دور فریقوں کی ضرورت ہے۔سو اسلحہ سازی پر پابندی عائد کرنے کامعاہدہ طے پانے میں ریگن اور گورباچوف دونوں کی مخلصانہ مساعی کابرابر دخل ہے۔
ایسا نقطہ نظر اس صورت میں ضرور درست ہوتا اگر سرد جنگ واقعتاً امریکی اور سوویت یونین کی ہٹ دھرمی کانتیجہ ہوتی۔اصل معاملہ اس سے مختلف ہے۔سردجنگ کا آغاز سٹالن اور اس کے جانشینوں کی عسکری قوت کے پھیلاؤ کی حکمت عملی کے باعث ہوا۔جبکہ امریکی ردعمل ایک دفاعی ردعمل تھا۔جب تک سوویت رہنماؤں کے سرمیں یہ سودا سمایا رہا کہ اشتراکیت پسندی کودنیا بھر پر مسلط کردیا جائے۔ مغرب اس تنازعہ کو ختم کرنے میں بے بس تھا۔جب سوویت رہنمانے اس کشمکش بے جاکو تمام کرنے کی نیت ظاہر کی تو یہ بظاہرانتہائی سردجنگ فوراََ ختم ہوگئی۔
سوویت یونین میں ہونے والی تبدیلیوں کاسہرا بہر طور گورباچوف کے سرہی بندھتا ہے۔اشتراکی جماعت کے اختیارات میں تخفیف‘”گلاسناٹ“ کی ترویج“ آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کے سلسلہ میں عظیم پیش رفت ملک میں جمہوریت کے لیے حالات کی موافقت یہ تمام عوامل گورباچوف کے بغیر اس طور پر ممکن الوقوع نہیں تھے۔گلاسناٹ “کوئی ایسی حکمت عملی نہیں تھی جو اس نے عوامی دباؤ کے تحت اختیار کی۔نہ ہی یہ کوئی ایسی پالیسی تھی جس پر ”پولٹ بورو“ کے دیگر اراکین نے اصرارکیا ہو۔یہ گورباچوف کا اپنا نقطہ نظر تھا‘اسی نے اسے پیش کیااور شدید مخالفت کے باوجود اس کی حمایت جاری رکھی۔
کسی بھی دوسری شے کی نسبت یہ ”گلاسناٹ“ ہی تھا جس نے سوویت نظام حکومت کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔امرغیر معمولی اہمیت کاحامل ہے کہ یہ انقلابی تبدیلی کسی تشدد کے بغیر واقع ہوئی۔اس میں گورباچوف کی پالیسیوں اور رویے کابنیادی عمل دخل ہے۔یہ رائے دی جاتی ہے کہ گورباچوف کے اقدامات کے چند نتائج خود اس کے حسب منشاء نہیں تھے (جیسے جرمنی کااتحاد نو‘ سوویت یونین کاانہدام اور اشتراکیت پسندی کی ناکامی)۔ایسا ممکن ہے مگر اس سے اس کی وقعت میں کوئی کمی نہیں آئی۔کسی سیاسی قائد یاکسی بھی شخصیت کے اثرات کاتعین اس کی نیت سے نہیں بلکہ اس کے اقدامات کے نتیجے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
مارکسزم کی ناکامی میں اس کے دیگر مخالفین کی کاوشوں کابھی دخل ہے۔مثلاََ اشتراکیت پسندی سے مخرف ہونے والے آرتھر کونسلر اور ویٹیکر چیمبرز جنہوں نے مغرب کو اشتراکی نظام کی اصل نوعیت سے خبردار کیا یاسوویت یونین ہی کے باشندے جیسے آندرے سیخاروگ اور الیگزینڈرسولزے نٹزن جنہوں نے روس میں رہتے ہوئے اس کے خلاف بولنے کی جرات کی یاپھر افغانستان ‘انگولا اور نکارا گوا کے باغی جنہوں نے اشتراکی حکومتوں کو اپنے ملکوں میں غلبہ پانے سے مانع رکھا۔اور امریکہ کے سیاسی رہنما جیسے ہیری ٹرومین اور رونالڈ ریگن جنہوں نے اشتراکیت پسندی کے پھیلاؤ کوروکنے اور اسے مکمل تباہ کرنے کے لیے امریکی فوج ‘امریکی مالیاتی وسائل اور امریکی آزادی اور خوشحالی کی مثال کواستعمال کیا۔
ان تمام افراد کی کاوشوں کے باوجود‘1985ء میں گورباچوف کے عنان اقتدار سنبھالتے وقت کوئی یہ قیاس نہیں کرسکتا تھا کہ اشتراکی سلطنت کے دن گنے جاچکے تھے۔ہاں اگر1985ء میں لینن یاسٹالن جیسا کوئی سیاسی رہنما سربراہ کے طور پر منتخب ہوتا تو یہ جارحانہ حکومت ہنوز قائم ہوتی اور سردجنگ جاری رہتی۔لیکن1985ء میں سٹالن جیسے کسی رہنما کو نہیں بلکہ گورباچوف کوسوویت یونین کا سربراہ مقرر کیا گیا۔گو اس کی خواہش سوویت یونین کومنہدم اور اشتراکی جماعت کویک قلم مسترد کرنے کی کبھی نہیں تھی لیکن اس نے جوحکمت عملی اختیار کی اور ملک میں جن قوتوں کوپنپنے کاموقع دیا‘وہ ناگزیر طور پر اسی پر منتج ہوئیں۔ا س کی ذاتی نیت سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ اس نے ہماری دنیا کو یکسر تبدیل کردیا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply