نواب مظفر خان شہید ملتان اور پنجابی فاتح ۔۔۔۔۔ فہد احمد

 خطہ پنجاب کی تاریخ میں کئی  فاتح آئے اور گئے ، کئی نے یہاں سکونت اختیار کی ، ہر ایک فاتح نے اپنے پیچھے اپنے مداح بھی چھوڑے اور اپنے ناقدین بھی ۔ انہی فاتحین میں سے ایک نام ، رنجیت سنگھ بھی ہے ۔جسے  خطہ پنجاب سے
کابل تک کی ریاستوں کا فاتح کہا جاتا ہے ۔ ہر جنگ میں
جہاں ایک کہانی فاتح کی ہوتی ہے وہیں ایک تلخ حقیقت مفتوح
قوم کی بھی ہوتی ہے۔ تاریخ بالعموم فاتحین کی مدح میں لکھی جاتی ہے جو ہر ممکن کوشش
کے بعد بھی جنگی حقائق کو لمبے عرصے تک چھپانے سے قاصر رہتی ہے۔
میرا یہ موضوع  آج
لاھور قلعے  میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے
مجسمے کے نصب ہونے کی  بجائے اس بیان کے  جواب میں ہے
 جو وزیر مملکت فوادچوہدری نے دیا ہے ۔
یہ بیان فواد چوہدری
کے سابقہ بیان کہ ، جنگ میں دونوں طرف پنجابی مرتے ہیں ( پاکستانی و بھارتی
یا کم از کم ،معصوم عوام  نہیں ) کا تسلسل
ہے ۔ 
یا پھر اسکی وجہ آنے والے دنوں میں جنوبی پنجاب صوبے کے
قیام کے بعد کے الیکشن میں اپر پنجاب و سینٹر ل میں اپنی سیٹیں  پکی کرنا ہے قوم پرستوں  کی مدد سے ، یا پھر یہ وزیر موصوف کے ن لیگ سے
انکے دیرینہ تعلقات کا تسلسل ہے کہ وہ اپنا محفوظ کنارہ رکھنا چاہتے ہیں کہ ایک
طرف انکی سیاست مضبوط رہے ، اور جہانگیر ترین کے علاقے میں  موصوف کے کم ہوتے اثرات کے بعد
اپنا علاقہ پکا کیا جائے کیوں کہ عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب صوبہ کے
قیام کے بعد اپر پنجاب میں واضح برتری نہ رکھ سکے ، ایسے میں موصوف پی ٹی آئی
چھوڑنے یا کم از کم اتنا مضبوط  سیاسی  پنجابی بلاک بنانے کی کوشش میں ہیں جو انکی آگے
کی سیاست کو بچا سکے ، جبکہ جنوبی پنجاب میں پنجابی آبادکار علاقوں میں ق لیگ کی
قیادت کے ساتھ ، ن لیگ کی جنوبی پنجاب قیادت
بھی موصوف کے تعلقات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، ایسے میں جاتے جاتے  پی ٹی آئی کے لیے مشکلات کھڑی کرنا مقصد ہے؟ یا پھر پنجاب کے اندر  پنجابی سرائیکی عصبیت کو ہوا دینا ؟ یا پھر انکے اندر کی
، پنجاب محبت کا اثر ہے ؟ مجھے اس سے غرض نہیں۔
اگر رنجیت سنگھ کسی کے لیے معتبر و ہیرو ہے تو ہو،
مجھے اس سے بھی غرض نہیں۔  
مجھے فقط اس سے غرض ہے کہ بطور ایک وفاقی وزیر انکا بیان کیا ہے ؟
فواد چوہدری  نے
رنجیت سنگھ کو پنجاب کا ہیرو کہہ کر ایک ہی عمدہ کام کیا ہے وہ یہ باور کرانا  ہے کہ رنجیت سنگھ ،پنجاب
، کا ہیرو ہے اس آزاد ریاست ، سندھ کے دارالحکومت، عباسی ،
اموی ، قرامطی ، غزنوی ،درانی ،  ترک حکومتوں
مرکز و مغل سلطنت کے صوبے  ملتان و جنوبی پنجاب  کا
نہیں جسکو  اسکی فوجوں نے   تاراج
کیا  ۔ اور اپنے پرانے اتحادی  انگریزوں کے ہاتھوں شکست کھانے   کے بعد
اس ریاست ملتان و علاقہ جنوبی پنجاب، جس کا ایک حصہ نواب مظفر خان کی ریاست میں
تھا  جس پہ رنجیت سنگھ کی فوجوں نے
قبضہ کیا، اور دوسرا حصہ بہاولپور آزاد ریاست کے طور پہ موجود
رہا اور برطانیہ سرکار کے ساتھ  معاہدوں کے
باعث سکھ حکومت کے ہاتھوں مکمل قبضے سے بچا رہا،   وہاں ملتان کو نئے صوبے ، پنجاب، میں انگریزحکومت نے ضم کیا
ایسے  میں مخصوص
قوم پرست پنجابی دوستوں و رنجیت سنگھ کے پرستاروں کے لیے ( جو الحمدللہ
پنجابیوں کی بھی اکثریت نہیں ) ملتان یا بہاولپور کی حالت سے زیادہ اہم رنجیت سنگھ
کی سالگرہ و اس موقع پہ شاہی قلعے میں رنجیت سنگھ
کے مجسمے کو نصب کرنا ہو سکتا ہے ، مجھے اس سے بھی غرض نہیں۔
 خیر کچھ ذکر ملتان
پہ مہاراجہ کے حملے اور ہم ملتانیوں سرائیکوں کے رنجیت سنگھ کو پسندنہ کرنے کی وجہ
ضرور بتا سکتے ہیں۔
سن ١٨١٨ میں
رنجیت سنگھ نے  سکھ ریاست کے جنوب
مغربی سرحدی علاقے کو زیر کرنے کے احکامات جاری کیے ،
 اس مقصد کے لیے
رسد کا ایک نظام وضع کیا گیا جو راوی ، چناب و
جہلم کے راستے  لاہور سے روانہ ہوا،
کوٹ کمالیہ میں،
جو کہ ملتان و لاہور کا درمیانی علاقہ تھا ،  میں  رانی راج کور بذات خود اس رسد کی نگرانی کر رہی تھی ۔
جنوری کے ابتداء میں مظفر گڑھ و خان گڑھ کے علاقوں میں جنگ
کی ابتدا ہوئی، ایسے میں جب کھڑک سنگھ کی جانب سے تاوان ادا کرنے و شکست قبول کرنےکی شرائط سامنے رکھی گئیں تو والی ملتان
نے یہ شرائط ماننے سے انکار کیا۔ اور جنگ لڑتے ہوئے شہادت کی موت کو ترجیح
دی۔  
ابتدائی جھڑپوں کے بعد رنجیت سنگھ کی جانب سے زمزمہ توپ و
مزید کمک بھیجی گئی ۔
جون کی ابتداء میں سادھو سنگھ و اکالی لشکر  قلعہ کے ہندو
غداروں کی مدد سے جو پہلے ہی ان سے رابطے میں تھے ، قلعے میں نقب لگانے میں
کامیاب ہوئے اور اس معرکے میں  نواب مظفرخان
بمعہ اپنے فرزندان لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
اور یہاں سے ملتان پہ سکھ راج کی ابتداءہوئی۔
مساجد کو اسلحہ کے گودام و اصطبل بنایا گیا، ہندو و مسلمان
ملتانیوں کو قتل کیا گیا،   مسلمانوں کے
گھروں کو جلایا گیا ، خواتین کی عزتیں تارتار کی گئیں ، مسلمان  خانوادوں کی جاگیریں ہندو و سکھ
لشکریوں وحمایتیوں میں بانٹی گئیں ۔
تاریخ پنجاب مصنف، کنہیا لال کے مطابق،ہزاروں پردہ نشین
عورتوں کو  بے آبرو کیا گیا،  جن گھروں کے دروازے بند ہوتے دروازے توڑ کر سکھ
فوجی اندر داخل ہوتے ، مکینوں کو قتل کرتے اور پھر مال لوٹ لیتے۔
اگرچہ نواب کی شہادت کے بعد دیوان مصر  چند نے سکھ فوجیوں کو شہر کو غارت نہ کرنے
کی  نصحیت کی مگر سکھ فوج نے قہقہے لگاتے
ہوئے اس بات کو نظر انداز کیا کہ انکے خلاف مزاحمت کرنے والی ریاست کو کیونکر بخشا
جائے ۔ 
انکا یہ غصہ دیکھ کر دیوان چند نےخاموشی میں اپنی جان کی عافیت جانی ۔
تاریخ فریدی سے کچھ احوال اس جنگ کا ۔
مظفر بربساط مرگ بنشست
مسلمانی ز ملتان رخت بربست
اس پورے سانحے میں جو منظر  یاد رکھنے کے ہیں وہ نواب مظفر خان کی اس شیردل
دختر و خاتون ملتان کے ہیں جب وہ اپنے بھائیوں کے ہمراہ جنگی پیراہن  میں  ملبوس
اپنے گھوڑے پہ سوار سکھ فوج کے خلاف سینہ سپر تھی اور دشمن کی گولیوں کی باڑھ سے
چھلنی جسد خاکی لیے اس دنیا سے رخصت ہوئی۔
بجرم عشق تو ام می کشند دغوغائیست
تو نیز برسر بام آ کہ خوش تماشائیست۔
ہندوستان اس وقت نہ کوئی ملک تھا نہ ایک متحد ریاست ،  یہ سینکڑوں ریاستوں کا مجموعہ تھا، اور ایسے
میں ہر ریاست کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جن کا تحفظ اس ریاست کے حکمران  بہر صورت کرتے تھے ، آپسی اختلافات کے باوجود
ریاست ملتان و ریاست بہاولپور اس وقت ایک اہمیت کی حامل مسلمان ریاستیں تھی۔
اس وقت کی ریاست ملتان جو میرے آباء  کا  وطن تھا ، ہمارے زمین زاد  یہی  لوگ تھے ،   ہمارے ہیرو یہ لوگ تھے جن کے  پہلو میں لڑتے ہوئے ہمارے آباء نے شہادتیں دیں
نہ کہ  رنجیت سنگھ و غاصب فوج جس کی اکثریت
سکھوں کی تھی مگر وائے قسمت اس میں  ،
پنجاب کے چند پنجابی مسلمانوں ،ہندووں ،  کی شمولیت بھی رہی ۔ بعد ازاں انگریزوں کو مقامی فوجی نفری  فراہم کرنے میں کلیدی کردار رہا کہ ایک وقت میں ہندوستان میں کل برطانوی فوج کا  بیس سے تیس فیصد تک حصہ پنجابی آبادی پہ مشتمل ہوا کرتا تھا۔ 
جبکہ یہی سکھ ریاست لاہورکو بھی تاراج کر چکی تھی ۔
وہیں  یہی سکھ ریاست
، ریاست بہاولپور کے خلاف بھی سرگرم رہی ، اسی ریاست بہاولپور  کے
خلاف جس کے نواب  کو پاکستان کو
اپنا کل اثاثہ  تحفے میں دینے ، ہندوستان
سے آئے مہاجرین کو جگہ دینے انکے لیے ریاست کے خرچ پہ مہاجر کیمپ لگانے ، سمیت
لاھور کے میڈیکل کالج و پنجاب یونیورسٹی کو خطیر رقم عطیہ کرنے  پر
قائد اعظم محمد علی جناح نے محسن پاکستان کا خطاب دیا۔
اسی ریاست بہاولپور نے جس نے  مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ
اپنا الحاق کیا، اور اس وقت کیا جب ریاست برصغیر کی امیر ترین  ترقی یافتہ ریاستوں میں سے 

 

ہمارے ہیرو نواب بہاول خان کے فرزند ہیں ،ہمارے ہیرو نواب  مظفر خان  و انکے فرزندان ہیں۔
ہم نہ اس پنجاب کا کل حصہ تھے جس کا ہیرو رنجیت سنگھ ہے ،
نہ آج ہیں نہ کل ہوں گے۔ 
فواد چوہدری صاحب آپکا  اس بیان کے پیچھے سیاسی مقصد کیا ہے اس سے قطع
نظر ، آپکے لیے ہم ملتان ، بہاولپور واسیوں اور
  مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان
کے شہریوں کا یہ پیغام ہے کہ خدارا ملک میں اپنے مفادات کی
خاطر ایک نئی عصبیت کو ہوا نہ دیں ، ملک پہلے ہی مسائل سے گھرا ہے ، ایسے میں دشمن
کو
ایک اور نئی خانہ جنگی و نفرتوں کی طرف مت دھکیلیں ، اپنے
ہیرو جسے چاہیں بنائیں ،  ہمیں نہ سکھ مذہب سے کوئی نفرت ہے نہ ہی سکھوں کے اہم لیڈر و فاتح رنجیت سنگھ سے کوئی غرض  ،  بلکہ پہلی خالصہ ریاست  کے اس بانی کی سکھ قوم کے لیے اہمیت سے بھی انکار نہیں ، اور شاید مستقبل کے خالصتان حکومت  بننے کے بعد بھی پاکستان میں انکے لیے عقیدت کا مقام باقی رہے ، بات صرف اتنی ہے کہ اغیار کے ہیروز ہم  پر مسلط نہ کریں ، فاتح کی مناسب تعریف میں اور اسے اپنا ہیرو بنانے میں فرق سمجھیں ہمارے زخم آج بھی تازہ ہیں، ہم ہمسائیوں سے و دیگر عوام سے اچھے تعلقات کے حامی ہیں مگر اپنی شناخت و تاریخ پہ سمجھوتہ کرنے پہ نہیں ۔ 
آپکے ان الفاظ سے جو بطور ریاست
پاکستان کے وزیر آپ نے استعمال کیے ہیں
اس سے ہمارے جذبات کو ٹھیس
پہنچی ہے ۔  اور ہم وزیر اعظم عمران خان سے
بھی اپیل کرتے ہیں کہ اپنے وزراء کو انکے منصب کا خیال کرتے ہوئے گفتگو کی تلقین
 کریں۔ پاکستان زندہ باد۔
ملتان کا ایک منظر   
حوالہ جات ۔
1.Cunningham, Joseph
Davey (1918). A history of the Sikhs. London, New york: Oxford University
Press.
2. Jaques, Tony
(2006). Dictionary of Battles and Sieges: A-E. Greenwood Press.
3.Princep, Henry
Throby; James Prinsep (2010). History of the Punjab: And of the Rise, Progress,
& and Present Condition of the Sect and Nation of the Sikhs. Nabu Press.
4.  Tanner, Stephen (2009). Afghanistan: A
Military History from Alexander the Great to the War against the Taliban. Da
Capo Press.
5. Chopra, Gulshan
Lall (1928). The Panjab as a Sovereign State. Lahore: Uttar Chand Kapur and
Sons.
6.Prinsep, Henry
Thoby; Prinsep, James (1928). History of the Punjab: And of the Rise, Progress,
and Present Condition of the Sect and Nation of the Sikhs (Volume II). Wm. H.
Allen and Co.
7. Prakash, Om
(2002-09-01). Encyclopaedic History of Indian Freedom Movement. Anmol
Publications PVT. LTD. Retrieved 31 May 2010.
8.تاریخ ملتان ، مولانا نور احمد خان فریدی، 1977
9-History of Bahawalpur by Shahamet Ali .
                   10۔ تواریخ خالصہ، گیان سنگھ گیانی۔                               

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نواب مظفر خان شہید ملتان اور پنجابی فاتح ۔۔۔۔۔ فہد احمد

  1. نواب مظفر سدوزئی کیسے اور کس طرح سے مقامی تھا؟ مغل مقامی تھے ؟ انکے کماندار کیسے مقامی ہو گئے؟ بابر نے جو لاہور کیساتھ کیا اور ابدالی کیساتھ یہی ملتانی نواب کیسے لاہور پہ چڑھے رہے اس تاریخ کو کیا ناشتے میں کھا لیا ہے مصنف نے۔ اور پھر جناب سیدھے قیام پاکستان پہ آن رکے ہیں۔ بادشاہتیں ختم ہو گئیں ہیں اور یہ سارا خطہ ہمیشہ سے گزرگاہ رہا ہے قبیلے اور قافلے اس سے گزرتے رہے ہیں یہ کسی ایک شخص کی جاگیر نہیں ہے۔ راجواڑے پورے ہندوستان میں ختم ہوئے تھے اور مہاجروں نے ان علاقوں کو آ کر ترقی ہی دی ہے یا اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے اپنی محنت کی ہے کسی کی زمینوں پہ ڈاکہ نہیں مارا۔

Leave a Reply