• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کئی چاند تھے سر ِ آسماں(2،آخری قسط)۔۔تبصرہ: پروفیسر ذوالفقار احمد ساحر

کئی چاند تھے سر ِ آسماں(2،آخری قسط)۔۔تبصرہ: پروفیسر ذوالفقار احمد ساحر

دراصل یہ اس زمانے کے فیشن ایبل رؤسا کی خواتین کالباس تھا۔طبقہ رؤسا کاتعلق چاہے کسی بھی ملک ہو،خواتین کے لباسوں کااہتمام ان کے نسوانی حسن اور بے انتہا کشش کو مزید انگیخت کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ٹالسٹائی کے ناول ”جنگ اور امن“میں بھی پیٹرز برگ او رماسکو کے اعلی ٰ خاندانوں کی پارٹییوں میں آنے والی خواتین اپنے لباس کو سب کی نگاہوں کامرکز بنانے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں۔وزیر خانم کے سراپے کاجائزہ پیش کرتے ہوئے مصنف نے شاعرانہ نثر کے کمالات دکھائے ہیں۔جو دراصل ولیم فریزر جیسے فرنگی کی تقریب میں وزیر خانم کی اصل چھب دکھانے کی عمدہ اور کامیاب کوشش ہے۔چند نمونے مزید ملاحظہ ہوں۔طوالت سے بچنے کے لیے صرف چند فقرے منتخب کیے جارہے ہیں۔
”وسط زانوکے اوپر پائجامہ چست تھالیکن آہستہ آہستہ ڈھیلاہوتے ہوتے کولھوں کے شاداب نرینی خرمنوں تک پہنچتے پہنچتے انھیں دوگوے ساحری جیسا جادو اثر بنا رہا تھا۔۔۔۔کہ اوپر آتے آتے کمر کو خط ِ صہبا کی طرح نمایاں کر رہا تھا“
”صدری کاگلاس اس طرح تراشا گیا تھا کہ آگے سے تو بہت اونچا اور بند تھا،لیکن پشت پر اس قدر نیچا تھاکہ گردن سے لے کر پشت کے تختہ پکھراج سرمئی تک ایک راہ بن گئی تھی۔“
”گردن اور پشت اور وادی ء کاشانہ کانظارہ خوب نمایاں تھا۔دونوں آستینیں چست اورلمبی تھیں،اتنی کہ کلائیاں پوری طرح مخفی کردی گئی تھیں“
”زلفوں کی درازی کااشارہ دینے کے لیے سر کاپچھلا حصہ دستار سے نہ ڈھکا گیا بل کہ دستار کے اوپر ایک موباف نمارومال پٹی کے ساتھ کس لیا گیا تھا۔اور پھر اس کے اوپر بھی سیاہ سرخ رنگ کاایک طُرّہ باندھ کر صاحب ِدستار کے متوسط سے نکلتے ہوئے قد کو ذرا اور قیامت زابنانے کی کوشش کی گئی تھی۔“
”سامنے کابدن،جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں،پوری طرح نہیں تو بہت حد تک پردہ پوش تھا۔لیکن ایک نازک سی برق وس کٹار اپبتہ میان سے عاری بالکل برہنہ،اس کی کمرسے لٹک رہی تھی،اس طرض گویاناف کی طرف اشارہ کررہی ہو۔لیکن اسی رمز کو سمجھنے والے لوگ شمس الدین احمد کے بھی طبقے میں نیلے آسمان میں بجلی کی چمک کی طرح شاذ شاذ تھے“(صفحات ۳۰۶،۳۰۷)

وزیر خانم،داغ دھلوی کی والدہ،یوسف سادہ کاری کی چھوٹی بیٹی،اس ناول کی ہیروئن اور دھلوی تہذیب کاایک جاندار اور نمائندہ کردار ہے۔جو حقیقی بھی ہے ناول میں زندہ کردار کی طرح ہمے متحرک دکھائی دیتاہے۔یوں تو اس کردار پر اتنی محنت کی گئی ہے اور اس کے لباس،انداز بودو باش،گفتگو،ذہانت،حسن بے مثال اور اس پر بیتے حالات و واقعات کو اس واقعاتی اور حقیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اگر کوئی فلم ساز یاڈعاما کاڈائریکٹر اس کہانی کو فلمانا چاہے تو اس جزئیات نگاری کاسہارا لے کر اپنے پر ایک کردار کو اس کے  صحیح  اور حقیقی رنگ میں پیش کر سکتا ہے۔دہلی کاوہ زمانہ یعنی1830 کی دہائی میں جو بڑے بڑے اور حقیقی کردار سامنے آئے،مصنف نے ان تمام کو ان کے شخصی اوصاف اور خوبیوں خامیوں کے ساتھ بڑی محنت سے پیش کیا ہے۔ان لوگوں میں حکیم احسن اللہ خان،نواب یوسف علی خان،پنڈت نند کشور،مرزا غالب،امام بخش صہبائی،داغ دہلوی،نواب ضیاء الدین احمد خان،استاد ابراہیم ذوق،مولوی محمد نظیر رفاعی،شاہی خاندان کے مرزافخرو،نواب زینت محل وغیرہ اپنی پوری شخصیت کے ساتھ فعال نظرآتے ہیں۔

اُردو عروض پر اور مولانا صہبائی کی معماگوئی پر دو تین صفحے پڑھ کر قاری کو احساس ہوتاہے کہ کیسے کیسے لوگ تھے جنھوں نے اُردو شاعری کے گیسو سنوارنے میں اپناخون جگر صرف کہا۔شعر کالفظی تجزیہ،بات سے بات نکالنا،ایک لفظ کے ٹکڑے کرکے کئی پہلوؤں پر گھنٹوں بحث و مباحثہ مولانا صبہائی کی محفلوں کااہم حوالہ ہے۔مثلا ٍلفظ معماسے اعلی ٰ ،عم زاد،عما،اعمام،اعمیمٰ،عام اور ان سب کے مطالب پر الگ الگ بحث۔لفظوں کاگورکھ دھندہ ان لوگوں کی محفلوں میں پہیلیوں اور شعری اوزان کے حوالے سے زیر بحث رہتا ہے۔پھر عربی،فارسی اور اُردو شعرا کی اشعار کے حوالے جن میں یہ الفاظ مختلف معنوں میں استعمال ہوئے،ان بزرگوں کی شاعری سے دلچسپی اورکمال حافظے کی مظہر ہے۔

یوں تو یہ ناول دلی کے اس دور کے حالات پر ایک تاریخی اور مستند دستاویزکی حشیت کاحامل ہے۔مثلا قلعہ معلی کے معارف و آمدنی،قلعے کے شعبہ جات مثلا خاصہ کلاں،خاصہ خرد،آبدار خانہ،دواخانہ،توشہ خانہ،جواہر خانہ اسلح خانہ،فیل خانہ،بگھی خانہ، توپ خانہ،شتر خانہ،رتھ خانہ،کتب خانہ،کبوتر خانہ،پالکی خانہ و دیگر کے معارف و تفصیلات،انگریز سرکار کی آمدن شہردہلی کے محاصل،کاندانوں نے نسب نامے،کرداروں کی پیدائش،شادی،وفات کے سنین عبوری و ہجری،اور تاریخیں،محفلوں کے شرکا کے نام،لباس،گفتگو،کلیے،الغرض کوئی شعبہ چھوٹا نہیں۔ظہیر دہلوی،منشی فیض الدین (وقائع نگار)کے حوالے سے دہلی کی سوسائٹی کے متعلق وہ معلومات جمع کی گئی ہیں۔جو سطحی مطالعہ سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔تذکرہ نگاروں،تاریخ نویسوں کی دی ہوئی معلومات کو کہانی میں بے ساختگی سے سمویا گیا ہے۔کہ لمحہ بھر کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔دل کہتا ہے کہ پڑھتے چلے جائیے۔مصنف نے ان دستیاب روزنامچوں سے بھی استفادہ کیا جو انگریزوں نے لکھے تھے مثلا ًفینی پارکس کاروزنامچہ مصنف نے اہم شخصیات کے خطوط اور ڈائریوں سے ان کے امراض،علاج،بیماریوں اور افاقہ کے متعلق بھی معلومات جمع کی ہیں۔جو کہانی میں واقعات کے طور پریوں پرو دی گئی ہیں۔جیسے تسبیح میں دانے پرو دیے جاتے ہیں۔

بات وزیر خانم سے بہت دور نکل آئی۔یہ ذکر ہو چکا ہے کہ وزیر کی پہلی شادی مارسٹن بلیک سے ہوئی تھی۔پھر ولیم فریزر کے مشاعرے میں وزیر کی ملاقات نواب شمس الدین سے ہوئی۔بعد میں یہ تعلق ازداوجی حیثیت اختیار کر گیا۔ولیم فریزر بھی خواہش مند تھا۔چناں چہ وہ شمس الدین کادشمن بن گیا۔شمس الدین کی لوہارو والی جائیداد فریزر نے تقسیم کروا کراس کے سوتیلے بھائی کو دلوادی۔پھر ایک دن شمس الدین کو بھرے بازار میں بے عزت کیاجس پر شمس الدین کے نوکر نے فریزر کو قتل کردیا۔مقدمہ چلا اورنواب شمس الدین کو ۸اکتوبر1835ء کو پھانسی دے دی گئی۔جب کہ مرزا داغ کی ولادت ۵۲مئی1813 کو ہوئی تھی۔یعنی داغ تقریبا ًساڑھے چار برس کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے۔زیر کی دوسری شادی آغاز تراب علی سے رام پور میں 1842میں ہوئی تھی جس سے ایک بیٹا بھی ہوا۔آغاتراب علی متمول شخص تھے جو مویشیوں کی تجارت کرتے تھے۔1843میں جب وہ بنگال میں ایک تجارتی سفر سے واپس آرہے تھے۔تو ٹھگوں کے ہاتھوں بے دردی سے ہلاک کردیے گئے۔واضح رہے کہ اس دور میں ٹھک بھیس بدل کر مسافروں کے ساتھ ہو جاتے اور کوئی نہ کوئی جال بچھا کر موقع پاتے ہی گلاگھونٹ دیتے۔ان کاطریقہ بہت سادہ لیکن ایک جیسا ہوتا۔یعنی رومال پھندا ڈا ل کر گلا گھونٹ دینا۔ویرانوں میں سے گزرتے مسافروں کو ہلاک کر کے دفن کردیتے۔انگریزوں نے ان کے خلاف فوجی کاروائیاں کیں اور ٹھگوں کاخاتمہ کردیا تھا۔

تراب علی کی موت کے بعد وزیر خانم کچھ عرصہ رام پور میں اپنے بچوں کے ساتھ نند کے گھر رہی مگر پھر دلی چلی آئی۔دلی کے ماحول میں نواب مرزا داغ کی شاعری ذہانت اور جدت و حاضر جوابی نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنی شروع کردی۔وہیں مرزا غالب سے ملاقات ہوئی۔داغ کانوخیزی ِعمر کازمانہ مشاعروں میں اور استاد ابراہیم ذوق،اما م بخش صبہائی،مومن خان مومن اور غالب جیسے شعرا کی محفلوں میں شرکت کرتے اور مشق سخن کرتے گزرا۔طبعیت نوجوانی ہی سے شعر کی طرف مائل رہی مگر ماحول نے سونے پر سہاگہ کاکام کیا۔
وزیر خانم کی زندگی میں ایک نیاموڑ آیا۔جب بہادر شاہ ظفر کے بیٹے ولی عہد سوم میرزا فتح الملک بہادر المعروف مرزا فخرو کے لے شادی کاپیغام آیا۔کچھ حیص بیص کے بعد رشتہ قبول کر لیا گیا۔یوں وزیر خانم کی چوتھی شادی ۴۲ جنور ی1845 کو شاہی خاندان مغلیہ میں ہوئی اور وہ داغ کو لے کر قلعہ معلی ٰ آ گئی۔بادشاہ (بہادر شاہ ظفر) نے شوکت محل کاخطاب عطا کیا۔شاہی قلعے کاماحول،خدم و حشم،ترکنیں،حبشنیں،حبسولنیاں،قلماقنیاں،اُردابیگنیاں،خواصیں،کنیزیں ہر وقت حاضر خدمت رہتیں۔گوہر اقلیل سلطنت،طرہ ء تاج خلافت،غلام فخرالدین،فتح الملک،مرزا محمد سلطان بہادر،صاحب عالم و عالمیان کی صحبت سے جام ہائے وصال،لطف و انبساط پیتے اور بے فکری کے دن جیتے،مرزا فخرو کی ناز بردلوانہ ہوس ناکیوں سے لطف اندوز ہوئے بارہ برس بیت گئے۔داغ کے لیے یہ زمانہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ دلوں پر ناوک افگنی کے انداز سیکھنے اور عشق کی تصویریں کھینچنے کے فن میں ید طولی ٰ حاصل کرنے کایک نادر موقع بن کر گزرا۔گویا کہ ایک جنت تھی جس میں وزیر،داغ اور آغا محمد شاءئق (آغا تراب علی کابیٹا) رہ رہے تھے۔مرزا فخرو کی بھی ایک اولاد ہوئی۔وزیر نے چاند جیسے بچے کو جنم دیا جو مغل خاندان کاچشم و چراغ تھا۔1856 میں دلی شہر میں قیامت کی گرمی اور بارش ہوئی بعد میں ہیضہ پھوٹ پڑا۔دلی عہد سوم وباکا شکار ہو کر راہی ملک عدم ہوئے۔وزیر کی دنیا ایک بار پھر ویران ہوئی۔قلعہ کی محلاتی سازشو ں سے محفوظ رہنے کے لیے وزیر نے اپنے بچوں کو اپنے مال اسباب کے ساتھ لے کر رام پور کاراستا لیا۔اور تاریخ کے اندھیرے میں گم ہوگئی۔داغ کایہ شعر ان ہی حالات کی غمازی کرتا ہے۔
؎ مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے
چمن اڑ گیا آندھیاں آتے آتے

Advertisements
julia rana solicitors london

ناول کی کہانی اپنے جاندار کرداروں کے ساتھ یہیں پر ختم ہوتی ہے۔ایک عہد کاخاتمہ۔انیسویں صدی کی تین دھائیوں کی مکمل تصویر کشی پیش کرنے والا یہ ناول جس کہانی پرمبنی ہے وہ واقعاتی اور تاریخی اعتبار سے ایک مضبوط پلاٹ پر استوار کی گئی ہے۔تاہم یہ تاریخی ناول ہر گز نہیں۔کردار وں کاحقیقی پن اس کو دستاویزی صورت عطاکرتا ہے۔مصنف نے آٹھ سو صفحات کے اس ناول میں دلی کاہر ایک پہلو اجاگر کیا ہے۔قلعہ معلی ٰ اور نوابان کی جاگیروں کی آمدنی،مصارف،انگریز سرکار گورنر،ریذیڈنٹ،وائسرائے وغیرہ کاانداز حکمرانی،خاندانوں کے شجرے اور نسب نامے مختلف کرداروں کی پیدائش،حالات زندگی،کاروبار و مصروفیات،شادی و مرگ کے سینین اور تاریخیں بڑی محنت سے جمع کی گئی ہیں۔محفلوں،مشاعروں وغیرہ کے شرکا ء کے نام،تعارف،حلیے اور گفتگو تک تذکروں سے اخذ کرکے کہانی کاحصہ بنائے گئے ہیں۔ظہیر دھلوی،فینی پارکس،منشی فیض الدین کے تذکروں اور ڈائریوں سے معلومات جمع کی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ مصنف کی محنت خود اعتمادی اور کمٹمنٹ پر دلالت کرتا ہے۔ فنی لحاظ سے شاید ہی کچھ خفیف سی کمزروریاں ناول میں ہوں۔مگر مجموعی طور پر ایک کامیاب ناول کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کیا گیا ہے۔کتاب کے آخر پر مصنف نے اپنے تحقیقی مآخذ کی فہرست دی ہے۔کتابیات کایہ ذخیرہ مصنف کے ہوم ورک،بیدار مغزی،کہانی پر گرفت اور تحقیقی و تخلیقی شعور کی طرف اشارہ کرتا ہے۔باول کی اشاعت مشہور ادارہ شہرزاد سے آصف فرخی کے زیر اہتمام ہوئی۔پنگوئن پبلیشرز نے ہندوستان و بیرون میں اس کو شائع کیا۔ناول کے انگریزی اور ہندی تراجم بھی ہو چکے ہیں۔کسی بھی اد ب میں ایسے ناول صدیوں زندہ رہتے ہیں۔ ناو ل کانام احمد ممشتاق کے اس شعر سے لیا گیا ہے۔
کئی چاند تھے سرآسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو میرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیا ہ تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply