ایک ریپ، ایک قتل۔۔ انعام رانا

مرشدی طفیل ہاشمی  کے سٹیٹس سے ایک پرانا قصہ یاد آ گیا۔ سن 2006 میں جب میں لاہور  میں پریکٹس کرتا تھا، ایک دوست ایک بچی اور اسکی ماں کو میرے دفتر لے آئے۔ انھوں نے کہا پولیس پرچہ نہیں کاٹ رہی اور پھر دبی زبان سے کہا کہ اس بچی کو اس کے باپ نے ریپ کیا ہے۔ میرے ہاتھ میں پکڑا سگریٹ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ میں نے فوراً  ان سے کہا کیا کہتے ہو۔۔ خیر بچی سے کافی سوال جواب کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ تیرہ چودہ سال کی بچی سچ بول رہی ہے۔ وحشی اور نشئی باپ نے بچی کو اکیلا پا کر گھر میں تب ریپ کر دیا جب ماں کسی کے گھر گئی ہوئی تھی۔ میں جب طبی معائنے کا آڈر لینے عدالت پہنچا تو مجسٹریٹ مجھے ریٹائرنگ روم میں لے گئے اور کہا تمھیں پتہ بھی ہے کیا کہہ  رہے ہو؟

میں نے کہا ،میں نے اطمینان کیا ہے، آپ خود بھی پوچھ لیں۔

تڑپ کر بولے نہیں نہیں ۔۔اور رو پڑے!

طبی معائنے میں بھی زیادتی ثابت تھی مگر اسی دوران لڑکی کے نوجوان ماموں نے اس بدبخت باپ کو قتل کر دیا۔

یہ واقعہ بلاشبہ میری زندگی کے ان واقعات میں  سے ہے جو آج بھی یاد آ جائیں تو ڈپریشن میں چلا جاتا ہوں۔ اب بھی اس کی روتی ماں یاد آتی ہے جو بین کے انداز میں کہتی تھی، “میں دنیا سے بچاتی تھی، مجھے کیا پتہ تھا گھر میں ہی لٹ جائے گی۔”

یہ بلاشبہ ایک اشتسنائی واقعہ ہے۔ مگر صاحب! عرض اتنی ہے کہ عورت کو گھر میں چھپا کر رکھنا، اس کی حفاظت کی ضمانت نہیں۔ مغربی اور مشرقی دونوں معاشروں میں معصوم بچیاں محرم رشتوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ مرد ایک درندہ ہے اور یہ ہم مرد مانتے ہیں۔ جبھی ہم چاہتے ہیں کہ عورت ملفوف رہے، سامنے نہ آئے اور کچھ ایسا نہ کرے کہ ہماری درندگی کو ہوا ملے۔ شاید یہ نسخہ گئے زمانوں میں کارآمد تھا۔ آج جب عورت کا باہر نکلنا اکثر مجبوری بن جاتا ہے، یہ حل مناسب نہیں۔ اگر درندگی مرد میں ہے تو پھر قصور وار عورت کیوں؟ ،اگر مرد آسانی سے بے قابو ہو جاتا ہے تو عورت اس کی سزا کیوں بھگتے؟عورت اور مرد میں ایک فاصلہ ضروری ہے، مگر اس کی قید کی صورت میں ہی کیوں؟

یہ ذمہ داری مرد پر ڈالیے کہ وہ اپنے حیوان کو قابو کرے۔ اور اگر وہ درندگی پر اترے تو سزا کا مستحق وہ مرد ہے۔ عورت اپنے تحفظ کے لیے  قید اور دیگر پابندیوں کی محتاج کیوں رہے۔ خدارا مرد کو لگام ڈال کر باہر کا معاشرہ محفوظ بنائیے، وگرنہ تو پردے میں ڈھکی، گھر میں چھپی عورت بھی محفوظ نہیں ہے۔

میرے ایک بہت محترم اور پیارے بزرگ دوست نے فرمایا “شادی شدہ مرد کے گناہ کی ذمہ دار بیوی ہوتی ہے کہ اس کی خواہش پوری نہیں کرتی۔” ،یعنی عورت ہی قصوروار ہے۔ مرد اپنے جانور کو قابو کرنے میں ناکام رہے تو یہ بھی عورت کا ہی قصور ہے۔ اگر غیر شادی شدہ مرد بھٹکا تو عورت کا قصور کے باہر نکل کر اس کے سامنے کیوں آئی، رابعہ بصری کیوں نہ بنی۔ اگر شادی شدہ بھٹکا تو بھی عورت کا قصور کہ شوہر کے لیے  میا خلیفہ کیوں نہیں بنی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نہیں صاحب۔۔ اپنی کمزوری کی ذمہ داری دوسرے پہ مت ڈالیے۔ میرے ایک قریبی دوست ایک سال سے بوجوہ بیگم کی قربت سے محروم ہیں، مگر بیوی کا قصور بنا کر کسی دوسری کو فتح کرنے نہیں نکل پڑے۔ اگر مرد کا ضبط اتنا ہی کمزور ہے تو ذمہ داری بھی خود اٹھائے۔ ویسے اگر عورت مرد کی کمزوری یا بے اعتنائی سے مجبور ہو کر گناہ کر بیٹھے تو کیا شوہر کا قصور مان کر اسے معاف کر دیں؟

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ایک ریپ، ایک قتل۔۔ انعام رانا

  1. اس واقعہ میں خاص بات یہ ہے کہ باپ کو نشئی کہا گیا ہے ، نشہ ایک خاص کیفیت کا نام ہے جس میں فرد اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا ہے ۔۔۔۔۔ یعنی وہ نفسیاتی مریض ہوتا ہے،
    اور یہ بات بھی معلوم کرنی ہے کہ آج کل اچانک ہی ۔۔۔ یہ ثابت کرنے کی کیوں کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان میں بھی ، یورپی مملک کی طرح جنسی بے راہ روی اتنی بڑھ گئی ہے کہ رشتوں کا احترام بھی ختم ہوچکا ہے ؟ ایک باقاعدہ مہم کی طرح یہ کوشش جاری ہے، ہم اسکی مذمت کرتے ہیں

Leave a Reply