ٹھرکی شوہر۔ عبدلرؤف خٹک

ہ ہ ٹرین کا اک سفر تھا اور سفر بھی پاکستانی ٹرین میں کیا جا رہا تھا ۔ اگر آپ فیملی کے ساتھ ہوں تو یہ سفر وبال جان بن جاتا ہے اگر آپ دوستوں کے ساتھ ہوں تو پھر سونے پر سہاگہ ، ایسا ہی ایک دن تھا ۔ جون کی تپتی دھوپ تھی ،میں اپنے بچوں اور ایک عدد بیگم کے ساتھ محو سفر تھا ۔ ٹرین ابھی اسٹیشن سے روانہ نہیں ہوئی تھی لیکن گرمی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا تھا ،حیدرآباد سے براستہ ٹرین پشاور کے لئیے جانا تھا ،سفر کافی لمبا تھا اور ٹرین کی حالت دیدنی تھی ۔ ٹرین میں سہولیات کا فقدان تھا لیکن عوام کا اک جم غفیر  موجود تھا  اور سیٹیں تو دور لوگ اک دوسرے سے گتھم گتھا تھے ، گرمی اپنے جوبن پر تھی ۔

ٹرین کی یہ حالت تھی کہ نہ تو  پنکھے تھے اور نہ ہی لائٹ کا کوئی خاص انتظام ،بیت الخلاء میں نلکا تو تھا پانی نہیں اور جس میں پانی تھا وہاں لوٹا نہیں تھا ۔ مجھے یقین ہوچلا تھا کہ یہ سفر , سفر نہیں بلکہ وبال جان ہوگا ۔ خدا خدا کرکے ٹرین کا وسل بجا اور ٹرین نے بوجھل پہیوں کے ساتھ روانہ ہونا شروع کردیا ۔ ٹرین کے ہچکولے شروع ہوئے تو ہوا نے بھی اپنے جلوے دکھانا شروع کردئیے اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کے چہرے پر بھی رونق نظر آنا شروع ہوگئی ۔
میں جو اک کونے میں حسرت ویاس کی تصویر بنے بیٹھا تھا میری بھی جان میں جان آئی اور پہنچا اپنی سیٹ پر ،میں جونہی اپنی سیٹ پر براجمان ہونے لگا میرے بچے نے ضد شروع کردی کہ کھڑکی کے سامنے مجھے بیٹھنا ہے ۔ ان کی اس فرمائش کو پورا کیا ہی تھا کہ اچانک سے کسی کھانے پینے والے کی صدا آئی اور میری بیٹی نے مجھے للچائی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا ۔ ابھی ان دو بچوں کی فرمائش پوری ہوئی تھی کہ اچانک سے ہمیں ہماری بیگم جان کا خیال آگیا کہ وہ کس حال میں ہے ؟ ہم نے بیگم کی طرف جونہی نظر دوڑائی  ، ہمیں ان کی آنکھوں میں خون اترتا ہوا نظر آیا ۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ شائد نیند کا غلبہ ہوگا اس لئیے آنکھیں سرخ ہونگی ،لیکن اصل حقیقت اس وقت آشکارا ہوئی جب ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم اپنی سیٹ پر نہیں بلکہ پڑوس والی سیٹ پر بیٹھے ہیں اور وہ بھی کسی اور محترمہ کے بغل میں جو ہمارے برابر میں ہی تشریف فرما تھی ۔ وہ محترمہ تو اپنے کسی رسالے میں کھوئی ہوئی تھی انھیں خبر ہی نہیں تھی کہ کون کس کے بغل میں آکر بیٹھ گیا ؟ لیکن ہم اپنی زوجہ محترمہ کے بھڑکتے جذبات سمجھ گئے اب آگے کیا ہونے والا تھا وہ ہر شادی شدہ بخوبی جانتا ہے . ہم نے بندر کی پھرتی دکھائی اور محترمہ کی بغل سے نکل کر بیگم کی بغل میں دبک گئے۔

بیگم نے اشاروں کنایوں میں خوب جلی کٹی سنائیں  اور پھر خاموش ہوگئی ۔ ٹرین کو روانہ ہوئے کافی دیر ہوچکی تھی ٹرین کے اندر کا موسم بھی اب کچھ خوشگوار ہوچلا تھا ،پتا ہی نہیں چلا مجھے کب نیند آگئی اور میں بیٹھے بیٹھے نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔جب ٹرین اک جھٹکے کے ساتھ کسی اسٹیشن پر رکی تو میری بھی آنکھ کھل گئی  اور نیم وا آنکھوں سے کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں ٹانگیں دوران نیند سرکتی ہوئیں سامنے بیٹھی اسی محترمہ کی ٹانگوں سے بے تکلف ہو رہی تھیں ۔ وہ خاتون بھی رسالہ پڑھتے پڑھتے نیند کے خمار میں مدہوش تھی ۔ میں نے جھپکتی آنکھوں سے بیگم کی طرف دیکھا کہ آیا وہ جاگ تو نہیں رہی ،لیکن اک دم میری دھڑکنیں تیز ہوگئی ،اس کی نظریں براہ راست میری ٹانگوں کی حرکات و سکنات پر تھیں ۔ میں نے جب یہ دیکھا تو دوبارہ سے آنکھیں بند کرلیں ،تاکہ شک نہ ہو  اور آہستہ سے ٹانگوں کو سرکانا شروع کردیا ،۔ میں نے نیم کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ محترمہ مکمل نظریں جمائے بیٹھی تھی  حالانکہ یہ سب  غیر ارادی طور پر ہوا تھا لیکن پھر بھی اک خوف طاری تھا ،اس خاتون کا نہیں ،بیگم کا ۔ خاتون سے معذرت کر سکتے ہیں مگر بیگم سے نہیں ، وہ سب جانتی ہے کہ نیند میں کیا ہوتا ہے اور حقیقت میں کیا؟ تھوڑی دیر بعد میں آنکھیں ملتا ہوا بیٹھ گیا تاکہ اسے یہ نہ لگے کہ میں جاگ رہا تھا ورنہ شک کو پیر لگ سکتے ہیں ۔

بیگم نے مجھے جاگتا دیکھ کر غصے سے کہا اپنے سونے کے اطوار بہتر کریں ، میں نے بات سنی ان سنی کردی ۔ سامنے سیٹ پر بیٹھی وہ خاتون بھی اب جاگ چکی تھی اور اپنے جسم کی سستی کو دور بھگانے کے لئیے انگڑائیاں لے رہی تھی اور میں للچائی نظروں سے اس کے جسم کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ بیگم کوبھی  تکنے میں مصروف تھا۔ اب کھانا لگ چکا تھا اور میں اور ہم سب کھانا تناول فرمارہے تھے کہ اچانک سے بیگم نے اس خاتون کو بھی مدعو کرڈالا ، وہ خاتون پہلے تو انکار کرتی رہی لیکن جب میں نے بھی کہا کہ آجائیں میڈم شرمائیں نہیں ، تو وہ میرے قریب آکر بیٹھ گئی اور کھانا تناول کرنے لگی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کھانا کھانے کے دوران میری کہنی بار بار اس کی پسلی میں جاکر لگتی اور ہماری میڈم یہ سب دیکھ رہی تھی لیکن خاموش تھی کیونکہ وہ جانتی تھی اسپیس کم ہے لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ میرا شوہر بھی کم نہیں ہے ۔ کھانا کھانے اور برتن سمیٹنے کے بعد سب اپنی اپنی جگہ پر دوبارہ سے موجود تھے  ۔ اچانک بیگم صاحبہ مجھ سے مخاطب ہوئیں کہ آپ مرد یہ چھوٹی چھوٹی شرارتیں اپنی بیگمات کے ساتھ کیوں نہیں کرتے ، پرائی عورتوں کا جنسی استحصال کیوں کرتے ہو ؟ میں اک دم سکتے میں آگیا اور پوچھ بیٹھا کیا ہوا خیریت تو ہے؟ فرمانے لگی بنو مت ! میں سب دیکھ رہی ہوں تمھارے ہاتھ پاؤں پرائی عورت کے جسم پر کیسے چل رہے ہیں ۔
میں نے انجان بننے کی کوشش کی لیکن بے سود ، وہ سامنے بیٹھی خاتون ہمارا یہ منٹو نامہ سن رہی تھی اور کھسیانی ہنسی ہنس رہی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد وہ میڈم ہماری بیگم سے مخاطب ہوئی ،ہاں ! تم  ٹھیک کہتی ہو ، یہ مرد بڑے ٹھرکی ہوتے ہیں ۔ جہاں عورت کو اکیلا دیکھا ،اپنی ساری بے شرمی دے کر اس کی عزت لے جاتے ہیں ۔ یہ مرد نہیں ہوتے اڑن کھٹولے ہوتے ہیں ، یہ سمجھتے ہیں عورت بیوقوف ہوتی ہے وہ کچھ جانتی نہیں ،عورت تو اپنی عزت کو بچانے کے لئیے خاموش ہوتی ہے ، ورنہ اسے سب پتا ہوتا ہے کہ مرد کس وقت کیا چاھتا ہے؟ ۔ اس خاتون کی باتیں سن کر مجھے لگا شائد اب یہ سب بتادے کہ میں نے بہت کچھ  کرنے کی کوشش کی  ہے ،لیکن اک دم سے پلڑا میرے حق میں آگیا ۔دراصل اس کے اگلے الفاظ سن  کر میری جان میں جان آئی جب اس نے کہا کہ آپ کے شوہر تو بہت اچھے ہیں ،بڑے خوش مزاج ،پیار کرنے والے ،آپ کو ان پر شک نہیں کرنا چاہئیے ، غلط فہمیاں ہر جگہ ہوتی ہیں رفع دفع کی جاسکتی ہیں۔ میں جو سکتے میں تھا اک دم چوڑا ہوگیا لیکن بولنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ کچھ دیر بعد جب گفتگو کا دورانیہ ختم ہوگیا تو وہ خاتون چلی گئی ،اور ہم دونوں نے اک مرتبہ پھر خاموشی کا طلسم توڑا اور  بیگم نے ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کردی ۔ اور ہماری مثال اس محاورے کے مانند
کھسیانی بلی کھمبا نوچے  کی مانند تھی۔ آخر بڑی مشکل سے بیگم کومنایا اور سمجھایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
اب کی بار ہم پر جنسی ہراساں کا الزام ہماری بیگم نے لگایا وہ بھی اک غیر خاتون کے ساتھ ، بیگم کہتی ہے کہ میرے پاس ثبوت موجود ہیں ۔ لیکن ہم نے معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کردیا  ہے۔

 

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply