• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان میں فورتھ شیڈول کا غیرمنصفانہ استعمال اور عوامی خدشات۔۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان میں فورتھ شیڈول کا غیرمنصفانہ استعمال اور عوامی خدشات۔۔۔شیر علی انجم

محترم قارئین جیسا کہ آپ سب اس بات سے بخوبی آ گاہ ہیں کہ مملکت پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے خصوصی طور پر قوانین بنایا گیا  جس میں نیشنل ایکشن پلان اور فورتھ شیڈول شامل ہیں۔ فورتھ شیڈول کا اصل مقصد جو میڈیا کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا اس قانون کے ذریعے ملک میں دہشت گردی ، بدامنی اور فرقہ واریت کی روک تھام کیلئے ملک بھر سے کالعدم تنظیموں کے فعال کارکنوں ،مشتبہ دہشت گردوں اورخلاف قانون سرگرمیوں میں ملوث افراد کے نام انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت’’ فورتھ شیڈول‘‘ میں شامل اور ان کا گھیرا تنگ کرنا تھا ۔

امن وا مان کی بحالی کے لئے ملک میں رائج دیگرمختلف قوانین میں صوبوں کو فورتھ شیڈول کا بھی اختیار حاصل ہے۔جس کا بنیادی مقصد ملک سے کسی بھی قسم کی دہشتگردی اور مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنا تھا۔ فورتھ شیڈول کے تحت وہ تمام لوگ جو کسی نہ کسی طرح کسی بھی مذہبی جہادی یا دیگر تکفیری سوچ کے  حامل ہوں ، اُن کی سرگرمیاں مشکوک ہیں یا  وہ تشدد میں ملوث ہیں، یا تشدد پسند افراد کے حامی یا سرپرست ہوں ، ایسے افراد کی مکمل چھان بین کرکے اس قانون کے تحت واچ لسٹ میں ڈالا جاتا ہے۔ فورتھ شیڈول کی لسٹ میں شامل افراد ایک لحاظ سے آزاد ہوتے ہوئے بھی قید ہوتے ہیں کیونکہ ان کو روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ تھانے رپورٹ کرنا ہوتا ہے ۔ اگر وہ کسی دوسرے شہر جانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے علاقے کے تھانے میں اطلاع دینا ضروری ہوتا ہے۔ اور جب کسی شہر میں جائیں تو اس شہر کے تھانے کو اطلاع دیں کہ وہ کس کام سے آئے ہیں۔ کس کے پاس ٹھہرے ہیں اور جب واپس اپنے علاقے میں جائیں تو اپنے علاقے کے تھانے کو آگاہ کرے کہ وہ اتنے دن کہاں اور کس مقصد کے لیے گئے تھے؟ اور یہ کارروائی غیرمعینہ مدت کے لیے چلتی رہتی ہے۔ مذکورہ بالا حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو فورتھ شیڈول میں شامل ہر شخص کی زندگی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔

جب ہم گلگت بلتستان کے تناظر میں اس قانون کو دیکھتے ہیں تو اس وقت معاشرے میں سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس خطے میں اس قانون کا نفاذ ہی مشکوک ہے اور عوامی ایکشن کمیٹی سے لیکر متحدہ اپوزیشن سمیت دیگر سیاسی اور سماجی جماعتوں نے اس قانون کو گلگت بلتستان کے تناظر میں کالا قانون قرار دیا ہے۔اُنکا کہنا ہے کہ اس قانون کے نفاذ کا مقصد صرف اور صرف ستر سالہ محرومیوں کے حوالے سے آواز بلند کرنے والے پُرامن شہریوں کو اُن کے بنیادی حقوق سے دور رکھنا ہے۔ جب سے گلگت بلتستان میں عام لوگوں پر فورتھ شیڈول نافذ کیا ہے عوام کی طرف سے یہ بھی سوال اُٹھایا جارہا ہے۔ ایک طرف خطے میں نیشنل ایکشن پلان اور فورتھ شیڈول نافذ ہیں دوسری طرف پاکستان کے مختلف شہروں سے کئی بار  کالعدم  مذہبی انتہا پسند جماعتوں کی جانب سے کبھی پاکستان کا نام استعمال کرکے کبھی اسلام کے نام پر کئی اضلاع میں بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد بھی کیا گیا۔ لیکن مسلم لیگ نون کی حکومت خاموش تماشائی بنی  رہی  اور جن کے خلاف یہ قوانین بنایا تھا اُنہیں گلگت بلتستان میں کھلاچھوڑ دیا گیا بلکہ حکومتی سطح پر سکیورٹی فراہم کی گئی۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے اس دوہرے معیار پر سوشل میڈیا پر اُنہیں جب سے اُنکی حکومت آئی ہے شدید تنقید کا سامنا ہے ۔عوام یہاں تک کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کا وزیر اعلیٰ انتہائی متعصب شخص ہے اور ماضی میں گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینے میں اُنکا کردار کسی سے ڈھکی چھپُی بات  نہیں ، مگر آج موصوف چونکہ اقتدار میں ہیں ، لہذا وہ اپنی   منفی قوتوں   کو سیاسی طریقے سے خاص مسالک اور علاقوں کے خلاف اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے استعمال کررہا ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان میں فورتھ شیڈول میں افراد کو شامل کرنے کی فہرست صوبائی حکومتیں تیار کرتی ہیں  اور گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے ماضی میں کئی ایسے علمائے کرام کو بھی فورتھ شیڈول میں شامل کرایا گیا  جن کا معاشرتی ترقی اور گلگت بلتستان میں فروغ تعلیم کیلئے بہت  اہم کردار رہا ہے۔ اُس وقت عوام کی طرف سے احتجاج کرنے پر یہی کہا گیا کہ یہ کام اسلام آباد کی طرف سے کیا گیا ہے اس میں گلگت بلتستان کی  مقامی حکومت کا کوئی کردار نہیں لیکن بعد میں نیکٹا کی طرف سے کہا گیا کہ فورتھ شیڈول کی  لسٹ مقامی حکومت فراہم کرتی ہے اور ہم اُنکی  سفارش کی بنیاد پر افراد کو واچ لسٹ میں ڈالتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں مسلم لیگ نون کی حکومت نے حال ہی میں گلگت بلتستان کے کئی درجن مزید افراد کو فورتھ شیڈول میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے جس میں عوامی حقوق کیلئے صف اول کے لیڈر ممتاز عالم دین سیکرٹیری جنرل متحدہ مجلس وحدت المسلمین آغا سید علی رضوی سمیت کئی ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اس وقت کالج کے اسٹوڈنٹ ہیں کوئی سوشل ایکٹیوسٹ ہیں کوئی قانون دان ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے افراد کا بھی نام فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے جنکا کسی سیاسی سماجی اور مذہبی تنظیم سے کوئی تعلق ہی نہیں۔اس حوالے سے راقم نے عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے چیرمین مولانا سلطان رئیس سے خصوصی ملاقات کی اور اُن سے اس حوالے سے سوال کیا تو اُنکا کہنا تھا کہ یہ قانون مقامی حکومت کی جانب سے صرف اور صرف عوامی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والوں کو خاموش کرانے کی ایک گھناونی سازش ہے اور اس سازش میں حکومت کے اہم عہدے دار ملوث ہیں ،جنہوں نے مکمل طور پر چھانٹی کرکے اُن تمام فراد کو شامل کیا ہے جو  کسی نہ کسی حوالے سے عوامی ایکشن کمیٹی اور گلگت بلتستان کی ستر سالہ محرمیوں کے خلاف مختلف فورم پر جدوجہد کی کوشش میں  ہیں۔ اُنکا کہنا تھا کہ جس طرح سے حفیظ  سرکار نے جن افراد کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی سفارش کی ہے اصولی طور میرا بھی نام شامل ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ میں عوامی ایکشن کمیٹی کو لیڈ کررہا ہوں اور اس وقت مقامی اور غیرمقامی بیوروکریسی کو عوامی ایکشن کمیٹی سے ہی سب سے زیادہ خوف ہے۔

اُنہوں نے انکشاف کیا ہے کہ میرا نام شامل کئے بغیر صرف بلتستان سے عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما آغا علی رضوی کو شامل کرنے کی سفارش کرنے کا مقصد نون کی حکومت گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کو مزید ہو ا دیکر عوام کو منتشر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ میرا تعلق اہلسنت سے ہے اور میں چیئرمین ہوں اور آغا علی رضوی کا تعلق چونکہ مسلک اہل تشیع سے ہے لہذا عوام میں یہ تاثر دینے کی مذموم کوشش کی ہے کہ اہل سنت کے قائد نے اہل تشیع کے قائد کے خلاف سازش کرکے خود کو اس کالے قانون سے بچالیا۔ اسکے علاوہ اگر ہم گلگت بلتستان میں فورتھ شیڈول کی تاریخ پڑھیں تو پہلے مرحلے میں قومی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے صحافیوں کو اس قانون کے تحت خاموش کرانے کی کوشش کی جس میں بانگ سحر اخبار اور گلگت بلتستان کا تعلیم یافتہ صحافی دولت جان المعروف ڈی جے مٹھل اور اُن دیگر ادارتی ساتھیوں کو فورتھ شیڈول میں شامل کرایا اور بانگ سحر اخبار پر پابندی لگا دی اور ڈی جے مٹھل اس وقت سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اُس وقت صرف مخصوص افراد نے اس حوالے کی کوشش کی تو کہا گیا کہ یہ ملک دشمن ہیں اُنکا پاکستان مخالف قوتوں کے ساتھ رابطے ہیں جیسے   الزمات لگائے اور اس خطرناک الزام کے بعد صحافتی برادری سمیت تھوک کے دام پر موجود پریس کلب اور صحافتی تنظیموں نے بھی اُنکی حمایت میں بولنا چھوڑ دیا۔اس سے بھی خوفناک المیہ یہ ہے کہ آج جن افراد کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالا ہے اُن میں سے  زیادہ تر افراد کا کسی بھی مذہبی جماعت سے تعلق نہیں حالانکہ اس قانون کااصل مقصد مذہبی انتہاء پسندی کا راستہ روکنا ہے لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ گلگت بلتستان میں آج بھی صرف حقوق کی بات کرنے والوں اور خطے کی متنازعہ حیثیت اور مسلہ کشمیر پر مملکت پاکستان کے  موقف کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے بنیادی مسئلے کے  حل کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو اس شکنجے میں قید کیا گیا ہے جو کہ مستقبل قریب اور بعید میں خوفناک صورت حال اختیار کرسکتا ہے۔ یہاں تک سُننے میں آیا ہے کہ گلگت کے ایک ہوٹل میں عوامی ایکشن کمیٹی اپنے پروگرامز وغیرہ کرتے ہیں اور اُس ہوٹل کے مالک کو جو بزرگ ہیں اُنہیں بھی حفیظ سرکار نے دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کرا کر فورتھ شیڈول میں شامل کرایا تاکہ مستقبل میں کوئی عوامی ایکشن کمیٹی جیسے تنظیموں کیلئے پلیٹ فارم فراہم کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔

یہاں یہ بات بھی انتہائی دلچسپ اور حیران کن ہے کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق حفیظ الرحمن نے اقرار کیا ہے کہ فورتھ شیڈول میں کچھ افراد کو سیاسی بنیادوں پر شامل کیا ہے۔اس سے بھی تعجب کی بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان پر مرکوز دشمن کی کڑی نظروں کو مدنظر رکھتے ہوئے اورخطے کے عوام کا تمام تر بنیادی حقوق سے محروم ہونے کے باوجود پاکستان کیلئے  مر مٹنے کی قسموں اور افواج پاکستان کی سلامتی کیلئے اپنی  روز مرہ   اسلامی تقریبات میں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دعاکرنے والوں کے ساتھ یہ کیوں کیا جارہا ہے؟ اور کس کے اشارے پر کیا جارہا ہے؟ کم از کم جوٹیال میں موجود ایف سی این کے کمانڈر کو چاہیے کہ حفیظ الرحمن سے جواب طلب کریں۔اُن پوچھا جانا چاہیے  کہ اُنہوں نے کس قانون کے تحت گلگت بلتستان کے پُرامن اور پاکستان سے بے لوث محبت کرنے والے شہریوں کو دہشت گرد بنا کر فورتھ شیڈول میں شامل کرایا۔ارباب اختیار کو اس حوالے سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اب زمانہ وہ نہیں رہا کہ ایک خبر مقامی اخبارات میں چھاپنے سے روک دیا تو معاملہ دب جائے ۔آج ہم اکیسویں صدی میں ہیں اور دنیا تیز ہوچُکی ہے سوشل میڈیا کو کسی بھی طرح روکا نہیں جاسکتا اور آج گلگت بلتستان کے لوگ سوشل میڈیا پر انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے باوجود سراپا احتجاج نظر آتے ہیں  ۔ جس کی اصل وجہ مسلم لیگ نون کی حکومت کے وہ رویے ہیں جس سے معاشرے میں انتشار پھیل رہا ہے ۔جو لوگ کل تک گندم سبسڈی کو حقوق سمجھ کر خوش تھے آج وہ بھی کہتے نظر آتے ہیں  کہ ہماری ستر سالہ محرمیوں کا ازالہ کون کرے گا؟ ہمیں کس جرم میں ووٹ کے حقوق سے محروم رکھا ہے،کیا قصور ہےکہ گلگت بلتستان میں ترقی اور تعمیر کے دروازے بند ہیں ؟کیا وجہ ہے کہ یہاں بین الاقوامی سیاح کومختلف اضلاع میں آنے سے روکا جارہا ہے۔ ایسی کونسی دہشت گردی یہاں ہوئی ہے جس کی  پاداش میں یہاں کے مختلف تجارتی راستے بند ہیں جبکہ واہگہ سے بھارت کیلئے ٹریڈ کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ ایسا کونسا گناہ اس خطے کے عوام سے سرزد ہوا  ہے کہ مظفرآباد سے سر نگر کیلئے راستے کھلے ہیں جبکہ گلگت بلتستان کے منقسم خاندانوں کو ملنے نہیں دیا جارہا ہے۔

یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت لاوے  کی طرح پک رہے ہیں   اور عوام کے ذہنوں میں پیوست ہوچُکیے ہیں  ۔ لہذا قاری حفیظ جیسوں کی نادانی سے مملکت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے اس ملک کے دشمنوں کو کسی بھی طرح موقع نہیں ملنا چاہیے کہ گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ یہاں دہشت گردوں پر لگائے جانے والے قوانین کو جو اس خطے کی متنازعہ حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نافذ بھی نہیں کیا جاسکتا ،مگر عوام کے خلاف ایسے قوانین کون استعمال کررہا ہے۔ اس اہم ایشو پر آرمی چیف محترم جنرل قمر جاوید باجودہ صاحب کو خصوصی طور پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے،  آصف غفور صاحب کو بھی اس حوالے سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ  حقیقت ہے کہ عوامی محبت اور جذبے کے باوجود گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے اور وفاق پاکستان کی طرف سے اس خطے کو آئینی دھارے میں شامل کرنے کے مطالبے کو کئی بار مسترد کرنے کے باوجود یہاں عوامی وفاداریوں کے سبب حکومت پاکستان کی رٹ قائم ہے اور جو نظام یہاں رائج ہے اُسے آئینی  تحفظ حاصل نہیں بلکہ صرف صدارتی حکم نامے کے تحت کھڑا  ہے۔لہذا یہاں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کیلئے کوشش کرنے والوں ،قومی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے پرنٹ میڈیا پرسنزکو بھی دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کرنا حکومتی بدنیتی کی انتہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مقامی حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ طاقت کاناجائز استعمال معاشرے کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے ۔لہذا جب قانون پر عمل درآمد  کی بات کریں تو قانون کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا  ہوگا   ۔ایسا نہیں ہے کہ کوئی مذہبی یا سیاسی رہنما یا کوئی سوشل ایکٹوسٹ جو آپ کو پسند نہیں اُسے آپ اٹھا کر اُسے دہشت گرد ی کی لسٹ میں ڈال دیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو خود وزیر اعلیٰ کیلئے بھی اکثریتی طبقہ یہی سوچتے ہیں لہذا انکا نام بھی اس لسٹ میں شامل کرلینا چاہئے اور بھی کئی اہم سیاسی لوگ ہیں جوبلواسطہ یا بلاواسطہ یہاں منافرت کی سیاست کو ہوا دیتے ہیں اُنہیں کس بات کی کلین چٹ ملی ہوئی ہے؟ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ آخر میں ایک بار پھر آرمی چیف سے پرزور اپیل کروں گا کہ گلگت بلتستان میں موجود مسلم لیگ نون کی  حکومت کی بچگانہ حرکتوں پر نوٹس لیں اور اس خطے کی دفاعی اور جعرافیائی اہمیت اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اور مسئلہ  کشمیر کے تناظر میں اس خطے کی متنازعہ حیثیت اور دشمن کی نگاہ پر نظر رکھتے گلگت بلتستان میں جاری عدم مساوات کی پالیسی پر نوٹس لیں اور فورتھ شیڈول میں شامل بیگناہ افراد کو جلد اس قید سے آزادی دلانے کیلئے کردار  ادا کریں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply