آٹزم لیول 3 (درمیانے درجے کا آٹزم)-خطیب احمد

ایک سال قبل میں نے دو آٹسٹک بچوں سے ملنے کے لیے اسلام آباد کا سفر کیا۔ دونوں کے بچے آٹزم لیول 3 کی شدید علامات کے ساتھ تھے کہ 15 سے 20 سال کے ہو کر بھی ٹائلٹ ٹرین نہیں تھے۔ ان کو پیمپر لگا کر رکھنا پڑتا تھا۔ نان وربل تھے۔ یعنی ایک لفط بھی نہیں بولتے تھے۔ ہر وقت موبائل سکرین استعمال کرتے تھے۔ والدین ان کو کہیں نہ لیکر جا سکتے تھے نہ ان کو گھر چھوڑ کر کہیں بھی خود جا سکتے تھے۔ 24/7 سروس تھی۔ روز مرہ کے مسائل الگ۔ ان دونوں میں لڑکی بہت زیادہ وائلنٹ تھی۔ ماں باپ بہن بھائیوں کو کئی بار مار چکی تھی۔ خود کو کمرے یا واش روم میں بند کر لیتی۔ کئی بار دروازوں کی چٹخنیاں توڑنی پڑیں۔

وہ لڑکی میرے سامنے آئی تو میرے منہ پر تھوک دیا۔ بات یہاں نہیں رکی چائے کا کپ بھی چائے سمیت بھی پکڑ کر مجھے دے مارا۔ اسکا مطالبہ تھا کہ مجھے گھر سے فی الفور نکالا جائے۔ وہ کسی بھی ڈاکٹر یا تھراپسٹ کے پاس جانے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ انکے گھر میں کسی رشتہ دار تک کو بھی داخل ہونے کی اجازت تھی۔ وہ لڑکی جان لیوا حملہ کر دیتی تھی۔ یا اپنا سر دیوار میں مارنے لگتی۔ اپنا سر پیٹنے لگتی۔ چیخنا چلانا شروع کر دیتی۔ دونوں کو ہر روز کھانا خود کھلانا پڑتا تھا۔ پانی بھی خود پلانا پڑتا تھا۔

واش روم بالفرض چلے جاتے تو اگر ان کو کموڈ سے نہ اٹھایا جائے تو گھنٹوں وہیں بیٹھے رہیں گے۔ کھانے پینے میں انتہائی محدود آپشن۔ بیٹے کو والد کھانا کھلاتے اور بیٹی کو والدہ۔ اندھیرے اور اکیلے رہنا سب سے محبوب مشغلہ۔ نہ گرمی کی پرواہ نہ سردی کی۔ اور ایسا بلکل بھی نہیں ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوں۔ گھر میں کون آیا کون باہر گیا۔ گھر میں کیا بات ہو رہی ہے۔ سب کچھ ان کو معلوم ہے۔ اور انکی نیچر سے مخالف یا انکی پسند سے ہٹ کر کوئی بات یا کام کیا گیا تو وہ اس پر اپنا ری ایکشن ضرور دیں گے۔ احتجاج کریں اور کچھ بھی نیا ہونے سے روکیں گے۔ اپنے کمرے میں جو کچھ جہاں پڑا ہوا ہے وہ ہمیشہ ویسا ہی رہے گا۔ کسی کی جرات نہیں ہے کوئی اس میں تبدیلی کر سکے۔

دونوں ماؤں کہ یہ پہلی اولاد تھے۔ ایک بیٹا تھا اور دوسری بیٹی تھی۔ دونوں بچوں کی ماؤں کی عمر 40 کے قریب تھی۔

اس کنڈیشن کو دعاؤں یا دواؤں سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ان بچوں کو انکے پیٹرن میں ہی زندگی گزارنے کی آزادی دینی ہوتی ہے۔ جو کہ اپنی پوری زندگی ان پر قربان کر دینے کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔ غصہ مار یا سختی کرنے سے ان کے رویے مزید بگڑ جاتے ہیں۔ دیہاتوں میں آٹزم لیول تھری کو مجذوب کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ لگتے ہر چیز سے بے خبر ہیں مگر ہوتے پل پل کے عوامل سے باخبر ہیں۔ ان کو پہنچی ہوئی ہستی مانا جاتا ہے۔

پاکستان میں کئی آٹزم لیول 3 کے لوگوں کی وفات کے بعد ان کو ولی کا درجہ دے کر ان کی قبر پر مزار بنا گیا۔ اور لوگ وہاں اپنی منتیں مرادیں لیکر جاتے ہیں۔ حافظ آباد شہر میں بھی آٹزم لیول 3 کے بابا جی تھے۔ ان کو مجذوب سمجھا جاتا تھا۔ اور آج انکا دربار بھی ہے۔ ان کا نام تھا سائیں شریف اور محلہ شریف پورہ میں ہی وہ مدفون ہیں۔ ان کے ماننے والے شاید مجھ سے ناراض ہوں۔ میں ان سے خود انکی زندگی میں ملا ہوا ہوں۔ وہ آٹسٹک لیول تھری پر تھے۔ جنہیں لوگ مجذوب کہتے تھے۔

ایک ماں سے مجھے مل کر تو جیسے لگا یہ اس بچے کی بڑی آپی ہیں۔ عمر میں 10 سال اپنی حقیقی عمر سے کم نظر آئیں۔ اور ماشاءاللہ بظاہر خوش و مطمئن۔ بچے کے والد صاحب کچھ دیر بعد ملے وہ بھی بلکل ینگ و ہیپی بوائے۔ “میری طرح”۔ جب کہ مجھ سے 10 سے 12 سال بڑے تھے۔ دونوں میاں بیوی نے مجھے اتنا متاثر کیا جتنا اب تک کسی والدین نے نہیں کیا۔ آپ کو شاید میری سوچ عجیب لگے۔ میں والدین کو ایسا دیکھنا چاہتا ہوں۔

دوسری طرف راولپنڈی چاندنی چوک گیا تو ماں نے خود کو شوگر بلڈ پریشر کی بیماریوں کے ساتھ موٹاپے کا شکار کر رکھا۔ والد صاحب بھی جوانی میں بزرگ بنے ہوئے کہ ہماری بیٹی کا کیا بنے گا، ماں مسلسل روئے ہی جا رہی تھی۔ جیسے دنیا جہاں کے دکھوں نے انکا گھر دیکھ لیا ہو۔

پہلے والی ماں کی فٹنس کا راز پوچھا تو انہوں نے کہا سر میں ریگولر کراٹے کھیلتی ہوں۔ اور غالباً کالے بیلٹ لیول پر ہوں۔ لگ بھی رہا تھا لڑکی کراٹا مار کر کوئی ہڈی پسلی توڑ سکتی ہے۔ فزیکلی بلکل سمارٹ، کلائی پر سمارٹ واچ اور چہرے پر خوشی و اطمینان۔ ان کو کسی کی ہمدردیاں اور ترس بھرے جملے سننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ وہ ایسے سب عام لوگوں سے کنارہ کر چکے تھے۔

آپ کا بچہ سپیشل ہے۔ آپ روتے ہی رہیں گے خود کو بیماریاں لگا لیں گے۔ اپنے پلے کچھ نہ چھوڑیں گے۔ تو وہ ٹھیک ہو جائے گا؟ ایسا کریں خود کو رو رو کر مار ہی لیں۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا؟ کبھی بھی نہیں۔ اس کے جو سانس میرے مالک نے لکھے ہیں وہ اس نے لینے ہیں۔ اور ویسے ہی لینے ہیں جیسے لکھے ہیں۔ کوئی دعا کا دوا اس حالت کو بدلنے والی نہیں۔ ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی اسکی ایک قسم ہے۔ بچہ دن بدن موت کی طرف جا رہا ہوتا۔ پوری دنیا ملکر پر بھی اس بیماری کے ہر روز بڑھنے کو نہیں روک پا رہی۔

یہاں سپیشل بچوں کے اکثریتی والدین کو روتے دھوتے دکھوں میں ڈوبے ہی دیکھا ہے۔ وہ بچوں کو ٹھیک کرنا چاہ رہے ہوتے۔ جو اکثر کیسز میں کبھی بھی نہیں ہونا ہوتا۔ اور انکے خود ساختہ دکھ کبھی ختم ہی نہیں ہوتے۔ جو ہوگیا سو گیا اب باقی بچوں کا حق اور پیار تو اس سپیشل بچے کو نہ دیں۔ باقی بچوں کے حصے کے وسائل اس پر ضائع نہ کریں۔ یہ آپ اپنے ساتھ اس سپیشل بچے کے ساتھ اور دوسرے سب بچوں کے ساتھ زیادتی کریں گے۔

اس بچے کے ایسا ہونے میں آپکا کوئی قصور نہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہو پا رہا تو بھی آپکا کوئی قصور نہیں۔ جذباتی ہونا اپنے بس میں نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اتنے مضبوط نہیں ہوتے کہ سپیشل بچوں کو سپیشل ہی قبول کر سکیں۔ مگر آپ کو یہ کرنا ہے۔

اگر آپ خوش رہیں گے۔ اپنا خیال رکھیں گے۔ اس بچے کی معذوری کو ہر وقت اپنے سر پر سوار نہیں کریں گے۔ تو اس بچے کے لیے واقعی کچھ کر پائیں گے۔

آپ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ معیار زندگی میں کچھ بہتری اور بس!

پلیز ابھی ایموشنل نہیں ہونا۔ دھیان سے میری بات سنیں۔

جاہل لوگ تو کہیں گے کہ اسے تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ بچہ سپیشل ہے اور اسکے فیشن دیکھو۔ ہر بیوہ یا طلاق یافتہ جو خوش رہتی ہے اپنا خیال رکھتی ہے اسے بھی بیوقوف لوگ یہی کہتے ہیں کہ بیوہ ہو کر طلاق لے کر بھی اسکے فیشن نہیں ختم ہوئے۔ یا بار بار وہی بات کریں گے جو آپ نہیں کرنا چاہتے۔ ایسے لوگوں کو اپنی زندگی سے باہر کر دیں۔ دور کر دیں۔ ڈیلیٹ کر دیں۔ یا ملنا ملانا بہت ہی کم کر لیں۔ یہ آپ کی مشکلات کو کبھی بھی کم نہیں ہونے دیتے۔ تسلی و ہمدردی کے نام پر مسلسل ذہنی اذیت دے کر آپ کو برباد کر دیں گے۔ زندگی جینے کا حوصلہ چھین لیں گے۔

ان لوگوں سے ملیں جو آپ کو آگے بڑھنے میں مددگار ہوں۔ جو ہوگیا وہ واپس نہیں ہونا۔ یا ٹھیک نہیں ہونا۔ اس پوائنٹ سے اگلا قدم اٹھائیں۔ میں آپکا بچہ سو فیصد ٹھیک نہیں کر سکتا۔ ہاں آپکو آگے بڑھنے میں مدد کر سکتا ہوں۔ یہی کرتا ہوں۔

خوش رہنا ہے۔ رونا دھونا بند کریں پلیز۔ کراٹے گرل بنیں۔ یوگا گرل بنیں۔ سماج میں کچھ بڑا اور مثبت رول پلے کریں۔ آپ کو کس نے روکا ہے؟ اپنی زندگی بھرپور جئیں۔ اس بچے کی وجہ سے اپنی زندگی ختم نہ کریں۔ اس کی جو زندگی ہے وہ اپنی جئیے گا۔ آپ کی محبت یہ نہیں کہ آپ خود کو بھی مار لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلکہ خود کو ٹھیک رکھیں۔ اپنی ریگولر کئیر کریں۔ معذوری کو قبول کر لیں اگر دائمی ہے تو۔ کہ یہ کبھی بھی سو فیصد ٹھیک نہیں ہونی۔۔ کوئی بیماری تو ہے نہیں جس کا علاج ہو۔ یہ تو عمر بھر ساتھ رہنے والی کنڈیشن ہے۔ آٹسٹک بچہ بس اپنی دنیا سے ایک حد تک ہی نکل پائے گا۔ آپ جو مرضی کر لیں۔ اسے اسکی دنیا میں جینے دیں آپ اپنی دنیا میں جئیں اور خوش رہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply