ننّھے پھول مساجد میں۔۔مرزا مدثر نواز

انسانی فطرت ہے کہ اسے اپنے پوتے‘ پوتیوں اور نواسے‘ نواسیوں سے بہت زیادہ محبت ہوتی ہے‘ اس نے شاید کبھی اتنا پیار اپنے بیٹے‘ بیٹیوں سے نہ کیا ہو جتنا وہ اپنے بچوں کی اولاد سے کرتا ہے‘ وہ ضرور یہ کوشش کرتا ہے کہ ان کی ہر جائز خواہشات کو پورا کرے۔ علمائے کرام سے آپ یہ وعظ اکثر سنتے ہوں گے کہ ہمارے رہبر کاملﷺ نے بچوں کے ساتھ شفقت و نرمی وپیار سے پیش آنے کی تلقین فرمائی‘ سرداران جنتؓ سے نبی رحمت کی محبت کی روایات بھی منبر سے اکثر سننے کو ملتی ہیں جیسا کہ ”ایک دفعہ حبیب اللہ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے‘ دیکھا کہ حضرت حسنؓ صفوں کو پھلانگتے ہوئے آ رہے ہیں  اورایک جگہ گر گئے‘ آپ نے خطبہ چھوڑا‘ حضرت حسن کو اٹھایا‘ سینے سے لگایا اور دوبارہ خطبہ دینا شروع کر دیا“ خطبہ کے آداب میں یہ ہے کہ چاہے کوئی چودھری‘ وڈیرہ‘ صنعت کار‘ سرمایہ دار یا کتنے ہی مرتبے والا کیوں نہ ہو‘صفوں کو نہ پھلانگے‘ جہاں جگہ ملے‘ بیٹھ جائے اور خاموشی سے خطبہ سنے لیکن بچے تو بچے ہیں۔ ”

ایک دفعہ صحابہ کرامؓ نے مشاہدہ کیا کہ نبی رحمت ﷺ   نے نماز میں سجدہ بہت ہی لمبا کر دیا‘ انہوں نے گمان کیا کہ شاید سجدے  میں ہی اللہ کی طرف سے وحی کا نزول ہونا شروع ہو گیالیکن اصل وجہ یہ تھی کہ سجدہ کے دوران حضرت حسینؓ آپ کی پیٹھ مبارک پر سوار تھے“۔ ”

ایک دن رحمت دوجہاں مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے‘ ایک زانو پر حضرت حسین اور دوسرے زانو پر حضرت اسامہ بیٹھے تھے اور آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں میری خوشبوئیں ہیں“۔

ایک دفعہ ختم الرسلﷺ نماز پڑھانے جا رہے تھے کہ نواسی امامہ نے ساتھ جانے کی بہت زیادہ ضد کی‘ آپ نے نواسی کو اٹھایا‘ مسجد گئے اور جماعت کرانا شروع کر دی‘ جب سجدے میں جاتے تو ایک طرف کھڑا کر دیتے اور قیام میں دوبارہ اٹھا لیتے“۔

ان واقعات کے علاوہ متعدد روایات ہیں جو آپ سنتے رہتے ہیں۔
مملکت خداداد پاکستان میں ایک طرف تو منبر سے ایسی روایات سننے کو ملتی ہیں جبکہ دوسری طرف اگر مسجد میں دوران نماز کسی بچے کی آواز کانوں میں پڑ جائے تو یکدم امام مسجد و نمازیوں کا پارہ بلند سطح پر پہنچ جاتا ہے کہ ان کے خشوع و خضوع میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ بچہ اگر مربیّ کے ساتھ ہے تومربیّ کو بے عزت کیا جاتا ہے کہ ایسی گستاخی دوبارہ نہ کرنا اور اگر اکیلا ہے تو ایک دو تھپڑوں کا اسے سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر کوئی تھوڑی سی ہمت کر کے    احادیث کا حوالہ دے دے کہ آپﷺ نے تو کبھی بچوں کو مسجد آنے سے منع نہیں کیاتو پھر کِبر جوش مارے گا کہ میں عالم‘ امام‘ مسجد کا خادم اور یہ جاہل و دو وقت کا نمازی مجھے اخلاق نبوی اور احادیث کا حوالہ دے گا؟

ہمارے معاشرے میں چونکہ امام مسجد کا بہر حال احترام موجود ہے لہٰذا ہر کوئی بنا سنے‘ سوچے‘ سمجھے‘ آپ کو ہی کوسے گا کہ قصور تمہارا ہی ہے‘ نتیجتاََ بچے کے ساتھ ساتھ مربیّ کو بھی مسجد سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ کسی کی پرائیویٹ پراپرٹی نہیں بلکہ خالق کائنات کا گھر ہے‘ علم و فضل‘ عفو و درگزر ہار جاتا ہے اور جھوٹی انائیں بازی لے جاتی ہیں۔ جس مسلمان کو شریعت نے حتی الوسع مسجد میں نماز ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے وہ بے چارہ گھر میں نماز پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر بچہ امام مسجد‘ مسجد کمیٹی کے کسی ممبر یا کسی با اثر شخصیت کا ہو تو پھر شور‘ شور نہیں لگتا اور کسی بھی نمازی کے خشوع و خضوع میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انسانی فطرت ہے کہ اسے غصہ ہمیشہ اپنے سے کمزور پر ہی آتا ہے۔

چھوٹے بچوں کو مسجد میں جانے کا بہت شوق ہوتا ہے اور ہر کسی کو بچپن میں یہ شوق لازمی ہو گا۔ ہماری قریبی مسجد میں زیادہ تر پکے نمازی بڑی سخت طبیعت کے مالک تھے (اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے) اور مجھ جیسے چھوٹے بچوں کو بعض اوقات بغیر کسی وجہ کے بھی مسجد میں آنے پر ان کے تھپڑوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کوئی مسجد میں آئے نہ آئے‘ ہمیں تو بس اپنی نماز کی فکر ہے اور ہم حقوق اللہ ادا کر کے خود کو جنت کا مستحق تصور کرتے ہیں جبکہ حقوق العباد تو ہماری ترجیح میں شامل ہی نہیں ہیں۔ اگر حقوق العبا د کی ہمارے ہاں کوئی ادنیٰ سی بھی اہمیت ہوتی تو کوئی بھی مسلمان بہنوں کا وراثت میں سے حصہ کھانے کی ہمت نہ کرتا۔

مرشد کاملﷺ کا ہر ہر عمل امت کے لیے رہنمائی و مشعل راہ ہے‘ لہٰذا بچوں کو مسجد میں دیکھ کر ہمارے امام صاحبان و بزرگ حضرات کا نامناسب رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس کے علاوہ تعمیری تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت نہ کرنے اور ہر بات کو بزور بازو منوانے کا رویہ اس بات کو تقویت بخشتا ہے کہ مسلمان تو ایک تشدد پسند قوم ہے۔ حالانکہ یہ تو اتنا پیارا مذہب ہے کہ جس میں کوئی بھی احتساب سے بالا تر نہیں ہے‘ خلیفہ وقت یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا ہے کہ تم کون ہوتے ہو خلیفہ سے سوال پوچھنے والے‘ بلکہ سوال پوچھنے والے کو یہ جواب دیا جاتا ہے کہ جیسا آپ خیال کر رہے ہیں‘ ویسا نہیں ہے اور حقیقت دراصل یہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مذہب میں بادشاہت و شخصیت پرستی کی کوئی گنجائش نہیں‘ یہاں کوئی برہمن و شودر نہیں بلکہ مساوات ہے‘ ہاں اگر کسی کو دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ترکی کی مساجد کی تصاویر میں بچوں کے لیے ایک علیٰحدہ جگہ بھی مختص نظر آتی ہے جہاں وہ کھیل کود جیسے مشاغل سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ وہاں یہ بھی مشہور ہے کہ اگر پچھلی صفوں میں بچوں کی شرارتوں کی آوازیں نہ آئیں تو آپ کو اپنی آئندہ کی نسل کی فکر کرنی چاہیے۔کاش کبھی یہاں بھی ہمیں ایسا دیکھنے کو ملے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply