مغربی سائنس اور فلسفہ الحاد۔ڈاکٹر محمد رفعت

 کائنات میں نظم، تناسب اور توافق کی موجودگی ایک واقعہ ہے جس کو ہر مشاہد تسلیم کرتا ہے۔ سائنس کی تفصیلات سے ناواقف ایک عام انسان بھی کائنات کی اس خصوصیت سے واقف ہے، اس لیے کہ سورج اور چاند کا طلوع و غروب، رات اور دن کا تسلسل، موسموں کا باقاعدگی سے تغیر، جانداروں کی پیدائش اور موت، دریاؤں کی روانی اور پانی کی گردش ایسے مظاہر ہیں جن کو ہر شخص دیکھتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ انسانی زندگی کی موجودگی اور انسانی ضروریات کی فراہمی کے لیے نظامِ فطرت کے یہ سب اجزاء ناگزیر ہیں اور یہ باہم حیرت انگیز توافق کے ساتھ انسان کو ایک سازگار ماحول فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ایک سائنس داں کو مشاہدے اور تجزیے کے بہتر ذرائع حاصل ہوتے ہیں چنانچہ اُسے کائنات میں پائی جانے والی منصوبہ بندی اور نظم و تناسب سے تفصیلی واقفیت حاصل ہوتی ہے اور وہ سائنسی اصطلاحوں کے ذریعے اس توافق و تناسب کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرسکتا ہے۔

خدا کے وجود کے قائلین، کائنات کے منصوبہ بند نظم و انتظام کو خدا کی نشانی سمجھتے ہیں اور اس بنا پر کائنات کے خالق و مدبر کے وجود کا اقرار کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس، ملحدین، کائنات کے حسن و تناسب کو محض بخت و اتفاق کانتیجہ قرار دیتے آئے ہیں ۔ خدا کے اقرار و انکار کی اس بحث میں سائنس دانوں نے بھی حصہ لیا ہے۔ مشہور سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) کی کتاب The Grand Design (عظیم الشان منصوبہ) ایک مثال ہے جس میں اس موضوع سے تعرض کیا گیا ہے۔ ہاکنگ کی شہرت عام قارئین کے درمیان اُس کی معروف کتاب”A Brief History of Time” (تصورِ وقت کی مختصر تاریخ) کی اشاعت کی وجہ سے ہوئی۔ اس کتاب کو سائنسی حلقوں کے علاوہ دیگر حلقوں میں بھی دلچسپی سے پڑھا گیا۔ چنانچہ جب کائنات کی صورت گری میں عظیم الشان منصوبے کی موجودگی کے سلسلے میں ہاکنگ نے کتاب تحریر کی تو علمی حلقوں کی توجہ اس کی طرف بھی مبذول ہوئی۔

کائنات کے اندر موجود عظیم الشان منصوبے کے کئی پہلو ہیں جو الحاد کے مدعیوں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا کا انکار کرنے والے، کائنات کی ہر حیرت انگیز خصوصیت کی ایک ہی توجیہ کرتے ہیں اور یہ توجیہ Chance (بخت و اتفاق) ہے البتہ اس کے ساتھ وہ قوانینِ فطرت (Laws of Nature) کا بھی تذکرہ کرتے ہیں اور اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے فطرت کے قوانین کا بھی سہارا لیتے ہیں ۔ چنانچہ الحاد کی تائید میں پیش کیے جانے والے استدلال کو سمجھنے کے لیے فطرت اور اس کے قوانین کے سلسلے میں ملحدین کے نقطۂ نظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس بحث کے بنیادی پہلو درجِ ذیل ہیں :

(۱لف) بیسویں صدی سے قبل مغربی سائنس کا پیش کردہ تصورِ کائنات

(ب) مغربی سائنس کے تصورات میں اساسی تغیر

(ج) حیات(Life)اور مظاہرِ حیات کی ملحدانہ توجیہ

(د) خطہ ارض اور نظامِ شمسی میں موجود تناسب و توافق

(ہ) قوانین فطرت کی نوعیت اور اُن کی موزونیت کی توجیہ۔

مندرجہ بالا نکات کا جائزہ، ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔ اس جائزے کے نتیجے میں توقع کی جاتی ہے کہ الحاد کی تائید میں پیش کیے جانے والے استدلال کی کمزوری واضح طور پر سامنے آسکے گی۔ دیانت داری کے ساتھ غور کرنے والے یہ سمجھ سکیں گے کہ الحاد کے مدعیوں کے پاس اپنے موقف کو درست قرار دینے کے لیے ہٹ دھرمی کے علاوہ کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔

مغربی سائنس کے میکانکی تصورات: اصولاً سائنس کا موضوع تمام قابلِ مشاہدہ اشیاء ہیں لیکن سترہویں صدی کے وسط سے سائنس کا جو غیر معمولی ارتقاء یوروپ میں ہوا اس میں سائنس کی ایک شاخ – فزکس (Physics)کو اساسی مقام حاصل تھا، چنانچہ مغربی سائنس کے ابتدائی دور میں جن محققین کے علمی کارناموں کو یوروپ میں توجہ کا مستحق سمجھا گیا وہ سب سائنس کے ایک میدان یعنی فلکیات(Astronomy)اور فزکس سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان میں کوپرنیکس کا نام نمایاں ہے۔ نظامِ شمسی کے موجودہ تصور سے اس کی کتاب نے یوروپ کو روشناس کرایا۔ یہ کتاب سولہویں صدی کے وسط میں شائع ہوئی۔ سائنس کے ارتقاء کی مغربی تاریخ میں گلیلیو کی شخصیت بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔

اس نے مادی اجسام کی حرکت (Motion)سے متعلق ارسطو کے بعض مشہور نظریات کو رد کیا۔ اس نے تجرباتی طریقے بھی استعمال کیے اور فلکیاتی دور بین (Astronomical Telescope) کے ذریعے قریبی اجرامِ فلکی کے تفصیلی مشاہدات میں کامیاب ہوا۔ گلیلیو کے افکار و تصورات نے جدید فزکس کی جانب تحقیقات کا رخ موڑنے میں اہم رول ادا کیا۔ مغربی سائنس کی ان ابتدائی کوششوں کو نیوٹن کی غیر معمولی شخصیت نے ایک منظم شکل عطا کی۔ نیوٹن کی مشہور کتاب پرنسپیا Principia 1687ء میں شائع ہوئی۔ اس میں ریاضی کی تحقیقات کے علاوہ نیوٹن نے حرکت کے قوانین (Laws of Motion) پیش کیے اور اُن کی بنیاد پراُس وقت موجود فلکیاتی معلومات (خصوصاً نظامِ شمسی سے متعلق مشاہدات) کی تشریح کی۔ نیوٹن کو جدید مغربی سائنس کی سب سے اہم شخصیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ سائنس کے اس جدید دور کی چند اہم خصوصیات ہیں گرچہ سائنس کے مورخین عموماً ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔

(الف) اصولاً سائنس کی تمام شاخوں کی اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود، مغربی رجحان نے سائنس کی ایک شاخ یعنی فزکس کو سائنس کا بنیادی عنصر تسلیم کیا ہے۔

(ب) تمام مظاہرِ فطرت کو سائنس کا موضوع سمجھنے کے باوجود اشیاء اور اجرام کی حرکت (Motion)کے مطالعے کو سائنس کا اساسی موضوع قرار دیا گیا ہے۔

(ج) قوانینِ فطرت (Laws of Nature)کے غیر معمولی تنوع کے ادراک کے باوجود اُن قوانین کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے جو حرکت اور نقلِ مکانی کی تشریح کرتے ہیں اور حرکت پذیر اجرام (Bodies)پر کام کرنے والی قوتوں (Forces)کے خصائص بیان کرتے ہیں ۔

(د) اشیاء اور مظاہرِ فطرت کے اُن پہلوؤں کو حقیقی(Real)اور اساسی(Basic) قرار دیا گیا ہے جو قابلِ پیمائش (Measurable)ہوں ۔

اس شرط کا مکمل لحاظ رکھا جائے تو موجودہ فزکس کے علاوہ سائنس کی کوئی شاخ بھی ایسی نہیں جس کا دائرہ حقیقی اور اساسی موضوعات تک محدود ہو۔ اس لیے کہ امرِ واقعہ کے اعتبار سے فطری مظاہر کے بہت سے پہلو، ناقابلِ پیمائش ہوتے ہیں ۔ ابتدائی مغربی سائنس کی مندرجہ بالا امتیازی خصوصیات کی بنا پریہ کہا جاسکتا ہے کہ مغربی سائنس، کائنات کا ایک میکانکی (Mechanical) تصور پیش کرتی ہے۔ اس تصور کے مطابق، تمام مظاہرِ فطرت اور مشاہدات کی تشریح قوت اور حرکت جیسے عوامل (Causes)کی روشنی میں کی جاسکتی ہے۔ یہ سارے عوامل، قوانین کے پابند ہیں اور یہ قوانین بدلتے نہیں ہیں ۔ چنانچہ ان قوانین کا درست علم حاصل ہو تو بالکل صحت کے ساتھ پیشین گوئی کی جاسکتی ہے کہ مختلف ذرات اور اجرام کس طرح حرکت کریں گے۔ ریاضی کے اصولوں کااستعمال کرکے بتایا جاسکتا ہے کہ کس وقت کون سا ذرہ کس مقام پر ہوگا؟ گویا کائنات کا حال(Present)کلّی طور پر اُس کے ماضی(Past)کا نتیجہ ہے۔ علیٰ ہذا القیاس، کائنات کا مستقبل(Future)اُس کے حال سے تمام تفصیلات کے ساتھ متعین ہوجاتا ہے۔

کائنات کی یہ تصویر، جبریت(Determinism)کے رجحان کی تائید کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نیوٹن کے افکار سے متاثر ہوکر لاپلاس(Laplace)نامی ریاضی داں نے پابندِ قوانین کائنات کا تصور وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ اس تصور کے مطابق، کائنات میں پیش آنے والے واقعات میں کسی مدبر اور منتظم خدا کا کوئی دخل نہیں ۔ یہاں جو کچھ ہورہا ہے، کچھ متعین قوانین کے تحت اپنے آپ ہوتا جارہا ہے۔ اگر خدا کے رول کی کوئی گنجائش ہے بھی تو صرف اتنی کہ اُس نے کائنات کی اس عظیم الشان مشین کو ابتدائی حرکت دے دی تھی (یعنی پہلا سوئچ آن کیا تھا)۔ اس کے بعد کسی مدبر کی تدبیر کی کوئی ضرورت نہیں رہی بلکہ قوانینِ فطرت کے تحت، قوتوں اور حرکات کے تعامل کے نتیجے میں اس وسیع کائنات کے گوناگوں مظاہر خود و بخود وجود میں آتے چلے گئے۔

جیسا کہ عرض کیا جائے گا مشینی کائنات کی اس تصویر کو مغرب کی سائنس نے سترہویں صدی میں قبول کیا تھا، مگر اب مغربی سائنس نے اس تصویر میں تبدیلی کرلی ہے۔ تاہم چونکہ قدیم فزکس (Classical Physics)کا مطالعہ، اب بھی فزکس کے طالب علم کے لیے ضروری ہے (انطباقات اور ٹکنالوجی کے لیے اس کو جاننا ناگزیر ہے) اس لیے سائنس دانوں کا وجدان اب تک کائنات کے میکانکی تصور سے متاثر ہے۔ وہ غیر شعوری طور پر اب تک قدیم فزکس کی دنیا میں جیتے ہیں ۔ مثلاً ہاکنگ نے اپنی مذکورہ کتاب میں واضح طور پر جبریت(Determinism)کو درست قرار دیا ہے اور انسانی آزادی و اختیار (Free Will)کو محض واہمہ ٹھہرایا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم مغربی سائنس، میکانکی تصورِ کائنات کا سہارا لے کر ایک مدبر و حکیم، مالکِ کائنات کے انکار کی طرف ذہنوں کو مائل کرتی ہے۔

دوسری طرف انسانی آزادی کی نفی اس سائنس کے تصورات کا منطقی نتیجہ ہے۔ نیوٹن کے بعض تاثرات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تصورات کے ان مضمرات کا کچھ نہ کچھ ادراک رکھتا تھا اور اس سلسلے میں مضطرب بھی تھا۔ تاہم وہ کوئی ایسا فلسفیانہ نقطہ نظر پیش نہ کرسکا جس کے تحت قوانینِ فطرت کی موجودگی اور مدبر و منتظم ربِ کائنات کی تدبیر و انتظام کے مابین تضاد لازم نہ آئے۔ اب اکیسویں صدی میں سائنس کا مزید ارتقاء ہوچکا ہے۔ اب جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اُن کے لیے ضروری ہے کہ ایسا فلسفہ علم، مرتب کریں ، جومذکورہ بالا تضاد سے پاک ہو۔

بیسویں صدی کی سائنس

قدیم فزکس سے بے اطمینانی کا آغاز انیسویں صدی کے اواخر میں ہوچکا تھا۔ بے اطمینانی کی وجہ یہ تھی کہ محض ذرات، اجرام اور قوتوں پر مشتمل کائنات کی تصویر، بدیہی طور پر نامکمل نظر آتی تھی۔ حیات اور اُس کے دلفریب مناظر کو نظر انداز بھی کردیا جائے تب بھی محض بے جان اشیاء کی دنیا میں صرف حرکت کرتے ہوئے ذرات ہی موجود نہ تھے بلکہ (بطورِ مثال) برقیات اور مقناطیسی قوت سے متعلق مشاہدات نے نظر آنے والی کائنات میں لہروں (Waves)کی موجودگی بھی ثابت کی تھی۔اِن لہروں کی خصوصیات کی تشفی بخش تشریح و توجیہ محض ذرات اور اُن کو متاثر کرنے والی قوتوں کے ذریعے نہیں کی جاسکتی تھی۔ تاہم میکانکی تصورِ کائنات ان چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے، انیسویں صدی کے اواخر تک فزکس کی دنیا پر چھایا رہا۔

انیسویں صدی کے آخر میں بعض اہم تجربات کیے گئے جن میں مائکلسن اور مورلے کا تجربہ سب سے مشہور ہوا(Michelson Morley Experiment)۔ اس تجربے نے (جو متعدد بار دہرایا گیا) اس امر کے حق میں قوی بنیاد فراہم کی کہ روشنی کی شعاعوں کو اپنے سفر کے لیے کسی مادّی واسطے(Medium) کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ مطلق خلا میں سفر کرتی ہیں ۔ اس طرح لہروں کا مستقل وجود فزکس کی دنیا کو تسلیم کرنا پڑا یعنی لہروں کو محض ذرات کی حرکت کی منضبط شکل قرار دینا ممکن نہ رہا۔ فزکس کی دنیا ان نئے تجربات و تصورات کی وجہ سے جن سوالات اور چیلنجوں سے دوچار ہوئی ان کا جواب دینے کی متعدد اہلِ تحقیق نے کوشش کی تاہم جس جواب کو اپنے محکم منطقی استدلال اور جامعیت کی بنا پر فزکس کے ماہرین میں قبولِ عام حاصل ہوا وہ جرمنی کے محقق البرت آئن سٹائن (Albert Einstein) کا جواب تھا۔ آئن سٹائن نے اس موضوع سے متعلق سوچنے کے ایک نئے زاویے کا آغاز اپنے ایک علمی مقالے سے کیا جو 1905ء میں شائع ہوا۔

اس مقالے کی بنیاد پر ایک نیانظریہ سامنے آیا جس کی تفصیلات کی صورت گری میں دیگر اہم محققین نے بھی حصہ لیا (تاہم بنیادی خیالات وہی تھے جو آئن سٹائن نے پیش کیے تھے)۔ اس نئے نظریے کو اضافیت یا Relativity کہا جاتا ہے اور اس کو اب فزکس کی دنیا میں قبولِ عام حاصل ہوچکا ہے۔ قدیم فزکس کے بعض بنیادی تصورات کو رد کرنے کے باوجود، یہ نیا نظریہ، انقلابی نہیں کہلایا جاسکتا اس لیے کہ اس نے میکانکی تصورِ کائنات میں توسیع تو یقیناً کی (یعنی ذرات کے علاوہ لہروں کے مستقل وجود کے لیے منطقی بنیاد فراہم کی)۔ لیکن میکانکی تصویر کو رد نہیں کیا۔

چنانچہ خود بخود متحرک کائنات کا تصور (جو خدا کی تدبیر و حکمت کی محتاج نہیں ہے) علیٰ حالہ باقی رہا، اس طرح قوانینِ فطرت کے قدیم تصور کے زیرِ اثر جبریت کی جانب رجحان کو بھی رد نہیں کیا گیا۔ البتہ فزکس کے تصورات میں دوسری تبدیلی بھی بیسویں صدی میں واقع ہوئی، وہ زیادہ قابلِ توجہ قرار دی جاسکتی ہے یعنی نظریہ کوانٹم(Quantum Theory) کی ابتداء۔ قدیم تصورِ کائنات نے ذرات کو کائنات کی اصل شے قرار دیا تھا اور پھر کسی قدر توسیع کرکے لہروں کے مستقل رول کے لیے گنجائش فراہم کرلی تھی لیکن نظریہ کوانٹم کی ابتدا کرنے والوں نے ان دو مظاہر — ذرات اور لہروں کے باہم ارتباط کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں نظریہ کوانٹم ایک مربوط شکل میں سامنے آیا۔

اس نظریے کو ترتیب دینے والوں میں شوڈنگر، ہائزن برگ اور ڈراک (Schrodinger, Heisenberg, Dirac) کے نام سب سے مشہور ہیں ۔ 1925ء میں ان کی تحقیقات منظرِ عام پر آنا شروع ہوگئی تھیں اور چند سال کے اندر کوانٹم نظریہ مرتب شکل میں سامنے آچکا تھا۔ اس کے مطابق پیشین گوئیوں کا اور تجربات و مشاہدات کے ذریعے اس نظریے کی توثیق کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ اپنے عجیب و غریب تصورات کی وجہ سے یہ نظریہ بعض محققین نے کلّی طور پر قبول نہیں کیا (جن میں آئن سٹائن کا نام بھی شامل ہے) تاہم فزکس کے محققین کی اکثریت نے اس نظریے سے اتفاق کیا اور یہ نصابی کتاب کا اہم حصہ بن گیا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوانٹم نظریہ انقلابی ہے اس لیے کہ قدیم فزکس کے تصورِ قانونِ فطرت میں اس نظریے نے اہم تبدیلی کی ہے۔ قدیم فزکس کے مطابق اگر ذرات اور قوتوں کی ابتدائی کیفیت (جس کو Initial Conditionsکہا جاتا ہے) معلوم ہو اور ریاضی کے اصولوں کے تحت حساب کتاب لگانا بھی ممکن ہو تو مکمل صحت کے ساتھ، مستقبل کی کیفیت کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔ (یعنی ذرات کی حرکت کا درست تعین کیا جاسکتا ہے)۔ کوانٹم نظریے میں اس قطعی تعین کی گنجائش نہیں ۔ اس نظریے کے مطابق اول تو پیمائش (Measurement) میں غیر یقینی ہونے کی خاصیت ہمیشہ موجود ہوتی ہے (جسےUncertaintyکہا جاتا ہے) اور پیمائش کو مکمل طور پر یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔

مزید برآں گرچہ پیشین گوئی (Prediction) اس نئے نظریے کے مطابق بھی ممکن ہے لیکن اکثر حالات میں قطعی پیشین گوئی ممکن نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ایک متعین نتیجہ تو نہیں بتایا جاسکتا جو مشاہدات سے برآمد ہوگا البتہ کئی ممکن نتائج(Possible Outcomes) بتائے جاسکتے ہیں اور ان مختلف نتائج میں کس کا کتنا امکان(Probability) ہے اس کا بھی حساب لگایا جاسکتا ہے۔ کوانٹم نظریہ سے جو ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس سے کائنات میں جبریت(Determinism)کی نفی ہوتی نظر آتی ہے۔ چونکہ قوانین فطرت میں پیشین گوئی (Prediction) کی جو غیر محدودصلاحیت، قدیم فزکس نے فرض کرلی تھی، وہ اس نئے نظریے سے مجروح ہوتی ہے اس لیے سمجھ میں آتا ہے کہ مظاہرِ کائنات کی تشریح کے لیے محض قوانینِ فطرت کافی نہیں ۔ اس ادراک کا فلسفیانہ پہلو یہ ہے کہ کائنات کی توجیہ کے لیے مدبر و منتظم ہستی کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہاکنگ (اور اسی طرح الحاد کی جانب مائل دیگر افراد) نے کوانٹم نظریے کے ان مضمرات کو اپنی بحث میں نظر انداز کیا ہے، حالانکہ یہ مضمرات الحاد کے فلسفیانہ محرکات پر کاری ضرب لگاتے ہیں ۔

حیات او ر مظاہرِ حیات

مغربی سائنس سے قبل بھی دنیا کے بہت سے معاشروں میں کائنات کے مظاہر کے باقاعدہ مشاہدے کا اور نظریہ سازی کا کام ہوتا رہا ہے۔ عام طور پر ان سب معاشروں میں موجودات کے اندر درجات کی موجودگی تسلیم کی جاتی تھی۔ مثلاً ابتدائی درجہ جمادات کا تھا یعنی وہ اشیاء (جو انسانی مشاہدے کے مطابق) شعور نہیں رکھتیں ۔جمادات کے ابتدائی درجے سے بالاتر درجہ نباتات کا اور پھر حیوانات کا تسلیم کیا گیا۔ ان میں زندگی اور نمو کی صلاحیت موجود ہے اور جمادات کے مقابلے میں ان موجودات کا مطالعہ کرنے والا، ان میں شعور کی کیفیات بھی پاتا ہے (جس کا مظہر خارجی محرکات کے جواب میں ردِ عمل (Response)کا اظہار ہے)۔

ان سب موجودات سے بلند تر درجہ انسانوں کا ہے جہاں قابلِ مشاہدہ کائنات کا تذکرہ مکمل ہوجاتا ہے۔ اس نظر آنے والی کائنات سے بالاتر عالمِ غیب ہے جس کی موجودگی کو روایتی انسانی معاشرے تسلیم کرتے آئے ہیں ۔مغربی سائنس کی حیرت انگیز جدت یہ ہے کہ اس کا مقبول فلسفیانہ بیان — عالمِ غیب کو تسلیم نہیں کرتا۔ مزید برآں جہاں تک قابلِ مشاہدہ کائنات کا تعلق ہے اُس میں بھی اصلاً موجودات کی درجہ بندی (Hierarchy)اس مغربی سائنس میں تسلیم نہیں کی گئی ہے بلکہ تمام موجودات کو بے جان و بے شعور مادے ہی کی ایک صورت قرار دیا گیا ہے۔ سائنس کی اس کوتاہ بینی کی بنا پر زندگی اوراس کے مظاہر کی توجیہ کرنے میں خاصی دشواری پیش آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جاندار موجودات (یعنی نباتات، حیوانات اور انسان) اُن سب خصوصیات کی حامل تو یقیناً ہیں جو جمادات کے اندر موجود ہیں مثلا ً جگہ گھیرنا اور مادی قوتوں سے متاثر ہونا۔ لیکن ان جاندار موجودات میں بعض امتیازی خصائص بھی ہیں (جو جمادات میں نہیں پائے جاتے)۔

ان امتیازی خصائص میں دو صفات کی حیثیت بنیادی ہے یعنی حیات اور شعور۔ ایک قابلِ مشاہدہ مظہر کی حیثیت سے تو مغربی سائنس حیات اور شعور کا انکار نہیں کرتی لیکن وہ ان کو بے جان مادے کی ہی ایک کیفیت قرار دیتی ہے۔ اس امر کا ادراک مغرب میں نہیں کیا جاسکا ہے کہ حیات اور شعور کا اپنا مستقل وجود ہے اور اُن کو محض مادّے کے روپ (Manifestations) قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مظاہرِ حیات کا مشاہدہ کرنے والا اس حقیقت سے بآسانی واقف ہوجاتا ہے کہ جانداروں کے جسم اُن کے عین مناسبِ حال ہیں اور ان کی ضروریات کو بحسن و خوبی پورا کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جانداروں کے جسمانی و اعصابی نظام میں دوسرے جانداروں کے ساتھ تعامل کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے جس کا نتیجہ جانداروں میں ایسا باہمی تعاون ہے جو ان سب کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ (اس حقیقت کو آج کل Eco System کی اصطلاح کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے)۔

مزید برآں جاندار اپنے قریبی طبعی ماحول سے استفادہ کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں اور ایک حد تک اس کے مضر اثرات کا مقابلہ بھی کرلیتے ہیں ۔ یہ سارے مظاہر اپنی توجیہ چاہتے ہیں۔ عالمِ غیب کے قائل معاشرے ان مظاہر کی توجیہ کے لیے دو حقائق کو پیش کرتے ہیں۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ مدبر وحکیم، خالقِ کائنات نے حیات کو وجود بخشا ہے اور جاندارموجودات کو مناسب حال جسم اور صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ زندہ موجودات، شعور کے کسی نہ کسی درجے کی حامل ہیں اور اس بنا پر یہ موجودات محض بیرونی عوامل سے متاثر نہیں ہوتیں بلکہ اپنے شعور سے کام لے کر خارج پر اثر ڈال سکتی ہیں اور اُن کے اندر اقدام (Initiative)کی قدرت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ خدا کے وجود اور شعورِ حیات کی مستقل حیثیت کو تسلیم کرلیا جائے تو حیات اور مظاہرِ حیات کے محیرالعقول مناظر کی توجیہ آسانی سے ہوجاتی ہے۔ مغربی سائنس نے (سائنس کے موضوعات کے سیاق میں ) عالمِ غیب کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

اسی طرح شعورِ حیات کے مستقل وجود کا (جو محض مادے کی کسی خاص کیفیت کا نام نہیں ہے) ادراک نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے حیات اور مظاہرِ حیات کی موزونیت اور ان کے اندر پائے جانے والے حسن و تناسب کی کوئی تشریح نہیں ہوپاتی۔ مغربی سائنس نے اس توجیہ کے لیے نظریہ ارتقاء کو پیش کیا ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں ڈارون نے اس نظریے کی ابتدائی شکل بیان کی۔ پھر بعد کے محققین نے اس میں اہم اضافے کیے۔ ہاکنگ جیسا ذہین ناقد بھی ارتقاء کا قائل ہے اور ارتقاء کا نظریہ، الحاد کے فلسفے کے لیے سہارے کا کام کرتا رہا ہے۔ تاہم نظریہ ارتقاء کی تین کمزوریاں بالکل واضح ہیں

(الف) یہ نظریہ، حیات کی ابتدا کی توجیہ نہیں کرتا اور نہیں کرسکتا۔ چنانچہ وہ زندگی کی ابتداء کو اتفاقی قرار دیتا ہے (یا یہ خیال پیش کرتا ہے کہ ابتدائی جرثومہ حیات، زمین پر باہر کے اجرامِ فلکی سے آیا تھا، ظاہر ہے کہ اس خیال کے پیچھے کوئی دلیل نہیں )۔

(ب) نظریہ ارتقاء کے مطابق اصل عامل، تغیر (Variation)ہے جو جانداروں کی اندرونی ساخت میں خود بخود ہوتا رہتا ہے اور وہ تغیرات بالآخر باقی رہ جاتے ہیں جن کے لیے ماحول سازگار ہوتا ہے۔ اگر بات یہی ہو تو جانداروں کی ساخت میں ترقی و تنوع کی کیفیت کے ساتھ ساتھ اس کی برعکس کیفیت بھی دیکھی جانی چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

(ج) نظریہ ارتقاء ایک نوع کے افراد میں سے ہر فرد میں ہونے والے تغیرات کا ذکر کرتا ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل میں ان تغیرات کی منتقلی، قانونِ توارث (Heredity Laws) کے مطابق ہوتی ہے پھر ماحول سے سازگاری کرنے والے تغیرات کے بقا کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ توجیہ طبعی ماحول سے متعلق ہے مگر اس سازگاری اور تعاونِ باہمی کی توجیہ نہیں کرتی جو مختلف انواع کے مابین ہوتی ہے۔ انواع کے پورے مجموعے (Eco System) میں بحیثیتِ مجموعی توافق کی توجیہ تو اسی وقت ممکن ہے جب یہ فرض کیا جائے کہ مختلف انواع کا ارتقاء ایک جیسے تغیرات کے نتیجے میں بیک وقت ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مفرـوضہ کی کوئی بنیاد نہیں ۔

خطۂ ارض اور نظامِ شمسی کے درمیان مطابقت

الحاد کے مدعیوں کو دو بڑے سوالات کا سامنا رہا ہے جو الحاد کے فلسفے کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ایک چیلنج کا تعلق جانداروں کی دنیا(Living World)سے ہے۔ مغربی فلسفہ سائنس، زمین پر حیات کی ابتدا کو اتفاقی واقعہ سمجھتا ہے۔ اس اتفاقی واقعے کے بعد مختلف انواعِ حیات کی موجودگی اور طبعی ماحول سے اُن کی ساخت کی مطابقت و سازگاری کی توجیہ کے لیے، مغربی سائنس نے ارتقاء کا تصور پیش کیا ہے۔ تاہم سطورِ بالا میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ارتقاء کا نظریہ اپنے اندر گوناگوں کمزوریاں رکھتا ہے اور زندگی سے متعلق حقائق کی تشفی بخش توجیہ سے قاصر ہے۔ نظریہ ارتقاء کی تاریخ کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ مغرب میں اس کے قبولِ عام کی اصل وجہ نفسیاتی ہے نہ کہ علمی۔

یعنی اس نظریے کو اس لیے مان لیا گیا کہ الحاد کواس کے ذریعے ایک سہارا فراہم ہوجاتا ہے۔ مظاہرِ حیات کے اندر عیاں غیر معمولی حسن و تناسب کے علاوہ الحاد کے فلسفے کے لیے دوسرا چیلنج، نظامِ شمسی اور کرہ ارض کا انسان اور دیگر مخلوقات کے لیے سازگار ہونا ہے۔ مثلاً زمین میں قوتِ کشش موجود ہے۔ اس کشش کی بنا پر جاندار اور انسان، زمین پر آسانی کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں ۔ اگر اس امکان کا جائزہ لیا جائے کہ کششِ ثقل اپنی موجودہ قوت کے مقابلے میں کم ہوجائے تو نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ انسانوں اوردوسرے جانداروں کے لیے آسانی سے نقل و حرکت ممکن نہ ہوگی بلکہ اُن کے ٹھوکر کھانے اور گرجانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اس کی برعکس بات بھی درست ہے۔ اگر بالفرض کششِ ثقل، اپنی موجودہ قوت سے زیادہ ہو تو جانداروں کو حرکت کرنے کے لیے زیادہ مشقت کرنی ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حرکت کر ہی نہ سکیں ۔ زمین کے حالات کی انسان کے لیے سازگاری کی یہ صرف ایک مثال ہے۔

دوسری نمایاں مثال زمین کا سورج سے تعلق ہے۔ زمین پر جو کچھ بھی توانائی موجود ہے وہ سورج سے آتی ہے۔ سورج کوخالق کائنات نے بے پناہ توانائی کا منبع بنایا ہے اور اس کی شعاعیں اس توانائی کو لے کر ہر آن پورے نظامِ شمسی میں پھیل رہی ہیں ۔ زمین بھی اس توانائی سے فیض یاب ہوتی ہے۔ زندگی کا وجود اور بقا اس توانائی پر منحصر ہے۔ اگر سورج میں فیض رسانی کی یہ صلاحیت نہ رکھی گئی ہوتی تو زندگی کا وجود اور تسلسل ممکن نہ تھا۔ یہی حال سورج اور زمین کے درمیانی فاصلے کا ہے جو ایک موزوں فاصلہ ہے۔ اگر کم ہو تو خطۂ ارض ناقابلِ برداشت حد تک گرم ہوجائے۔ اس کے برعکس اگر یہ فاصلہ زیادہ ہوتا تو زمین کا کرہ اتنا ٹھنڈا ہوجاتا کہ یہاں کا سارا پانی جم جاتا اور زندگی کے مظاہر باقی نہ رہ سکتے۔ سورج کی اور بھی مناسبتیں ہیں جن سے سائنس کے طالب علم واقف ہیں ۔

زمین کی گردش اور رات اور دن کا ایک دوسرے کے بعد آنا جانا ایک ایسا واقعہ ہے جو زندگی کے وجود کے لیے ناگزیر ہے۔ جاندار اور انسان نہ تو مسلسل دن کی کیفیت کے متحمل ہیں نہ مسلسل رات اُن کے لیے سازگار ہے۔ ان کے لیے یہی انتظام موزوں ہے کہ رات کے بعد دن آئے اور دن کے بعد رات۔ زمین کی گردش کا ایک نتیجہ موسموں کا الٹ پھیر ہے جس سے انسان کے مصالح( خصوصاً غذا کی فراہمی) وابستہ ہیں ۔ زمین کی اپنے محور پرگردش اتنی منضبط ہے کہ عام حالات میں انسان اس کو محسوس نہیں کرتا (جبکہ ایک معمولی زلزلہ بھی اسے یاد دلادیتا ہے کہ زمین پر اس کی پرسکون معمول کی زندگی خالقِ کائنات کے کرم کا نتیجہ ہے ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ زلزلے مسلسل آتے رہتے)۔

ہر وہ چیز جس کی انسان کو ضرورت ہے وہ خالق نے زمین پر فراہم کی ہے۔ یہاں ہوا کا کرّہ موجود ہے جو زمین کی کشش کی بنا پر زمین سے جدا ہوکر خلا میں گم نہیں ہوجاتا۔ جبکہ کائنات میں بہت سے سیارے اور اجرام ایسے ہیں جہاں کرہ باد سرے سے موجود ہی نہیں ۔ کہیں بعض گیسیں موجود ہیں مگر زندگی کی بقا و نمو کے لیے ناسازگار ہیں ۔ ہوا کی طرح زمین پر پانی بھی فراہم کیا گیا ہے اور بارش کے حیرت انگیز نظام کے ذریعے یہ پانی مسلسل گردش میں رہتا ہے اور انسانی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ زمین میں فصل اگانے اور جانداروں کو غذا فراہم کرنے کی صلاحیت رکھی گئی ہے۔ اس طرح معدنیات کا ذخیرہ زمین کے اندر موجود ہے جو انسان کے کام آتا ہے۔ الحاد کے قائلین کے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ اگر کوئی خالق و مدبر ہستی موجود نہیں ہے جس نے کائنات کو تخلیق کیا ہو تو پھر یہ سارے انتظامات کس نے کیے ہیں ؟

اس سوال کے جواب میں جس طرح حیات کی توجیہ کے لیے ارتقاء کا نظریہ تراشا گیا ہے اسی طرح زمین اور نظامِ شمسی کی موزونیت کی توجیہ کے لیے ملحدین، اتفاق (Chance) کو بطورِ جواب، پیش کرتے ہیں ۔ اُن کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں بہت بڑی تعداد میں سورج موجود ہیں (یعنی ستارے)۔ اُن میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے ساتھ (ہمارے نظامِ شمسی کی مانند) سیاروں کا نظام بھی ہے۔ چنانچہ سیاروں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد کا ئنات میں موجود ہے۔ ان سیاروں میں ایک ایسا ہے (یعنی ہمارا کرّہ ارض) جہاں محض بخت و اتفاق سے وہ تمام اسباب جمع ہوگئے ہیں جن کے باعث یہ سیارہ جانداروں اور انسانوں کے لیے سازگار ہوگیا ہے۔ ہاکنگ اس جواب کی طرف مائل ہے۔ لیکن ہر دیانت دار مشاہد دیکھ سکتا ہے کہ یہ کوئی معقول جواب نہیں بلکہ محض فرار کی راہ ہے جو اپنے موقف کی کمزوری کو چھپانے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔

قوانینِ فطرت کی نوعیت

الحاد کے مدعیوں کو درپیش دو بڑے چیلنجوں کا ذکر سطورِ بالا میں کیا جاچکا ہے۔ یعنی حیات اور مظاہرِ حیات کی توجیہ کا مسئلہ اور زمین کے حالات کی انسان کے لیے سازگاری کا مسئلہ۔ ملحدین پہلے چیلنج کے جواب میں ارتقاء کے نظریے کو اور دوسرے کے سلسلے میں اتفاق کے تصور کو پیش کرتے ہیں ۔ ملحدین کے ان جوابات کی کمزوری بالکل واضح ہے۔ تاہم فلسفہ الحاد کے قائلین کو ایک تیسرے چیلنج کا بھی سامنا ہے جو مذکورہ بالا دو سوالات کے مقابلے میں شدید تر ہے۔ ہاکنگ نے اس چیلنج کا بھی تذکرہ کیا ہے بلکہ اس کی کتاب کا نقطہ عروج یہی ہے۔اس چیلنج کا تعلق، کائنات اور اس کے کسی خاص گوشے کے حالات سے نہیں ، بلکہ خود قوانینِ فطرت سے ہے۔ اب تک مغربی سائنس کی دنیا یہ سمجھتی آئی ہے کہ ان فطری قوانین کی نوعیت آفاقی ہے یعنی یہ کائنات کے ہر گوشے میں یکساں برسرکار ہیں ۔

اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ان قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ اگر حالات و ماحول کی انسانوں کے لیے سازگاری کی کوئی توجیہ کر بھی لی جائے تب بھی قوانینِ فطرت کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے لیے بالخصوص اور تسلسلِ وجود و تسلسلِ حیات کے لیے بالعموم، سازگار ہیں یا ناسازگار؟ طبعی حالات اور قوانینِ فطرت کے اس فرق کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ موجودہ اندازے کے مطابق زمین میں مادّے کی مقدار اور اس کی جسامت ایسی ہے کہ اگر سطحِ زمین پر کوئی گیند ایک کلومیٹر کی اونچائی سے گرائی جائے تو اسے سطح زمین تک پہنچنے میں 14 سیکنڈ لگیں گے۔ اگر ہم سوچیں کہ زمین کی جسامت جتنی ہے اتنی ہی رہے البتہ اس میں موجود مادے کی مقدار دگنی ہوجائے تو گیند کے گرنے کا یہ وقت بھی دگنا ہوجائے گا یعنی گیند کو سطحِ زمین تک آنے میں 28 سیکنڈ لگیں گے۔

اس سارے حساب کی بنیاد کششِ ثقل کے قوانین پر ہے جن کو نیوٹن نے وضاحت سے بیان کیا تھا۔ اس قانون کا نتیجہ (مثال کے طور پر) یہ ہے کہ زمین کو سورج کے گرد چکر لگانے میں تقریباً نو ہزار گھنٹے کا عرصہ لگتا ہے۔ سائنس داں یہ سمجھتے ہیں کہ کششِ ثقل سے متعلق فطری قوانین بدلا نہیں کرتے چنانچہ جب تک ہم ایسے سورج کا تصور نہ کریں جس میں مادے کی مقدار (موجود ہ مقدار سے) مختلف ہو اس وقت تک زمین کو سورج کے گرد چکر پورا کرنے میں یہی نو ہزار گھنٹے کا عرصہ لگے گا۔ اس مدت کو کم یا زیادہ کرنے کی کوئی صورت نہیں ۔ البتہ ہم اپنے تخیل کو حرکت دے کر ایسی کائنات کا تصور بھی کرسکتے ہیں جہاں سرے سے کششِ ثقل کا موجودہ قانون ہی بدل جائے۔

یعنی (بطورِ مثال) زمین کی جسامت اور اس میں مادے کی مقدار تو وہی رہے (جو اس وقت ہے) لیکن کشش کا قانون اس طرح بدل جائے کہ ایک کلومیٹر بلندی سے گرنے والی گیند صرف دس سیکنڈ میں سطحِ زمین تک پہنچ جائے (نہ کہ 14 سیکنڈ میں جیسا کہ موجودہ قانون کشش پیشین گوئی کرتا ہے)۔ صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ بالا کششِ ثقل کے قانون کی طرح، معلوم قوانینِ فطرت بہت سے ہیں اور اُن سب کے بارے میں (اپنے تخیل کی دنیا میں ) ہم سوچ سکتے ہیں کہ وہ قوانین بدل جائیں تو کائنات کیسی ہوجائے گی؟ ہاکنگ کا تجزیہ یہ ہے (جس سے دوسرے سائنس داں بھی اتفاق کرتے ہیں ) کہ قوانین میں معمولی تبدیلی بھی کائنات کو وجود اور حیات کے لیے ناسازگار بنادے گی۔ قوانینِ فطرت کے بارے میں اس ادراک کے بعد یہ سوال شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آجاتا ہے کہ قوانین فطرت کی اس موزونیت و سازگاری کی توجیہ کیا ہے؟ کیا خدائی منصوبے کے علاوہ اس کی کوئی توجیہ کی جاسکتی ہے؟

ہاکنگ نے اس کا جو جواب دیا ہے وہ ملحدین کی ہٹ دھرمی کا شاہکار ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ جس کائنات سے ہم واقف ہیں او ر جس کا مشاہدہ کررہے ہیں ، وہ واحد کائنات نہیں بلکہ اور بھی بہت سے کائناتی نظام موجود ہیں ، البتہ ہم اُن کا مشاہدہ نہیں کرسکتے۔ (بات صرف اتنی نہیں کہ اس وقت اُن کا مشاہدہ نہیں کرسکتے بلکہ ہاکنگ کہتا ہے کہ کبھی نہیں کرسکتے۔ وہ ہماری دسترس سے باہر ہیں اور ہمیشہ باہر ہی رہیں گے)۔ بہت بڑی تعداد میں موجود ان نظاموں میں ہرکائناتی نظام اپنے جداگانہ قوانین رکھتا ہے۔ ان سب میں محض اتفاق سے ایک کائنات ایسی ہے(جہاں ہم موجود ہیں ) جہاں کے قوانین، وجود اور حیات کی نیرنگیوں کے لیے سازگار ہیں ۔ چنانچہ یہاں بے جان اور جاندار،دونوں طرح کی موجودات کا وجود پایا جاتا ہے۔ باقی ہر کائنات، وجود اور حیات سے خالی ایک ویران نظام ہے۔ (یہ الگ بات ہے کہ اس کے خالی اور ویران ہونے کا بھی ہم مشاہدہ نہیں کرسکتے۔)

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاکنگ کی کتاب کا مطالعہ قاری کو اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ سائنسی حقائق کی جو معرفت اس وقت محققین کو حاصل ہے وہ الحاد کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ اب اگر ملحدین خدا کے وجود کے انکار پر مصر ہیں تو اس کی وجہ سائنسی دلائل نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا سچے مذہب سے ناواقف ہونے کی بنا پر، خود مذہب ہی سے خائف ہیں اس لیے خدا کو نہیں ماننا چاہتے۔ان حالات میں خدا پر ایمان رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ الحاد سے متاثر افراد کے ضمیر کو بیدار کریں تاکہ وہ خواہشات کی بندگی سے نکل کر روشنی میں آسکیں ۔ اس طرح ان سارے افراد کے سامنے اللہ کے نازل کردہ دین کا حقیقی تعارف پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ دین انسانی زندگی میں عدل کا ضامن ہے اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply