بجلی کے ایک بل کی کہانی/اقتدار جاوید

یہ کہانی 179 یونٹ والے بل کی ہے۔
اس بل کا صارف کون ہے اور اس کی اس بل کو ادا کرنے کی صلاحیت ہے بھی یا نہیں فی الحال ایک طرف رکھتے ہیں۔فی الحال صرف توجہ اس پر مرکوز کرتے ہیں کہ ایک سو اناسی یونٹ کے بل میں پورے بل کی رقم کیا بنتی ہے اور بجلی کے اخراجات کتنے ہیں؟۔ اور اس پر ٹیکس یا محصولات کتنے ہیں۔یہ ٹیکس کیا حکومت پاکستان وصول کر رہی ہے یا اس کا متعد بہ حصہ کسی اور ادارے کی جیب میں جا رہا ہے۔کیا وہ ادارہ حکومت پاکستان سے الگ کوئی شے ہے یا اسی مملکت خداداد کی حدود میں ہے؟۔ اور اسی حکومت پاکستان کے ماتحت کام کرتا ہے۔کیا ایک سو اناسی یونٹ کے بل کی رقم حکومت پاکستان کو جاتی ہے یا دنیا کا کوئی اور ادارہ ہے جو کسی دوسرے ملک سے آ کر یہ رقم وصول کرتا ہے۔
اس بل کے صارف کو اس سے غرض نہیں کہ بل کی قیمتیں کس حساب سے تعین کی جاتی ہیں اور ان کے پیچھے کن لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے۔یہ بھی نہیں کہ لائن لاسز کی شرح بجلی کی پیداوار اور صارف تک ترسیل میں دس سے پندرہ فیصد ہے۔خود اس محکمے والوں کا کہنا ہے کہ یہ رقم ایک سو پچاس ارب کے قریب سالانہ ہے۔یعنی حکومت ہر سال صرف اس مد میں اتنا نقصان اٹھاتی ہے۔یہ رقم آئی ایم ایف کے سامنے ایک ارب ڈالر مانگنے کا تیسرا حصہ ہے۔صارف اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
یہ بل گیپکو GEPCO نے جاری کیا ہے۔گیپکو چھ اضلاع گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد، سیالکوٹ اور نارووال پر مشتمل ہے۔ان چھ اضلاع میں میں وہ ضلع منڈی بہاؤالدین بھی شامل ہے جہاں 179 یونٹ والے بل کی کہانی بیان کرنا مقصود ہے۔اس 179 یونٹ کا بل کتنا بنتا ہے۔ یہ گیپکو کا مسئلہ بھی نہیں اور کسی بھی بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی کا نہیں۔گیپکو نہ بجلی کے نرخ کا تعین کرتا ہے اور نہ صرف شدہ یونٹس پر مزید محصولات لگانے کا ذمہ دار ہے۔یہ بل ایک عام آدمی کے گھر کا بل ہے جس میں کوئی ائیر کنڈیشنر نہیں اور یہ گھر دو کمروں پر مشتمل ہے۔بجلی کی قیمتوں میں استحکام تو کبھی نہیں رہا مگر اب تو بجلی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے۔اتار تو کبھی نہیں ہوا اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔
179 یونٹ کا ٹوٹل واجب الادا بل 2838 روپیہ ہے۔گویا سادہ ترین حساب سے بل فی یونٹ محض پندرہ سولہ روپے ہے۔مگر تکلیف دہ امر یہ ہے کہ 179 یونٹ کے بل میں بجلی کی قیمت صرف 1568 روپے ہے۔اس حساب سے فی یونٹ بجلی کی قیمت نو روپے سے بھی کم بنتی ہے۔یہ ضروری ہے کہ دیکھا جائے اس بل میں وہ کون سے اخراجات شامل کیے ہوئے ہیں جس کی بنا پر بل اصل سے دوگنا ہو گیا ہے۔
اس بل میں صرف شدہ بجلی کی قیمت کے علاوہ اخراجات کی تفصیل دلچسپی کا باعث ہے اور وہ کچھ یوں ہے
1 : سروس کرایہ نوے روپے
(آیا یہی میٹر رینٹ ہے یا یہ اخراجات اس سے الگ ہیں بل میں جان بوجھ کر اس طرح لکھے گئے ہیں کہ دیکھنے والےکو کچھ علم نہیں ہو سکتا۔)
2 : فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چھ سو سولہ روپے۔
بل کے محصولات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔مذکورہ بالا دو مدوں میں بیان کیے گئے اخراجات گیپکو وصول کرے گی۔گویا گیپکو حکومت پاکستان سے کوئی الگ ادارہ یا شے کہ صارف سے وصول ہونے والی رقم یا یوں کہیے کہ سروس کرائے کے نوے اور چھ سو سولہ روپوں کا حکومت پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
3: محصول چونگی پچیس روپے
4: ٹیلی ویژن فیس پینتیس روپے
5 : جنرل سیلز ٹیکس تین سو سولہ روپے
6: ایف سی سرچارج ستتر روپے
7: ٹیکس آن ایف پی اے ایک سو سولہ روپے
اسی پر بس نہیں کیا گیا ایک اور مد ٹوٹل فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے جس میں سات سو تینتیس روپے بھی بل میں شامل کیے گئے ہیں۔صارف یہ ٹیکس ایک بل کی ادائیگی پر ادا کرتا ہے باقی اشیائے خوردونوش پر جو اسے ادا کرنا پڑتا ہے اس کا معاملہ الگ ہے۔
اس وقت بجلی کے بلوں کے سلیب الگ الگ متعارف ہیں جس میں سب سے نچلا سلیب شاید یہی ہے جو دو سو یونٹ تک ہے۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے اسٹیٹ آف دی انڈسٹری رپورٹ میں کہا ہے کہ بجلی بلوں میں ایسے سرچارج بھی ہیں جن کا صارف کی بجلی کھپت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔خود نیپرا نے مزید اعتراف کیا اور
نیپرا رپورٹ کے مطابق 2021-22میں ایل این جی کی قلت کے باعث مہنگے پاور پلانٹس چلائے گئے، ایل این جی کی قلت سے صارفین پر 19 ارب 33کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑا، ملک میں بجلی کی طلب کے باوجود بہترین صلاحیت والے پلانٹس نہیں چلائے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گڈو پاور پلانٹ کے ایک یونٹ سے بجلی پیدا نہ کرنے سے 55 ارب روپے کا نقصان ہوا، چھ شوگر ملیں 2 سال سے بجلی کمپنیوں سے بجلی خریدنے کا کہہ رہی ہیں، بجلی کمپنیاں اپنے علاقوں میں پلانٹس سے سستی بجلی نہیں خرید رہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجلی مہیا کرنے والی کمپنیاں اس اختیار کی مالک ہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں شوگر ملوں سے سستی بجلی خرید سکتی ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق کمپنیاں اس معاملے میں فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ ایسے مسائل نیپرا کے سردرد نہیں ہیں۔اس کے علی الرغم چیئرمین واپڈا کی طرف سے تما م سی ای اوز، ایم ڈی، چیف ایگزیکٹوز ، منیجنگ ڈائریکٹر اور پرنسپلز کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ واپڈا کے دفاتر اور پراجیکٹس میں قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر کے ساتھ چیئرمین واپڈا کی تصاویر آویزاں کی جائیں۔یہ تصویر لگانے سے بجلی سستی ہو جاتی ہو گی؟۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply