سعودی عرب کےعالمی شہرت یافتہ نوادرات۔۔منصور ندیم

سعودی عرب کی موجودہ حکومت اپنے گزشتہ 50 سالہ تاریخ کے نئے موڑ پر ہے، جس کا سہرا یقیناً موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات اور موجود ترقی کے عہد میں اپنی روایتی سوچ سے ہٹ کر ان نئے اقدامات کو جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا کی نظریں ان اقدامات کی طرف خوش آئند ہیں۔

سعودی عرب میں کئی تاریخی نوادرت  دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت پارہے  ہیں ۔ ان نوادرات نے حالیہ دنوں میں پوری دنیا کے ماہرین آثار قدیمہ کے تحقیقی مقالوں اور تاریخی آثار سے متعلقہ رسائل میں مقبولیت حاصل کی ہے ۔

سعودی عرب کے یہ تاریخی نوادرات اپنے خوبصورت ڈیزائن، اعلیٰ درجے کی سنگ تراشی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر دنیا بھر میں شہرت کی منزلیں طے کرتے جا رہے ہیں۔

رجل المعاناۃ‘ (مصیبت زدہ شخص)
رجل المعاناۃ‘ (مصیبت زدہ شخص)

تاریخی نوادرات میں مقبول ہونے والے نوادرات کئی عالمی عجائب گھروں میں پیش کیے  جاچکے ہیں، سعودی عرب اپنے ان نادر تاریخی قطعات کی نمائش “جزیرہ عرب میں تجارت کی شاہراہیں” کے عنوان سے بھی منعقد کرنے جارہا ہے۔

جن نوادرات نے  بین الاقوامی سطح پر شہرت پائی ہے، ان میں سب سے زیادہ شہرت پانے والے چند نام یہ ہیں۔

1- رجل المعاناۃ‘ (مصیبت زدہ شخص)

نوادرست کی فہرست میں سرفہرست ’رجل المعاناۃ‘ (مصیبت زدہ شخص) کا مجسمہ ہے- ’رجل المعاناۃ‘ مصیبت زدہ شخص کا مجسمہ ریتیلے پتھر کا بنا ہوا ہے۔یہ سعودی عرب کے شمالی علاقے حائل سے 200 کلو میٹر جنوب میں واقع الکھف قصبے کے قریب دریافت ہوا تھا۔ ماہرین کے مطابق اس کی عمر 6 ہزار برس سے کہیں زیادہ قدیم ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مجسمہ اپنی تراش خراش کے حوالے سے انتائی اہم ہے۔

اس کی گہری آنکھوں اور منہ کی شکل رنج و غم کا اظہار حقیقی انداز سے کر رہے ہیں،اس مجسمے میں ہاتھ دل کی طرف اٹھا ہوا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ مجسمہ ساز نے اس شخص کی مصیبت کے اظہار کے لیے یہ طریقہ اپنایا تھا۔

’مصیبت زدہ شخص‘ کا مجمسہ دنیا بھر میں سنگ تراشی کا نادر نمونہ مانا جارہا ہے، یہ خطے کی بڑی تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، سعودی عرب کے ماہر آثار ڈاکٹرسعد الراشد کا کہنا ہے کہ یہ مجسمہ 4 ہزار قبل مسیح پرانا ہے،- یہ ایک طرح سے سلامتی اور چاہت کے جذبات کا نمائندہ نقش ہے۔

الراشد نے بتایا کہ یہ مجسمہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنےکے لیے اعلی حکام کی منظوری لینا ہوتی ہے، بین الاقوامی دستاویزی پروگرام کے تحت اسے مملکت سے باہر بھیجا جاتا ہے۔

 

2- شاہد قبر

سعودی عرب کے مشہور تاریخی نوادر میں ایک اور مجسمہ بھی شامل ہے جسے ’شاہد قبر‘ کہا جاتا ہے،یہ 5 صدی قبل مسیح پرانا ہے، پتھر پر ایک انسان کاچہرہ بنا ہوا ہے، آرامی زبان میں ایک اہم شخصیت کا تذکرہ نقش ہے، یہ مجسمہ سعودی عرب کے معروف علاقے تیما سے ملا ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ کا کہناہے کہ 5 صدی قبل مسیح کے دور میں تیما اور جزیرہ عرب کے شمالی اور جنوبی علاقوں کے درمیان ثقافتی رابطے پائے جاتے تھے، یہ واحد مجسمہ ہے جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے۔

 

3- سیدۃ الفاؤ (فاؤ کی سردارنی)

مشہور نوادر میں ’سیدۃ الفاؤ‘ (فاؤ کی سردارنی) نامی مجسمہ بھی ہے۔کانسی کا یہ مجسمہ ایک صدی قبل مسیح پرانا ہے، اس میں خاتون کا سر نظر آرہا ہے- یہ مجسمہ الفاؤ قریے (گاؤں) سے ملا ہے جو ریاض شہر سے 700 کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔
مجسمے میں خاتون کے سر کے بالوں کا ڈیزائن ایک صدی قبل مسیح کے دور میں رومن خواتین جیسا ہے۔

کانسی کےدو اور مجسمے بھی نوادر میں شامل ہیں، یہ بھی الفاؤ قریے سے ملے ہیں- پہلا بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ ہرقل کا ہے،

اس کے دائیں ہاتھ میں ڈنڈا اوربائیں ہاتھ میں شیر کی کھال نظر آرہی ہے، یہ پوری دنیا میں ہرقل کا واحد مجسمہ ہے، اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہرقل چالیس برس کی عمر میں بھی نوجوانوں سے کہیں زیادہ پرجوش ہے۔
دوسرا مجسمہ مصری شہنشاہ ھربوقراط کا ہے جو فراعنہ کا دہرا تاج سر پر سجائے ہوئے ہے۔

یہ دونوں مجسمے 3 صدی قبل مسیح سے لے کر تین صدی بعد مسیح کے دور کے ہیں- یہ تقریبا 25.3 سینٹی میٹر اونچے ہیں۔
مجسموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ الفاؤ کے باشندے نقش نگاری، سنگ تراشی، خطاطی، مجسمہ سازی اور مختلف دستکاریوں میں منفرد صلاحیت کے مالک تھے اور ان شعبوں میں ان کا تمدن اعلی درجے کا تھا۔
الفاؤ ہی سے کندۃ سلطنت کی ایک عظیم شخصیت کا نمائندہ مجسمہ ملا ہے- یہ ایک صدی قبل مسیح پرانا ہے۔

یہ مجسمے سے کہیں زیادہ دیوار پر نقش آرٹ کا نمونہ ہے۔ گھنے بالوں والے ایک شخص کی تصویر دیوار پر کچھ اس انداز سے نقش ہے کہ اس کے پیچھے انگور کی بیلیں نظر آرہی ہیں۔ مونچھیں ہلکی ہیں اور نیچے کی جانب جھکی ہوئی ہیں۔
یہ پہلی صدی قبل مسیح کے دور میں جنوبی جزیرہ عرب میں اسی طرح کی مونچھیں رکھی جاتی تھیں-،اس شخصیت کے اطراف دو خادم بھی کھڑے ہوئے ہیں جس سے لگتا ہے کہ یہ الفاؤ کی عظیم شخصیت تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سعودی حکومت نے نودرات کے حوالے سے گزشتہ سال دنیا کے سب سے بڑے ”الحرمین عجائب گھر “ نامی پروگرام کے قیام کا فیصلہ کیا ہے، اور نوادرات کو جمع کرنے کیلئے چالیس کمیٹیوں پر مشتمل ادارہ قائم کیا ہے، یہ عجائب گھر مکہ مکرمہ میں الحرمین عجائب گھر کے نام سے قائم کیا جائے گا۔ یہ عجائب گھر نہ صرف یہ کہ اسلامی طرز تعمیر کا نمائندہ ہوگا اس میں سعودی عرب کے علاوہ باقی اسلامی دنیاسے تعلق رکھنے والے نوادرات کا انتخاب بھی منفرد اور بہت بڑا ہوگا۔ اس مقصد کیلئے جو کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ یہ ماہرین آثار قدیمہ پر مشتمل ہیں، جو ایسی سلطنتوں اور مختلف تہذیب و تمدن کے نوادرات جمع کرنے پر مامور ہیں جن میں سے بعض کی تاریخ 30ہزار قبل مسیح پرانی ہے۔ یہ عجائب گھر دنیا بھر کے شائقین کو دنیا کے آغاز سے لیکر اب تک ہونے والی تبدیلیوں سے عصر بہ عصر متعارف بھی کرائے گا۔ سعودی وژن 2030کے مطابق اسلامی عجائب گھر عالمی معیار کا ہوگا۔ نوادرات جمع کرنے ان کی حفاظت ، ترتیب اور پیشکش میں جدید ترین وسائل سے فائدہ اٹھایا جائیگا۔ عجائب گھر کے تشکیلی عناصر مقامی ماحول کے ہونگے۔ یعنی مغربی طرز کو نقل نہیں کیا جائے گا۔ عجائب گھر کی مجلس شوریٰ کے رکن ڈاکٹر احمد الزیلعی کہنا ہے کہ ہماراچ موجود عالمی عجائب گھروں سے نوادرات خریدنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ ویسے بھی سعودی عرب کے مختلف علاقے بنی نوع انسان کی تاریخ کا محور رہے ہیں۔ ان سب سے ہی نوادرات جمع کئے جائیں گے۔ عجائب گھر کا ہدف کسی ایک جگہ کے انسان کی زندگی کو مجسم شکل میں پیش کرنا ہی نہیں ہے بلکہ انسان کی شناخت کو نمایاں کرنا بھی اس کے اہداف میں شامل ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply