این اے 243 اور پی ایس101۔۔۔کمیل اسدی

2013 میں پہلی بار ووٹ دیا صورتحال یہ تھی گرین ٹری سکول گلشن اقبال میں لمبی لمبی لائنز لگی ہوئی تھیں۔ دھکم پیل جیسا ماحول تھا لائن کے شروع میں متحدہ کے نمائندگان اشاروں سے اپنے لوگوں کو لائن سے بلوا کر ترجیحی بنیادوں پر ووٹ ڈالنے کے لئے اندر بھیج دیتے تھے۔ ووٹ تو ہم نے بھی بھگتا لیا لیکن بہت سے لوگ لائنز میں ہی رہے اور وقت ختم ہو گیا۔ ماحول ایسا تھا کہ ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی بھی ووٹر کھلے عام یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں بیٹ کو ووٹ دینے آیا ہوں۔ میں نے سرگوشیوں سے لائن میں کھڑے جتنے جوانوں   سے پوچھا سب نے بیٹ کا اشارہ دیا جب رزلٹ آیا تو پی ٹی آئی ہار گئی۔ اسی پولنگ سٹیشن پر ہوائی فائرنگ کا بھی واقعہ رونما ہوا ۔
ہماری ایک عزیزہ سولجر بازار میں پولنگ ایجنٹ تھیں شام 5 بجے 2 لڑکے ٹی ٹی لے کر آئے خواتین سے کہا کہ آپ کا احترام کرتے ہیں آپ دوسرے کمرے میں چلیں جیسے ہی وہ کمرے میں گئیں باہر سے کنڈی لگا دی اور دھڑا دھڑ ایک گھنٹہ پتنگ پر ٹھپے لگانے کے بعد رفو چکر ہوگئے۔
آج وہی گرین ٹری سکول تھا سیکورٹی کے انتظامات دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ پولنگ سٹیشن کے باہر ہر پارٹی کے کیمپ لگے ہوئے تھے کوئی خوف اور ڈر کا ماحول نہیں تھا۔ سخت چیکنگ کے بعد ہی بغیر موبائل کے اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ آرمی کے مستعد جوانوں کے سوا اینکی پھینکی کرنے والے کسی شخص کے دور دور تک کوئی نشانات نہیں تھے۔ صرف 3،4 منٹ میں ہی مرد حضرات ووٹ بھگتا کر فارغ ہوگئے۔
سب سے زیادہ رش پی ٹی آئی اور پی پی پی کے کیمپس پر دیکھنے کو ملا۔ تحریک لبیک اور ایم ایم اے پر نہ  ہونے کے برابر حمایتی نظر آئے۔ ن لیگ کا کوئی کیمپ نظر نہیں آیا۔ سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ جن کا ایک زمانے میں طوطی بولتا تھا یعنی پتنگ ان کا کیمپ بھی سائیں سائیں اور بھائیں بھائیں کررہا تھا۔۔یقین نہ آئے تو ویڈیو دیکھ لیں ۔
خواتین کی اتنی کثیر تعداد کبھی دیکھنے کو نہیں ملی اس لئے خاتون ووٹر کو 10، 15 منٹ کے بعد ہی ووٹ کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ لائن میں خواتین سے میں نے کہا کہ اس دفعہ خواتین بہت زیادہ آئی ہیں تو ایک خاتون نے کہا کہ اب ہم میں شعور آ گیا ہے۔ میں نے شرارتاََ کہا عمران خان کی وجہ سے سب آئی ہوں گی تو کئی خواتین کے چہروں پر امڈتی ہلکی مسکراہٹ دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ تبدیلی آ نہیں  رہی  بلکہ تبدیلی آ چکی ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ این اے 243 سے عمران خان سخت مقابلہ کے بعد شہلا رضا کو شکست دے گا جبکہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم اچھا مقابلہ کرے گی۔ تحریک لبیک ، اللہ اکبر تحریک اور آزاد امیدوار صرف ووٹ ضائع کریں گے۔ شیر کی ضمانت ضبط ہو جائے تو کوئی دھاندلی کا الزا م نہیں لگائے کیونکہ کیمپ بھی نہیں تھا اور کوئی سپورٹر بھی نظر نہیں آیا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بلے، پیپلزپارٹی کی امیدوار شہلا رضا کو تیر اور ایم کیوایم کے علی رضا عابدی پتنگ کے نشان پر میدان میں ہیں۔
ایم کیوایم کے کورنگ امیدوارخواجہ اظہار آزاد حیثیت میں موجود ہیں، اور انہیں چارپائی کا نشان الاٹ کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم حقیقی کے سید کامران علی رضوی اور ایم ایم اے کے اسامہ رضی اور پاکستان سرزمین پارٹی کے مزمل قریشی بھی اسی حلقہ سے امیدوار ہیں۔
پی ایس 101 سے 20 سے زائد امیدوار میدان میں اترے ہوئے ہیں قوی امید ہے کہ اصل مقابلہ تحریک انصاف  ، پی پی پی  کے ایوب کھوسہ اور ایم کیو ایم کے ہارون صدیقی کے درمیان ہوگا اور تحریک انصاف کے سید فردوس نقوی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ ایم ایم اے کے بابر قمر عالم  اور پی ایس پی کے محمد سلمان  ایک اچھی خاصی تعداد حاصل کرنے کے باوجود ہار جائیں گے۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply