جھیل کنارے گزری رات/سید مہدی بخاری

جھیلوں نے مجھے ہمیشہ مقناطیسی کشش سے کھینچا ہے۔ کئی  جھیلوں پر شامیں بِتائیں اور کئیوں کے کنارے شب بسری کو ٹینٹ لگایا۔کریڈل ماؤنٹین نیشنل پارک تسمانیہ کا دل ہے۔ یہاں جھیلیں ہیں جن میں Dove جھیل سب سے بڑی اور اس پارک کے ماتھے کا جھومر ہے۔ یہ نیشنل پارک خد و خال میں دیوسائی نیشنل پارک سے ملتا جلتا ہے۔Dove جھیل میرے حافظے میں کہیں محفوظ تھی۔

شام ڈھل رہی تھی جب میں کریڈل ماؤنٹین پارک کے اندر واقع ریزارٹ پر پہنچا۔ ریسپشن خالی تھا۔ اِدھر اُدھر دیکھا، کوئی نظر نہ  آیا۔ چار پانچ منٹ انتظار کر کے آگے پیچھے آٹھ دس قدم اُٹھا کر دیکھنا شروع کیا کہ کوئی بندہ بشر نظر آئے تو پوچھوں۔ آخر پندرہ منٹ بعد ایک کار آ کر رُکی۔ اندر سے پچاس پچپن سالہ خاتون نکلیں۔ مجھے دیکھ کر پُرجوش انداز میں بولی “ ویلکم ٹو کریڈل ماؤنٹین مسٹر بخاری”۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ یہی ریسپشنسٹ ہیں اور جانتی ہیں کہ میرے نام کی بکنگ ہے۔

کاغذی کارروائی ہو چکی تو مجھے کمرے کی چابی دیتے ہوئے بولی” ابھی ساڑھے تین ہو رہے ہیں۔ تم اگر جھیل پر جانا چاہتے ہو تو فوراً انفارمیشن سینٹر پہنچو۔ یہ قریب ہی سامنے دو سو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہاں سے شٹل بس ٹورسٹس کو لے کر نکلتی ہے اور اس بس کا آخری سٹاپ Dove جھیل ہے۔ ہر بیس منٹ بعد بس چلتی ہے۔ مگر آخری بس جو جھیل سے واپسی کو چلے گی اس کی ٹائمنگ ساڑھے چار ہے۔ اگر تم نے وہ بس چھوڑ دی تو پھر بارہ کلومیٹر پیدل ہی آنا پڑے گا۔ وقت کا لازمی خیال رکھنا۔ تمہیں سمجھ آ رہی ہے ناں ؟”۔

ہاں، سمجھ گیا۔ جھیل تک بس کتنا وقت لیتی ہے ؟ میں دراصل فوٹوگرافر ہوں۔ مجھے جھیل کی تصاویر لینا ہیں مگر آپ نے کہا کہ آخری بس ساڑھے چار بجے جھیل سے واپسی کو روانہ ہو جاتی ہے اور غروب آفتاب کا وقت سوا پانچ ہے۔ میں اگر سن سیٹ کے بعد واپس آنا چاہوں تو کوئی طریقہ ہے کیا ؟

تم فوٹوگرافر ہو۔ میں سمجھ گئی۔ تم جھیل کے ساتھ رومانس کرنا چاہتے ہو۔ہی ہی ہی۔ “۔ خاتون نے دانت نکالے۔ پھر یکدم سنجیدہ ہوتے بولی” دیکھو، تم اپنی کار لے جا سکتے ہو مگر سوا پانچ بجے کے بعد۔ اس کی وجہ یہ کہ یہاں سے جھیل تک کا روڈ بہت تنگ ہے۔ اس پر بس ہی گزر سکتی ہے۔ اس لیے بسوں کی ٹائمنگ کے دوران کوئی شخص گاڑی پر نہیں جا سکتا۔ پہلی بس صبح 8:45 پر روانہ ہوتی ہے اور آخری بس شام 4:30 پر جھیل سے واپس آتی ہے۔ اس دوران سارا دن بیس منٹ کے وقفے سے شٹل بسیں  سیاحوں کو لے کر چلتی رہتی ہیں۔ سمجھ آ رہی ہے ناں ؟”

ہاں، یعنی اگر کوئی اپنی گاڑی لے جانا چاہے تو شام سوا پانچ کے بعد لے جا سکتا ہے یا پھر صبح صبح اور پونے نو سے قبل یعنی پہلی بس چلنے سے پہلے ہر حال میں واپس آنا ہو گا۔ ٹھیک سمجھا ناں ؟

“ہاں،سمجھ گئے تم۔ اگر خلاف ورزی کی اور بس کو سامنے سے بلاک کیا تو تمہیں جرمانہ ہو گا اور وہ جرمانہ اچھا خاصہ ہے۔”

اچھا! سمجھ گیا۔۔

ایسا کرو ابھی شٹل بس پر جا کر جھیل دیکھ آؤ۔ تمہیں معلوم ہو کہ کیسا منظر ہے تاکہ پھر بعد میں جا کر تم فوٹوگرافی کر سکو۔ شٹل بس سروس فری ہے۔ تمہیں ان کو پارک کی انٹری ٹکٹ دکھانا ہو گی۔”

ٹھیک ہے۔ میں واپس آ کر چیک اِن کرتا ہوں۔ ابھی وقت کم ہے۔

“ہاں بھاگو بھاگو۔ پونے چار ہو گئے”۔

میں بھاگم بھاگ ٹورسٹ انفامیشن سینٹر پہنچا۔ بس تیار کھڑی تھی۔ سڑک سچ میں اتنی ہی چوڑی تھی جتنا بس کی چوڑائی تھی۔ مناظر دلفریب تھے۔ حد نگاہ تک پہاڑی ڈھلوانیں، جنگلات اور نالے۔ پس منظر میں قدرے بڑے پہاڑ۔ پچیس منٹ کے بعد جھیل سٹاپ آگیا۔ بس رُک گئی۔ یکدم موسم نے انگڑائی لی۔ برف کے گالے گرنے لگے۔ منظر سفید ہونے لگا۔ سردی انتہا کی تھی۔ مجھ سے باہر پانچ منٹ سے زیادہ کھڑا نہ  ہوا گیا۔ میں بھاگ کر جھیل کے کنارے بنے ٹورسٹ انفارمیشن سینٹر کی عمارت میں گھُس گیا کہ اندر درجہ حرارت باہر کی نسبت بہتر تھا۔

پندرہ منٹ بعد ساڑھے چار ہو گئے اور بس واپس چل پڑی۔ میں نے ریزارٹ پہنچ کر چابی لی۔ خاتون نے احوال پوچھا۔ پھر مسکرا کے بولی” ہاں جھیلوں کے موسم کا کچھ پتا نہیں چلتا۔”

یہ جنگل میں بنے لکڑی کے ہٹس تھے۔ کمرہ ہیٹر کے سبب گرم تھا۔ سفری تھکاوٹ کے سبب اونگھ آنے لگی۔ مگر نجانے کیا تھا۔ کچھ کچھ وقفے بعد آنکھ کھل جاتی۔ عجب سی بے چینی رہی۔ بلآخر رات کے دو بجے میں اس نیند اور آنکھ کھلنے کے سلسلے سے اُکتا گیا۔ سگریٹ سلگانے کو ہٹ سے باہر نکلا۔ آسمان روشن تھا۔ چودہویں کا چاند پوری تاب سے چمک رہا تھا۔ چاندنی جنگل میں سائے بنا رہی  تھی۔ایسا گمان ہوتا کسی نے چاندی منعکس کر دی ہو۔ میں نے سوچا کہ پورے چاند کی رات ہے۔ نیند تو ٹوٹ رہی ہے۔ چلو جھیل پر چلیں اور فوٹوگرافی کریں۔

کیمرہ بیگ اُٹھایا۔ گاڑی سٹارٹ کی۔ درجہ حرارت منفی دو ڈگری ہو چلا تھا مگر گاڑی میں محسوس نہیں ہوتا تھا۔ گاڑی پتلی بل کھاتی سڑک پر چلتی رہی۔ سناٹے کو جنگلی حیات کی آوازیں چیرتیں۔ دونوں طرف جنگل تھا۔ جنگل ختم ہوتا تو پہاڑی ڈھلوانیں آ جاتیں اور پھر جنگل کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ جھیل کی پارکنگ میں گاڑی لگا دی۔ یہاں سے جھیل چار سو میٹر کی پیدل مسافت پر واقع تھی۔ کیمرہ  بیگ اور ٹرائی پوڈ اُٹھایا۔ جھیل کو چل دیا۔

چاندنی ہر سُو پھیلی تھی۔ پگڈنڈی روزِ روشن کی مانند عیاں تھی۔ جھیل کا منظر کھلا۔ میں نے ٹرائی پوڈ سیٹ کیا۔ کیمرا سیٹ کیا۔ میرے ہاتھ شَل ہونے لگے۔ جلد بازی میں دستانے کمرے میں بھول آیا تھا۔ پھر یکایک تیز ہَوا بہنے لگی۔ درجہ حرارت منفی پانچ سے نیچے گر گیا۔ جیکٹ نے اوپری بدن تو گرما رکھا تھا مگر ٹانگیں، ہاتھ اور ماتھا شَل پڑنے لگے۔ جیکٹ کی کیپ نے کانوں کو ڈھانپ رکھا تھا مگر ہَوا کسی طرح اندر گھُستی جاتی تھی۔ یہ کھلا میدان تھا۔ یہاں کوئی اوٹ دستیاب نہیں تھی۔ ارد گرد نظر بغور دوڑائی تو ایک بڑی چٹان قریب ہی نظر آئی۔ میں اس کی جانب چلا اور چٹان کی اوٹ لے کر بیٹھ گیا۔ کیمرا تصاویر لیتا رہا۔ میں بھاگ کر جاتا۔ سیٹنگز کرتا اور شٹر بٹن دبا کر واپس چٹان کی اوٹ میں آ جاتا۔

ہاتھ نیلے پڑنے لگے تھے۔ ہونٹ جامد ہونے کو آئے تھے۔ ہر سُو سرد کاٹ دار ہَوا تھی۔ مجھے کچھ دیر میں ہی فوٹوگرافی بھول گئی۔ صبح کے ساڑھے چار ہونے کو آئے تھے۔ ابھی سورج نکلنے میں دو گھنٹے باقی تھی۔ میں خود کو کوسنے لگا۔ یہ پنگا لینے کی آخر کیا ضرورت تھی۔ خود کو مصروف رکھنے اور خیالات کو ٹالنے کو میں نے موبائل پر غزل لگا لی۔ چاند عین میرے سامنے آ ٹِکا تھا۔

ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اِٹھلاؤ
ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ

شمال میں ستمبر بالائی وادیوں میں سردی کا پیغام لیے اُترتا ہے۔ نیلی جھیل پر پہلے پہر کی ٹھنڈی دھوپ اُتر آئی تھی۔ میں ہلکے بخار و تھکن میں مبتلا جھیل کنارے اُگی گھاس و جنگلی پھولوں کے بیچ آنکھیں موندے بے سُدھ پڑا دھوپ کی تمازت کو اپنے جسم میں جذب کرتا رہا۔ یہ ستمبر کا مہینہ تھا۔ پہاڑوں پر بُلندی پر واقع جھیلوں پر ٹھٹھرتی صبحوں اور کپکپاتی شاموں کے موسم کا آغاز ہوچکا تھا۔رات گئے سخت سردی میں جھیل کنارے فوٹوگرافی کرتا رہا۔ کچھ ٹریک کر کے کرمبر جھیل تک پہنچنے کی تھکاوٹ تھی کچھ سرد ہِوا لگ گئی تھی۔ اگلی صبح سارا بدن ٹوٹتا رہا اور میں دھوپ میں گھاس پر بے سُدھ پڑا رہا۔میرا پورٹر سیف اللہ قریب آ کر بولا، “صاحب، چائے دوسری بار بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ چائے پیو گے تو طبیعت فریش ہوجائے گا۔ تم کو سردی لگ گیا ہے۔ میں پھر سے گرم کرکے لاتا ہوں صاحب”۔اوندھے پڑے میں نے اسے “ہوں” میں جواب دیا۔

جھیل کنارے دھوپ کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو روشنی کی کرنیں نیلے پانیوں پر رقص کرتے آنکھوں کو چُندھیانے لگیں۔ میں اُٹھ بیٹھا۔ سامنے حدِ نگاہ تک نیلگوں پانی ہی پانی تھا۔ سیف اللہ قریب آکر بولا “صاحب چائے”۔پھر کپ تھما کر وہ جھیل کی سمت منہ کیے دور جا بیٹھا اور وخی زبان کا گیت گنگنانے لگا۔ میری طبعیت کچھ بحال ہوئی۔ اس سے پوچھا کہ اس گیت کا کیا ترجمہ ہے ؟

“جانان! پہاڑوں پر ڈھلتی دھوپ ہوں، جھیل پر بہتی ہوا ہوں، میں گڈریے کی صدا ہوں، بہت دور جا چکا ہوں۔ اب آواز مجھے نہ دو۔”(وخی گیت کا ترجمہ)۔

کرمبر سے دھیان شیوسر پر گیا۔ شیوسر سے پرواز کرتے دنیا کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی سائبیریا کی جھیل بائیکال پر جا ٹھہرا۔ جھیلوں جھیلوں دھیان بھٹکتا رہا۔ کیسے کیسے موسم میں کیسی کیسی جھیلوں پر کیسا کیسا وقت بیتا تھا۔ دھیان ٹوٹا تو آسمان پر سُرخی اُبھرنے لگی  تھی۔ سردی کے سبب میری طبعیت خراب ہو رہی تھی۔ چاند اب پہاڑ کی اوٹ میں جا چھپا تھا۔ پھر سورج کی پہلی کرن اُتری۔ میری ہمت جواب دے گئی۔ میں نے بمشکل نیلی پڑتی انگلیوں سے سامان پیک کیا اور شَل ہوتے گھٹنوں سے قدم قدم چلتا پارکنگ سے ذرا قبل ٹورسٹ انفامیشن سینٹر کی بلڈنگ تک پہنچا۔ دفتر کے باہر بینچ لگے تھے جن پر سورج کی روشنی پڑ رہی تھی۔ میں نے سامان پھینکا اور بینچ پر ڈھیر ہو گیا۔ سردی نے بدن کی ساری انرجی جذب کر لی تھی۔ سورج کی حدت بدن گرمانے لگی تو راحت نصیب ہوئی۔ پتہ نہیں اس بینچ پر میں کب لیٹا اور کب میری آنکھ لگ گئی۔

آنکھ کھُلی تو ایک گورا میرے عین اوپر کھڑا مجھے پریشانی سے پکار رہا تھا۔

“تم ٹھیک ہو ؟ تمہیں کچھ ہُوا تو نہیں ؟”

اوہ ہاں۔ میں ٹھیک ہوں۔ بس ذرا سردی لگ رہی تھی تو دھوپ میں لیٹ گیا تھا۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔

“تم اندر آ جاؤ۔ آفس کھُل گیا ہے”

وہ ٹورسٹ انفامیشن سینٹر کا ملازم تھا۔ گھڑی کی سوئی صبح کے آٹھ بجا رہی تھی۔ میں اس کے پیچھے آفس میں داخل ہو گیا۔

“ تم کیا کر رہے ہو یہاں ؟ کیا وہ پارکنگ میں تمہاری گاڑی کھڑی ہے؟”

ہاں۔ میری گاڑی ہے۔ میں فوٹوگرافر ہوں۔ رات تین بجے کچھ تصاویر لینے آ گیا تھا۔ پورے چاند کی رات تھی۔ سوچا جھیل کی تصویر کے ساتھ سن رائز کی بھی لیتا چلوں مگر تیز ہوا چلنے لگی اور سردی بہت بڑھ گئی۔ اس وجہ سے طبعیت بیزار ہو گئی تھی مگر اب ٹھیک ہوں۔

“باہر اوس برف بن چکی ہے اور تم رات کو یہاں کھلے آسمان تلے تھے؟ عجیب آدمی ہو۔ “

معذرت چاہتا ہوں۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس بعد میں ہُوا۔

“ کافی پیو”۔ اس نے اپنے تھرماس سے بلیک کافی ایک مگ میں اُنڈیلی۔ شاید وہ گھر سے اپنے لیے بنا کے ساتھ لایا تھا۔ مجھے لگا کہ انکار کر دینا چاہئیے یہ تو اس کا ناشتہ ہو گا۔

نہیں۔ آپ کا شکریہ۔ میں اب چلوں گا۔ مجھے ہر صورت 8:45 سے قبل اس سڑک سے نکل کر اپنے ریزارٹ پہنچنا ہے وگرنہ ٹورسٹ شٹل بس چلنے لگے گی۔

“اوہ یس۔ تم کو فوراً جانا چاہئیے ورنہ تم پھنس جاؤ گے۔اس سڑک پر جاتے ہوئے بیس پچیس منٹ لگ جائیں گے۔” اس نے موبائل سے ٹائم دیکھ کر کہا۔

میں اُٹھنے لگا تو بولا “ کافی پی کر جاؤ ابھی وقت ہے۔ تمہاری طبیعت اس سے ٹھیک ہو جائے گی۔ تم کو انرجی کی فوری ضرورت ہے۔”

مجھے نجانے کیوں سیف اللہ یاد آنے لگا۔ میں یاد کر کے مُسکرا دیا۔

“ہاں۔ اب تم بہتر لگ رہے ہو”۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا

کافی اُنڈیلی اور اس سے رخصت ہوا۔ گاڑی چلاتا ریزارٹ پہنچا۔ کمرے میں آن کر ہیٹر کے آگے بیٹھا۔ پھر کافی بنا کر پی۔ طبعیت مکمل بحال ہو گئی۔ پھر ریزارٹ کی ویڈیو بنا کر چیک آؤٹ کرنا چاہا۔ کمرے کی چابی واپس لوٹانے کو ریسپشن پر پہنچا۔ وہ ڈیسک پر بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بولی

“ مجھے معلوم ہے تم نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ صبح تمہاری گاڑی نہیں تھی۔ کیا تمہیں تصویریں مل گئیں ؟ خوش ہو ناں ؟”۔

ہاں۔ بہت خوش!

“جھیلیں اپنا حُسن نچھاور کرنے سے پہلے اپنا معاوضہ مکمل وصول کرتی ہیں۔ تم سمجھ رہے ہو ناں میری بات ؟”۔

ہاں۔ کبھی کبھی تاوان بھی وصول کرتی ہیں اور مسافر کو اپنے پاس قید کر لیتی ہیں۔

“ہاہاہاہاہا۔ ہاں تم بہتر جانتے ہو۔”

گڈ بائے کر کے ، چابی لوٹا کے پلٹنا چاہا۔ یہ ریسپشن بار نُما تھی۔ الکوحل بار تھی اور وہی ریسپشن تھی۔ ہلکی آواز میں انگریزی گانا چل رہا تھا۔

“تم مجھے یاد کرو نہ کرو مگر ان پہاڑوں، گاؤں اور سبز جھیل کو ضرور یاد کرتے ہو گے”۔ (انگریزی گانے کا ترجمہ)

گاڑی چلی تو مجھے یاد آتا رہا کہ کیسی کیسی شبیں بِتا چُکا ہوں اور شب بسری کو کیسے کیسے ٹھکانوں سے میں رخصت لیتا رہا ہوں۔ ایک روز رات اُترے گی جس کی سویر میں نہ دیکھ پاؤں گا۔ مگر مرنے سے قبل مجھے ذرا رنج نہیں ہو گا کہ میں نے دُنیا اپنی بساط کے مطابق دیکھ لی اور خدا کو کہہ سکوں گا کہ تُو نے بہت خوب سجائی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply