نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن ۔ میثم اینگوتی

دھرتی ماں کی محبت فطرت کاتقاضہ اور ایمان کاحصہ ہے۔ نحوست کے سائے تقسیم کے فورا ً بعد ہی منڈلانے لگے تھے لیکن جوں جوں وقت گذرتاگیا  آسیبی سائے اوربڑھتے گئے۔ طبقہ اشرافیہ کے تمام طبقوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ دھن دولت کے پجاری  سیاست دانوں ، بیوروکریٹوں، ججوں، جرنیلوں اور مولویوں نے اس  ملک    کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔

یہ ملک ہمیشہ ہی لشکروں کی زد میں رہا۔ یہ لشکر بھی ایسے جنہیں تقدس دیاگیا جنہیں ریاست کابغل بچہ کہاجاتارہا اور  ایک عرصہ ہماری کٹھ پتلی قیادت تو کیاعالمی سامراج بھی انہیں ہیروزآف تھرڈ ورلڈقراردیتا رہا۔ بنیادپرستی کو نہ صرف سہارا دیاگیا بلکہ اسے بھرپور نشوونماکااور پھلنے پھولنے کے لئے سیاسی،معاشی  اور نظریاتی تعاون فراہم کیاگیا۔

ان لشکروں  کی  نہ ملک کو ضرورت تھی اور نہ ہی قوم کو بلکہ یہ دوعالمی طاقتوں کی جنگ تھی جس کا ایندھن پاکستان اور افغانستان کے غریب عوام بن گئے۔ منشیات، ڈکتیاں،اغوابرائے تاوان ،بم دھماکے اور ٹارگیٹڈ حملے اس جنگ کا تحفہ ہیں ، جسے چند جرنیلوں ، سیاست دانوں اور مولویوں نے افغانستان سے پاکستان منتقل کیاتھا۔

قوم نے انتہائی صبر سے کام لیا اور دیکھتی رہی کہ ریاست کیابیانیہ دیتی ہے اور دہشت گردی کو سہتی رہی۔ ملک کاکوچہ کوچہ مقتل بن گیا لیکن دہشت گردی کاجن ہے کہ بوتل سے نکلتاجارہاہے۔ بازاروں ،درباروں اور مسجدوں کو سینکڑوں مرتبہ درندگی کانشانہ بنایاگیا ۔آپریشن پرآپریشن لیکن نتیجہ ندارد۔

بس کیاتھا اندھیرنگری چوپٹ راج۔ سیاسی عدم استحکام ، ملٹری اورسول قیادت میں موجود تناؤ اور  بلاوجہ کے دھرنوں اور جلسوں نے قوم کو ڈپریشن اور کنفیوژن میں مبتلاکیا۔ اب ہر شخص مجمع لگاکر ریاست کو للکارنے لگا اور ریاست کوفرصت ہی نہیں کہ ایسے لوگوں سے بروقت نمٹاجائے۔ تحریک لبیک یارسول اللہ کامقصد نیک اورمطالبات درست حرمت رسول  پر ہماری جان قربان لیکن یہ  ضد اورہٹ دھرمی ہی کہلائے گی کہ حکومت نے مطالبات مان لئے اور اپنی غلطی بھی مان لی لیکن یہ لوگ ہیں کہ مان ہی نہیں رہے۔ زاہدحامد کی معزولی اس آگ اورخون کے کھیل سے بہترتھی۔ ریاست کی خاموشی،مصلحت پسندی اورلاپرواہی ہی کی بدولت مولاناخادم رضوی دارالحکومت کویرغمال بنائے رکھتا ہے اور حکومت بیس دن مذاکرات کھیلتی رہتی ہے۔

دل خون کے  آنسو روتاہے ،دارالخلافہ جب میدان جنگ بنتا دکھائی دیتاہے اور ریاست بےبس نظرآتی ہے ۔ میں سکیورٹی فورسز کی مجبوری کوبھی سمجھتاہوں کہ وہ کیسے اپنے لوگوں سے لڑے۔ حکومتی  قیادت اور دھرناقیادت خداکاخوف کھائے اورقوم کو آگ اور خون سے بچائے اس ملک کے ہرگلی اورکوچے سے پہلے ہی خون رس رہاہے مزید زخموں کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ درست فرمایاتھا مولائے کائنات نے ” حکومت کفرکی قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں۔”  ریاستی ہویاغیرریاستی عناصر لیکن  اس ملک کے عوام کی زندگی اجیرن ہےاور بقول فیض۔

نثارمیں تیری گلیوں کے ، اےوطن کہ جہاں

چلی ہے رسم  کہ کوئی  نہ سراٹھا کے چلے

جو  کوئی    چاہنے   والا  طواف   کو نکلے

Advertisements
julia rana solicitors

نظرجھکاکےچلے جسم وجان بچا کے چلے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply