سماج کے ستم اور ہم ۲

سماج کے ستم اور ہم ۔۔(2)
عائشہ اذان
ہیپوکریسی یعنی منافقت پہلا ستم ہے اور دوسرا ستم آزادی کا غلط استعمال ۔ان دونوں کو ایک ہی مضمون میں قید کرنے کے پیچھے کچھ عوامل ہیں۔ کچھ لوگ منافقت کو شرافت کا لبادہ اوڑھا کر آزادیِ اظہار کے نام پر دل آزاری کرتے ہیں۔آپ کو اپنے اردگرد ایسے بہت سے کردار مل جائیں گے جن کا نعرا ہوتاہے یا منافقت تیرا آسرا۔
اچھا بننے کی بجائے اچھا دکھنے کی چاہت میں اپنے آپ کو منافقت کا ماسک پہنانا پوری دنیا میں موجود ہے مگر ہمارے معاشرے میں یہ خطرناک رجحان اس لئے زیادہ ہے کہ ہمیں بھلے آزادی ۱۹۴۷ میں مل چکی تھی مگرفکری، ذہنی اور بول چال کی آزادی کچھ ہی عرصہ ہوا ،عطا ہوئی ہے اور ہم نے بندر کے ہاتھ میں استرے کی طرح اسے ذہنی کوفت کا سبب بنا دیا ہے ۔ جیسے طالبعلم کے لئے سکول سے نکل کر کالج میں داخلے کا پہلا سال خطرناک ہوتا ہے ،اسی طرح ہمارے سماج کے لئے ماسک کے پیچھے افراد کا آزادی سے لطف اندوز ہونا ایک خطرناک عمل ہے۔یہ ماسک مولوی پہنے یا بغیر داڑھی کےلبرل ، برقع پوش عورت پہنے یا جینز شرٹ والی خواتین، ماسک کے ساتھ سماج کو دھوکہ دینا انتہائی تیزی سے معاشرہ کو تباہ کر رہا ہے۔دھوکہ دینے والے آپ کو اچھا بن کے دھوکہ دے رہے ہیں اور عورت آج بھی “ہراسمنٹ” کا شکار ہو رہی ہےتو اصل آزادی کس کو ملی ؟عورت کو یا ان لوگوں کو جن کو مجرم ثابت کرنےکے لئے چارعاقل گواہ ہونے کی شرط بھی موجود ہے اور الزام لگانے پر انتہا پسند بھی ان کے ہمنوا بن کر عورت کا جینا حرام کر دیتے ہیں ۔
عورت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مردوں کے اس معاشرہ میں شانہ بشانہ کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ہر قدم پر رکاوٹیں ہیں ۔ باس یا اس کا قریبی دوست یا کولیگ گھلنے ملنے اور فری ہونےکی کوشش کرےاورعورت حوصلہ افزائی نہ کرے تو ماحول خراب اور نوکری جانے کا ڈر اور اگراپنی معاشی مجبوریوں اور بدنامی کی تہمت سے بچنے کے لئے خاموش رہے تو استحصال کا شکار اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتی۔
اسلام نے عورت کو بہت احترام دیا ہے۔ بظاہر پاکستان میں یہ احترام آپ کو نظر آئے گا لائن میں عورت کو جگہ دینا،بس میں بیٹھنے کے لئے الگ سیٹیں، کالج، یونیورسٹیوں میں کوٹہ،جاب میں کوٹہ ہر جگہ پر مساوات کی باتیں کی جاتی ہیں مگر سارے دعوے تب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب ہم عورتوں کو ہر جگہ اپنی عزت بچا کر ڈرتے سہمے کام کرتا دیکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے آنے اور ہماری زندگی میں اس کاعمل دخل بڑھنے کے بعد اب ہر کسی کو اپنا سٹیٹس ایک دم اچھا رکھنا ہے۔ چاہے شخصیت کتنی ہی مجروح کیوں نہ ہو، مگر ملنے والی اس آزادی کی وجہ سے ماسک پہنے اپنا سوفٹ امیج پیش کرنا ہے ۔منفرد نظر آنے کا شوق بھی اس خول کو چڑھانے کی ایک وجہ ہے ۔ہر مرد و زن کو مختلف نظر آنے کا شوق ہے، یہ نیچرل ہے، اسکو چھپانے کی ضرورت نہیں ،پر انفرادیت کی نیت سے آپ تنقید اور تضحیک کا سہارا لیں یہ غلط ہے۔ دھوکہ دینے کے اس عمل کی وجہ سے انسان مسلسل اپنی ذات کو خول میں قید کر کے چھپ رہا ہے۔ دھوکہ دینا فطرت نہیں ہے سوچ ہے اسکو بدلنے سے بہت سی ذہنی بیماریوں کے دور ہونے کے مثبت امکانات ہیں ۔
منافقت کا ماسک پہن کے آپ اپنے ادارے اور کولیگز کے ساتھ کتنے مخلص ہیں ؟اور اگر کبھی اکیلے میں یا موقع ملے تو کیا کسی کولیگ خاص طور پر جب وہ صنف مخالف سے تعلق رکھتی ہوکو ذہنی اذیت میں مبتلاکر نا ،ادارے اور اخلاق کی دھجیاں اڑانے کے مترادف نہیں ـ؟ دھوکہ اور فریب ایک جال کی طرح اس معاشرے کو لپیٹ چکا ہے ۔ہم کہتے کچھ اور ہیں تاکہ زمانہ ہمیں اچھا کہے اور دھوکہ دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ہمیں جواب سماج کو نہیں رب کو دینا ہے ۔دھوکہ دینے کی عادت جھوٹ سے شروع ہوتی ہے اور انتہاء جرائم کی دلدل میں اترنے تک۔
واہ واہ سننے کی چاہت میں ہم اپنے ہی دوستوں سے غداری کر جاتے ہیں ،اپنے ہی رشتوں کا خون کر دیتے ہیں ،سماج میں متوازن دوستیاں ،روئیے اور سوچ کی مثبت آزادی آپکو دھوکوں سے بچا سکتی ہے۔
سماج سے پکڑے جانے کے ڈر کی وجہ سے اچھا بننے کی اداکاری مت کریں ، ضمیر کو زندہ رکھیں ۔روزانہ سونے سے پہلے ایک چھوٹی سی نشست اپنے ضمیر سے مکالمہ کرنے میں گزاریں۔
یقین کریں سماج جو برائیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبنے والا ہے، اسے آپ اور ہم ملکر بچا سکتے ہیں ۔یہ سوسائٹی صرف آج نہیں آنے والا کل بھی ہے،ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر مستقبل کی نوید تب ہی دیکھی سنی جاسکے گی جب ہم سب اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ سدھار آج کریں گے تو کل روشن ہوگا۔اس امید کے ساتھ کہ سماج کا یہ پہلو سدھارکے ساتھ ایک مثبت معاشرہ کو جنم دے گا۔ اگلی نشست تک اجازت کہ اپنا محاسبہ کرنا ہم سب پر لازم ہے ۔

Facebook Comments

عائشہ اذان
سچ سے سوچ کے خوابوں کو قلمبند کرنے کی خواہش میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply