ووٹ کو عزت دو ۔۔۔سجاد ظہیر سولنگی

پاکستان میں ہمیشہ جمہوری نظام کو ڈی اسٹیبلائز کیا گیا ہے۔ برطانوی عہد سے لیے جانے والے قانون  جن کی بنیاد افسر شاہی کو تقویت دینا تھا۔ آج وہ اس سماجی میڈیا کے دور میں کھل کرسامنے آگیا ہے۔70 سال پہ مبنی ایک افسر شاہی اور قانون لاگو کرنے والے اداروں کی ملی بھگت سے آج بھی قانون پابہ  زنجیر بنا ہوا ہے۔ لیکن دوسری طرف جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جمہوری حکومتیں بھی ماسوائے لوٹ کھسوٹ کے غریب عوام کو بدلے میں سوائے فاقوں کے کچھ نہیں دے سکے۔ نتیجے کے طور پر ہمارے ملک میں احساس محرومی بڑھتی رہی ہے۔ لیکن اس تمام کے باجود غریب کے انسان عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاکے اسی دہلیز پر دم توڑ دیتے ہیں۔ ماؤں کے بچے خوارک نہ ہونے سے مر رہے ہیں۔ گْم شدہ افراد اپنے پیاروں کی آمد کے لیے ترس جاتے ہیں۔ کئی سال بیت جانے کے باوجود انصاف کے منصفوں کے پاس ان کے لیے دینے کو فقط دلاسے ہی رہ جاتے ہیں۔ منصف ان فیصلوں  کے بجائے غیر ضروری فَتویٰ  دینے میں لگے رہتے ہیں۔ اس پر سوموٹو کی برسات کرتے رہتے ہیں۔ ایسے فیصلے جس سے ملک میں عوام دشمن اقدام مضبوط ہوں اور ذی شعور کو سوچنے پر مجبور کردیتے۔

پچھلے دنوں ایک ایسا ہی فیصلہ ملک کے چنے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس  کیس میں سنایا گیا۔ جس میں میاں صاحب 10، مریم نواز 7 اور کیپٹن صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
13 جولائی کو مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں  محمد نواز شریف اور ان کی صاحب زادی محترمہ مریم نواز صاحبہ نے پاکستان آکرجس دلیری سے اپنی گرفتاری پیش کی ہے، وہ ایک پاکستانی سیاسی تاریخ میں بہت بڑی مثال ہے۔ اس مقدمے کے فیصلے میں میاں صاحب کے دامادکیپٹن صفدر پہلے ہی اپنی گرفتاری پیش کرچکے ہیں۔ میاں صاحب اور ان کی بیٹی کی آمد کے و قت تمام پنجاب میں جلوس نکلے۔ میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں ۔ لاہور کے ہوائی اڈے میں کسی بھی چینل کو بھی براہ راست مسلم لیگ کی اعلی قیادت سے ملنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ لاہور شہر کے تمام راستے کو کنٹینر رکھ کر  بلاک کردیے گئے تھے،جس سے عام لوگوں کی آمدرفت   متاثر ہوئی۔ لیکن اس کے باجود بھی لوگوں کی ان گنت تعداد  سڑکوں پر نظر آئی۔ ہوتا  یوں    کہ عوام کو تحفظ دیا جاتا، کیوں  کہ یہ ایک ڈیموکریٹک ملک ہے۔ لیکن شاید انتظامیہ ڈر کے مارے یہ رسک اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ مریم نواز اور میاں صاحب نے عدالتی فیصلہ آنے کے بعدہر جبر کے خلاف لڑنے کا اعلان کر چکے تھے۔ اور اسی پر پورے اترے، آج میاں صاحب اور ان کی صاحب زادی اڈیالہ جیل میں قیدی بن چکے ہیں۔اس عمل سے مسلم لیگ (ن) کی بانی قیادت کے دامن پر ڈیل جیسے داغ جو لگاتے تھے، اب ان کے چہرے بھی پیلے پڑ چکے ہوں گے۔

نواز شریف کے خلاف جس تیزی سے مقدمات درج ہو رہے تھے۔ اس سے اندازہ  ہو رہا   تھا کہ جمہوری بالادستی کے خلاف ہی تلوار چلے گی۔ ایسے سیاسی ماحول میں یہ بخوبی اندازہ تھا کہ نواز شریف کو اس سیٹ اپ سے الگ کرنا ہے۔اس فیصلے پر مریم نواز کے بقول کہ 70 سال سے قابض قوتو ں کے خلاف کھڑے ہونے کی سزا ہے، آج ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ بلند ہوا ہے۔اگر دیکھا جائے تواس بات کا بھی اندیشہ ظاہر کیا سکتا ہے کہ کسی بھی حیلے بہانے، التوا یا پھر عوام کی خواہش کے خلاف انتخابات کے من پسند نتائج کو حا صل کرنے کے لیے یہ تمام ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ ایسا عمل ایک بہت بڑے سیاسی بحران کو جنم دینے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔جس کے معاشی اثرات بڑے بھیانک نکل سکتے ہیں۔ موجودہ بڑھتا ہوا سیاسی بحران ریاست کی اندرونی ساخت میں پڑنے والی دراڑوں میں سے ایک یعنی سویلین سیاسی قیادت اور مقتدرہ قوتوں کے درمیان موجود شدید نظری فرق کا اظہار ہے۔ اور اس کے اثرات نہ صرف ہمارے سماج پر پڑے ہیں، بلکہ بین الاقوامی تعلقات اور معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور پورے ملک کو بے یقینی اور ہیجانی کیفیت نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی راہنما اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی پہلے ہی دن ایسے فیصلے کو رد کردیاتھا۔ان کے بقول ایسے ٹھوس شواہد بھی سامنے نہیں آئے جن کی روشنی میں اس فیصلے کو تسلیم کیا جائے۔ مسلسل دو سالوں سے میاں صاحب اور ان کی بیٹی مریم نواز نے پاکستان کی سیاست میں ایک نیا بریک تھرو کیا ہے۔ جس صوبے سے ان کا تعلق رہا ہے۔ اس صوبے میں سے عوامی و سیاسی بغاوت اس ملک کے بننے کے بعد گہری نیند  سو چکی تھی۔جو ایک وقت میں بھگت سنگھ، راج گرو، سکھ دیو کی صورت لائل پور بنگلہ  سے لاہور اور دہلی تک اپنا ڈیرا ڈال دیتی تھی۔ انگریز سامراج کی آنکھ میں آنکھ ملاکر کہا کرتی تھی۔
وقت آنے دے بتا دیں گے تجھے اے آسمان
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے ”

رام پرساد بسمل ”

ہاں یہ وہ پنجاب ہے جس سے دوسرے صوبوں کو شکایت رہی کہ ہمارے حقوق اس صوبے کی جھولی میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ یہ کسی حد تک ٹھیک تھی۔پاکستان بننے کے بعد اسی پنجاب میں ترقی پسندوں کے قافلے ٹوٹی پھوٹی جدوجہد کرتے رہے۔ اس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ لیکن جس طرح کی انقلابی تحریکیں دوسرے صوبوں میں چلتی رہی ہیں۔ اس طرح کا اثر اس لیے بھی نہیں ہو رہا تھا، کیوں کہ پنجاب کا جاگیر دار یہاں کی  مظلوم قوموں کے استحصال میں برابر کا شریک تھا۔پنجاب کے حکمران طبقے نے جب ان قوتوں کے خلاف بولنا شروع کیا تو یہ بات ناگوار گزری۔ نواز شریف اور مریم نواز کے بیانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی جدوجہد سے ایک خود مختار ڈیموکریٹک ملک کی تعمیر ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کے خلاف ایسے فیصلے جن قوتوں کو  خوش کرنے کے لیے کروائے گئے اور مزید کروائے جائیں گے،جس سے ملک میں جمہوریت کو ماسوائے پابہ  زنجیر کرنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ جدوجہد سوئے ہوئے پنجاب کو جگانے کے لیئے ایک دستک ہے۔ ایسا گرم ماحول پہلے کبھی نظر نہیں آیا، اس خاموش صوبے کو جگانے کے لیے اسی صوبے کا ایسا طاقت ور جاگیر دار جو کہ ایک وقت میں پنجاب کا وزیر اعلیٰ اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہا ہو، جس کی سیاست کی جڑیں گراس روٹ تک ہوں۔ آج وہ جمہوریت کی بقا ووٹ کی بات کررہا ہے۔ یہی باتیں ہمیشہ ملک کے حقیقی ترقی پسند اور مارکسوادی بھی کرتے رہے ہیں، لیکن کمزور ہونے کی وجہ  سے اثرانداز کبھی بھی نہیں ہو پائیں۔ ایک وقت میں سوئے ہوئے پنجاب کو جالب صاحب نے بھی للکار کے کہا تھا۔اسی جالب کی ہی شاعری نے اس طبقے کو مجبور کیا ہے کہ وہ جمہورکی بات کرے۔ جالب صاحب نے کہا تھا۔
جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا ”
نواز شریف کہ جس کی بنیاد یہی قوتیں ہی ہیں، جن کو میاں صاحب آج بْرا لگتا ہے۔کیوں کہ وہ آج ان کے خلاف بات کررہا ہے۔جمہوریت کی بقا کی بات کررہا ہے۔ میاں صاحب نے جو جنگ شروع کی ہے، اگر اس پروہ صاحب ڈٹے رہے تو یہ آپ کی لڑائی پنجاب کی تاریخ کا عوامی تحریکی باب ثابت ہوگا۔ ہمیں تاریخ کو یاد کرنا چاہیے پاکستان کے حقیقی باشندوں کے خلاف “پنڈی سازش ” کیس جیسے مقدمات میں گھڑے گئے۔ میاں صاحب جانتے تھے کہ جس ملک میں پہلے وزیر اعظموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ ہمیشہ آئین کی سائیڈ تبدیل کرکے کبھی آئین کو ایبسنٹ تو کبھی خاموش، تو کبھی ایمرجنسی جیسے اصطلاحات کے نام پر قربان کر دیا گیا ہو۔ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے جمہور کو مجبور کیا گیا کہ وہ معطل ہو جائے۔ جہاں آئین توڑنے والوں کوگاڈ آف آنرز اور وزیر اعظموں کے لیے اڈیالہ جیل کی سلاخیں ہوں وہاں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری جانب میاں صاحب کو بھی یاد دہانی کرانا لازمی ہے، یہ جدوجہد تو آپ نے شروع کردی ہے، ہمیں یقیں ہے، آپ ملک کے تمام اداروں کی بالادستی کے لیے لڑیں گے۔ اس جنگ میں فتحیاب ہونے کے بعد ملک کے محنت کشوں، کسانوں اور مظلوم طبقات کے لیے بھی آپ کو سوچنا پڑے گا۔ درباری تاریخ آپ کو بالکل ہی نہ یاد رکھے، لیکن عوام کی تاریخ آپ کو کبھی فراموش نہیں کریگی۔ہاں یہ ضرور یاد رہے کہ! اوکاڑہ    کے کسانوں، پاور لومز فیصل آباد کے محنت کش کہ جن پر جدوجہد کرنے کی پاداش میں دہشتگری کے مقدمات بنا کر انہیں سیکڑوں سالوں پر مبنی سزائیں دی جاتی رہی ہیں، وہ آپ کے آنے والے کل میں قید کے بجائے  محنت اور جدوجہد کرتے ہوئے بغیر کسی ڈر اور خوف کے نظر آئیں،جو ان کا جمہوری حق ہے۔ جس کی اجازت انہیں اس ملک کا آئین بھی دیتا ہے۔ اور یہی حق ہے جس کے لیے آج آپ لڑ رہے رہے۔ میاں صاحب اور مریم نواز صاحبہ! یاد رکھیں تاریخ ایک بار دستک دیتی ہے۔ آپ اپنے آنے والے کل کی تاریخ جب بنا رہے ہیں تو اپنے اس جدوجہد کے باب میں ان   طبقات کو ضرور یاد رکھیں۔ ہمیں یقین ہے تاریخ آپ کے ساتھ ضرور انصاف کریگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply