خلع اور طلاق کا معنیٰ و مفہوم/عدیل ایزد/دوسرا،آخری حصّہ

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عدالتی خلع اور تنسیخ نکاح

نسخ کا لغوی معنی:

“تناسخ ایک کے بعد دوسری چیز کا اس کے قائم مقام ہونا ہے۔”

اس حوالے سے نسخ کا لغوی معنی بدل دینا یا ایک حکم سے دوسری کو بدل دینا ہے۔

اصطلاحی معنی:

شرعی اصطلاح میں ایک حکم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے دوسرے حکم سے بدل دینا ہے۔

جیسے “آدم علیہ السلام کے زمانے میں سگے بہن بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے دوسرے حکم سے بدل کر حرام کر دیا گیا۔”

عدالتی خلع:

عدالتی خلع میں عدالت سے عورت رجوع کرتی ہے۔ اور اس کی درخواست پر کاروائی کی جاتی ہے۔ اگر مرد رضا مند ہو جائے اور بدل کے عوض عورت کو طلاق دے تو یہ خلع کہلاتا ہے ۔

اس طرح علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ یکطرفہ فیصلہ یعنی مرد کی مرضی اور اجازت کے بغیر نکاح کی گرہ کھول دینا تنسیخ نکاح یا فسخ نکاح کہلاتا ہے۔ خلع اور تنسیخ نکاح طلاق بائن کا درجہ رکھتی ہیں یعنی

إن اختارت الفرقة أمر القاضي أن يطلقها طلقة بائنة فإن أبى فرق بينهما۔۔۔والفرقة تطلقة بائنة

ترجمہ: (اگر بیوی جدائی چاہتی ہے تو قاضی (عدالت اس کے خاوند کو طلاق بائن دینے کا حکم دے گی۔ اگر شوہر انکار کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کر دے یہ فرقت طلاق بائن ہوگی)۔

اس کی وضاحت حدیث سے الفاظ میں بھی ہے الفاظ حضرت عبد اللہ ابن عباس نے آپ ﷺ کےنقل کیے۔

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِيقَةً بَائِنَةً

ترجمہ: ( نبی کریم ﷺ نے خلع کو طلاق بائن قرار دیا )۔

عدالتی خلع اور شرعیت

عدالتی خلع کو فقہا کی ایک جماعت فسخ نکاح قرار دیتی ہے۔ یعنی شوہر کی اجازت کے بغیر حکام نکاح کے معاہدے کو توڑ دیں ۔

امام احمد کا مسلک یہی تھا کہ خلع طلاق نہیں فسخ ہے۔ امام احمد بن حنبل خلع کو فسخ نکاح قرار دیتے ہیں۔ لیکن وہ فریقین کی مرضی سے اس معاہدے کو ختم کرنے کو لازمی شرط قرار دیتے تھے ۔

علامہ ابن قدامہؒ تحریر فرماتے ہیں۔

“ولا يَفْتَقِرُ الخُلْعُ إلى حاكم. نَصَّ عليه أحمدُ، فقال: يجوزُ الخُلْعُ دونَ السُّلطانِ. ورَوَى البُخَارِىُّ ذلك عن عمرَ. وعثمانَ، رَضِىَ اللَّهُ عنهما. وبه قال شُرَيْحٌ، والزُّهْرِىُّ، ومالكٌ، والشافعىُّ، وإسْحاقُ، وأهلُ الرَّأْى. وعن الحسَنِ، وابنِ سِيرينَ: لا يَجوزُ إلَّا عنْدَ السُّلطانِ. ولَنا، قولُ عمرَ وعثمانَ، ولأنَّه مُعاوَضَةٌ، فلم يَفْتَقِرْ إلى السُّلطانِ، كالبيعِ والنِّكاحِ، ولأنَّه قَطْعُ عَقْدٍ بالتَّراضِى، أشْبَهَ الإِقالةَ”

ترجمہ: خلع کے لیے حاکم کی ضرورت نہیں ، امام احمدؒ نے اس کی تصریح کی ہے ۔ چنانچہ کہا ہے کہ خلع بغیر سلطان کے جائز ہے ۔ اور امام بخاریؒ نے یہی مذہب حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا نقل کیا ہے ۔ اور امام شریح ؒ، امام زہریؒ، امام شافعیؒ، امام اسحاقؒ اور اہل رائے کا بھی یہی قول ہے ۔ اور حسن بصریؒ اور ابن سیرینؒ سے ایک روایت یہ ہے کہ خلع صرف حاکم کے پاس ہو سکتا ہے۔ اور ہماری دلیل حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا قول ہے۔ نیز یہ کہ خلع ایک عقد معاوضہ ہے لہذا اس میں سلطان کی ضرورت نہیں جیسے بیع اور نکاح علاوہ ازیں خلع باہمی رضا مندی عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام ہے، لہذا وہ اقالہ کے مشابہ ہے۔

یہاں اقالہ سے مراد کاروباری معاہدہ ہے ۔

طلاق کے لغوی معنیٰ:

طلاق ایک تو طَلَقَ سے مصدر ہے جس کے معنی “آزاد ہو جانا”۔

دوسرا یہ لفظ طَلَّقَ سے اسم ہے جس کے معنی آزاد کرانا کے ہوں گے۔

طلق المرأة من زوجھا

عورت اپنے شوہر سے جدا ہو گئی۔

طلاق کے اصطلاحی معنی:

اصطلاحی طور پر الفاظ مخصوصہ کے ساتھ فی الفور یا ازروئے مال نکاح کی قید کو اٹھا دنیا طلاق ہے۔ الفاظ مخصوصہ سے مراد وہ الفاظ ہیں جو مادّہ طلاق پر صراحۃً یا کِنایَۃً مشتمل ہوں اس میں خلع بھی شامل ہے، اور نامردی اور لعان کی وجہ سے نکاح کی قید از روئے مال اٹھ جاتی ہے۔

نکاح ایک شرعی معاہدہ اور طلاق، خلع اور شیخ نکاح اس معاہدہ کی گرہ کھولنے کا نام ہے ۔

حصول خلع میں فیملی کورٹ کا کردار: طلاق اور خلع دونوں ہی رشتہ زوجیت کو ختم کرنے اور علیحدگی اختیار کرنے کا نام ہے۔ جس طرح طلاق کو “أبغض الحلال” کیا گیا ہے اسی طرح اس عورت پر بہشت کی خوشبو کو حرام کر دیا گیا ہے جو بغیر کسی وجہ وجواز کے خلع کا مطالبہ کرے۔  زوجین کے مابین مفاہمت کی بھر پور کوشش کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِۦ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَآ إِن يُرِيدَآ إِصْلَٰحًا يُوَفِّقِ ٱللَّهُ بَيْنَهُمَآ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا

ترجمہ: اور اگر تمھیں ان دونوں کے درمیان جھگڑے کا ڈر ہو تو بھیجو ایک منصف شوہر کے گھر والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے اور اگر وہ دونوں اصلاح چاہتے ہوں تو اللہ ان کے درمیان موافقت کردے گا بلا شبہ اللہ جانے والا خبر رکھنے والا ہے۔

یعنی زوجین کے درمیان صلح صفائی کی کوشش کرائی جائے ۔ اکثر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ جب کوششیں بار آور ثابت نہ ہوں تو معاملات کو عدالت میں لے جایا جاتا ہے ۔

عدالتی کاروائی میں بھی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ عقد کو محفوظ کر لیا جائے لیکن جب ہر طرح کی کوشش بے ثمر معلوم ہو تو پھر فیملی کورٹ مرد کو حکم دیتی ہے کہ وہ عورت کی درخواست پر عمل کرے ۔  ہمارے معاشرے میں اگر چہ شعور کی کمی موجود ہے اس لیے رشتوں کو انا کی بلی میں ایسا لہولہان کیا جاتا ہے کہ پھر آخری چارہ عدالت کا دروازہ ہی ہوتا ہے۔

طلاق کی اقسام

طلاق کی درج ذیل اقسام ہیں۔

طلاق بائن: یہ طلاق کی ایسی قسم ہے جس میں مرد کو رجوع کا اختیار نہیں رہتا ۔ البتہ وہ نے مہر اور شرائط کے ساتھ عقد جدید کر سکتا ہے۔ طلاق بائن میں رجوع کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ اور نئے نکاح کے لیے عورت کی مرضی شامل ہونا ضروری ہے ۔

درج ذیل صورتوں میں طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے ۔

  1. خلع کی صورت جس میں مرد نے عوض کے بدلے طلاق دی ہو۔ اس صورت میں طلاق بائن واقع ہو جائے گی ۔
  2. مرد نے طلاق دی اور عدت گزرنے تک رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے کے بعد طلاق بائن ہو جائے گی ۔
  3. اگر دونوں کے منصفوں نے طلاق دی جب کہ زوجین رضامندی کا اظہار کیا ہو تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔
  4. رخصتی کے بعد اگر مجامعت سے قبل طلاق دے دی تو اس صورت میں بھی طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے۔ جب کہ اس صورت میں عدت شمار نہیں ہوگی۔ محض وقوع طلاق سے وہ جدا ہو جائیں گے۔
  5. ایک ہی مجلس میں تین طلاق دینے سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی جبکہ اس صورت میں نئے نکاح کے لیے عورت کا دوسرا نکاح کسی اور مرد سے ہو اور پھر اگر اسے وہاں سے طلاق ہو جائے تو سابقہ شوہر پر پھر حلال ہوگی یعنی “حلالہ” کی صورت میں مگر حلالہ قصوراً ایک گناہ ہے۔

طلاق رجعی: جس میں شوہر کو رجوع کا  حق  ہو  چاہے جس میں نے کا حق ہو، چاہیے عورت رضامندی کا اظہار کرے یا نہ کرے۔  قرآن مجید میں ارشاد ہے :

وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا

ترجمہ: اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انہیں واپس لانے کا زیادہ حق رکھتے۔

طلاق رجعی کی درج ذیل صورتیں ہوتی ہیں۔

  1. رجعی طلاق مدخولہ عورت کو تین سے کم طلاقوں کی صورت میں ہوتی ہے۔
  2. رجعی طلاق میں عورت عدت اپنے شوہر کے گھر گزارے اور اس دوران نان و نفقہ اور رہائش مرد کے ذمہ ہوتا ہے ۔
  3. عدت کے دوران مرد کو رجوع کا اختیار ہوتا ہے۔
  4. عدت گزرنے کے بعد وہ مرد سے جدا ہو جائے گی۔
  5. رجوع کی صورت میں مرد کا صرف کہہ دینا کہ “میں تجھے واپس لیتا ہوں” کافی ہوتا ہے اور رجوع پر دو عادل گواہ بنانا مسنون ہے۔

طلاق صریح: طلاق دیتے ہوئے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا جو صاف اور واضح ہوں اور اس سے طلاق ہی مراد ہو۔

جیسے مرد اپنی بیوی سے کہے

“میں  نے  تجھے  طلاق  دی ”  یا ” تو  مطلقہ  ہے ”

طلاق کنایہ: ایسے الفاظ جن سے مفہوم واضح نہ ہوتا ہو۔  اشاروں کناروں میں کہی ہوئی بات۔ جیسے

“مرد کہے تو اپنے میکے چلی جا،  گھر سے نکل جا،  تو ایسی صورت میں ارادہ  اور  نیت معلوم کی جائے گی۔  اگر شوہر کا ارادہ طلاق کا تھا تو طلاق رجعی واقع ہو جائے گی ”

طلاق معلق: ایسی طلاق جسے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی شرط کے ساتھ باندھ دیا جائے جیسے اگر خاوند کہے کہ اگر تو میکے جاتی ہے تو تجھے طلاق ۔  اس صورت میں شرط یہ طلاق معلق ہو گئی۔  مرد اپنی عورت کو کہے کہ میں تجھ تیرے معاملہ کا مالک بناتا ہوں یا تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں اور عورت جواب میں طلاق لے لے تو اس صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہو جائے گی “۔

 جبری طلاق :  مکرہ ایسا شخص ہے جس پر دباؤ ڈالا جائے۔  فقہ کی اصطلاح میں مکرہ  وہ شخص ہے جسے جان کا خطرہ لاحق ہو ۔

ایسا شخص اگر دباؤ اور اکسانے پر اپنی بیوی کو طلاق دے ڈالے تو شریعت اس صورت میں اس کی طلاق کے بارے میں اس طرح کہتی ہے کہ

“ایسی حالت میں اس شخص کا ارادہ  و  اختیار اپنی جگہ پر باقی رہتا ہے ۔  اس لیے شریعت نے اس کی طلاق کو معتبر اور صحیح  مانا ہے ۔”

آئمہ و مجتہدین کا موقف درج ذیل ہے ۔

” امام ابو حنیفہؒ  کے نزدیک طلاق واقع ہو جائے گی۔”

لیکن دیگر آئمہ کا موقف مختلف ہے جیسے

“امام شافعیؒ ،  امام مالکؒ،  امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوگی۔”

طلاق کی اہمیت:

طلاق اور خلع کی اجازت ناگزیر حالات میں  دی گئی ہے ۔  اسلام جو کہ امن و آشتی کا دین ہے اور رشتوں میں یہ امن قائم رہے اس  لیے یہ اجازت رکھی گئی ہے۔

اسلام نے صرف انہی حالات میں طلاق اور خلع کی اجازت دی ہے جب افہام و تفہیم سے معاملات کا حل موجود نہ ہو۔

میاں بیوی کا ساتھ رہنا دشمنی اور نفرت کی فضاء پیدا کرے تو اس طرح کے حالات میں طلاق کی  رخصت موجود ہے مگر اسلام نکاح کو فروغ دیتا  ہے جبکہ طلاق کی مذمت کرتا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ  نے فرمایا :

تزوَّجوا ولا تطلِّقوا ، فإنَّ الطَّلاقَ يَهْتزُّ منه العرشُ

ترجمہ :  یعنی نکاح کرو  اور طلاق نہ دو۔  کیونکہ طلاق دینے سے رحمن کا عرش ہل جاتا ہے۔

زوجین کو متوقع یا حقیقی نقصان سے بچانے کے لیے طلاق کا راستہ رکھا گیا ہے ۔  اگر نقصان کا ازالہ طلاق سے ہی ممکن ہے تو اس میں طلاق لازم ہے۔

طلاق کے ارکان

طلاق کے تین رکن ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

طلاق شوہر کا اختیار ہے۔

یعنی طلاق صرف وہی دے سکتا ہے جس کے عقد میں عورت ہو۔ غیر خاوند طلاق دینے کا اختیار نہیں ر کھتا۔

اس بارے میں رسول اللہ  ﷺ کا فرمان ہے :

إِنَّمَا الطَّلَاقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ

ترجمہ :   طلاق وہی ۔ سکتا ہے جس کے قصے میں بنڈلی ہے۔

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ عاقل و بالغ خاوند اپنے آزاد اختیار کے تحت طلاق دے سکتا ہے۔

جبکہ مکرہ شخص اور نابالغ کے لیے احکام مختلف ہیں۔

آپ  ﷺ نے فرمایا :

إنَّ اللَّهَ تجاوزَ عن أمَّتيَ الخطأَ والنِّسيانَ ومَا استُكرِهُوا عليه

ترجمہ :  اللہ تعالیٰ میری امت سے خطاء ،  نسیان اور جس پر اکراہ  (جبر)  کیا جائے،  میں تجاوز کریں گے  (یعنی ایسی صورت میں باز پرس نہیں ہوگی)۔

طلاق بیوی پر واقع ہوگی ۔

خاوند   اس عورت کو طلاق دینے پر قدرت رکھتا ہے  جو اس کے عقد میں ہے ۔ یعنی وہ اس کی بیوی ہو۔  جو طلاق کے بعد عدت گزار چکی ہو یا  سرے سے اس کی بیوی ہی نہ ہو اس کو طلاق دینا ایک لغو بات ہے ۔

آپ ﷺ  کا ارشاد ہے ۔

لا نذرَ لابنِ آدمَ فيما لَا يَمْلِكُ ولَا عِتْقَ لَهُ فيما لَا يَمْلِكُ وَلَا طلاقَ لَهُ فيما لَا يَمْلِكُ

ترجمہ :  جس چیز کا انسان مالک نہیں ،  اس میں سے نذر  دینا،  اس کو آزاد کرنا  اور طلاق دینا معتبر نہیں ہے  ۔

الفاظ صریحہ و کنایہ:

محض دل کے ارادے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس کے لیے نیت کے ساتھ مخصوص الفاظ کا استعمال جدائی کا اظہار ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ  کا ارشاد ہے۔

 إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ

ترجمہ :  کلام یا عمل کرنے سے دل کے ارادہ کو اللہ تعالٰی نے میری امت کے لیے معاف کر دیا ہے۔

طلاق اور خلع کی بحث میں مرد اور عورت کا مقام :

مغربی متعصبین نے ہمارے بیچ تعصب کی ایسی فضا پیدا کی ہے اور اسلام پر وار کرتے ہوئے ایسے اعتراضات اٹھائے ہیں کہ جس سے دور جدید کا مسلمان اسلام کو ایک متعصب مذہب جاننے لگا ہے۔

کچھ اعتراض درج ذیل ہیں۔

  • عورت کو برابری کے حقوق نہیں دیئے گئے۔
  • اس کی گواہی بھی آدھی ہے۔
  • وراثت میں اس کا حصہ آدھا ہے۔
  • مردوں کو حاکم و حکمران بنا کر عورت کو مظلوم بنا دیا گیا ۔
  • مردوں کو طلاق کا اختیار دے کر عورت پر ظلم عظیم کیا گیا ہے۔
  • مرد کو سرپرست بنا کر عورت کو مرد کا مرہون منت بنا دیا گیا ۔

اسلام کا موقف: یہ اعتراضات ایک کے ساتھ چار لگا کر اسلام ہے کو متعصب دین ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔  جدید دور میں ایک ایسی ٹرم کا اضافہ ہوا ہے ” فیمنزم” جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عورت کمزور ہے اس پر ظلم ہو رہا ہے اور اسے مساوی حقوق نہیں مل رہے جبکہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ: مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور راستباز مرد اور راستباز عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں کچھ شک نہیں کہ ان کے لیے اللہ نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔

اس آیت میں مرد کو اور عورت کو عبادات کے معاملہ میں برابر کا اجر ملے گا۔ یعنی عبادات کے معاملے میں دونوں برابر ہیں۔

اسلام جو دین اور دنیا کے معاملات کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔

معاملات میں مرد کو قوام بنایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ عورت پر معیشت کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا کیونکہ عورت اپنی جذباتیت کی وجہ مرد کے مقابلہ میں کمزور واقع ہوئی ہے۔ اسی لیے طلاق کا اختیار بھی مرد کو سونپا کہ مرد کے  پاس  فیصلہ لینے کی طاقت عورت کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے۔ اور اکثر و بیشتر وہ معاملات میں جذباتی واقع نہیں ہوا۔

پھر نکاح کی بدولت دونوں ایک ایسے رشتے سے منسلک ہو جاتے ہیں جس میں قدرتی طور پر اللہ نے کشش رکھی اور معمولی تلخ کلامی اور معمول کی نوک جھونک سے اس رشتے کو اثر نہیں پڑتا ۔ اس رشتے میں محبت کے امر کو اس طرح واضح کیا گیا ہے ۔

“اگر محبت کا چراغ زندگی کی اس کٹھن راہ کو روشن نہ کرتا اور رحمت کا جذبہ ایک دوسرے کی دست گیری نہ کرتا تو اس سفر حیات کا انجام کتنا حسرت ناک ہوتا؟ تو ہزار جان قربان ہواس خالق کریم پر جس نے مرد کی جنس سے عورت کو پیدا کیا اور پھر انہیں محبت اور رحمت کے رشتوں میں یوں پرو دیا کہ علیحدگی کا تصور تک پریشان کر دیتا ہے۔”

وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ

اللہ نے مرد کو قوام اور حاکم کا رتبہ اس لیے دیا ہے کہ وہ اپنے سے منسلک رشتوں کو خوب احسن طریقے نبھائے ۔ اور ساتھ ہی اسے نصیحت بھی کی کہ۔

ارشاد باری تعالی ہے:

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ

ترجمہ: اور ان کے ساتھ مناسب طریقے زندگی گزارو۔

حدیث: الرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْہ

ترجمہ: مرد اپنے بیوی بچوں پر حکمران ہے ۔ اور اپنی رعیت میں اپنے عمل پر جوابدہ۔

پھر جو کوئی ظلم و زیادتی سے کام لے گا اسے اس ظلم اور زیادتی کا حساب دینا ہوگا۔

بے شک زوجین کے معاملات میں مرد یعنی شوہر کا رتبہ ایک درجہ بڑھا ہوا ہے مگر اس کے ساتھ ہی اسے خوب خوب عدل اور انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام نے مرد اور عورت دونوں کے لیے ان کے حقوق متعین کر دیئے اور حد سے تجاوز نہ کرنے کا حکم بھی صادر فرما دیا۔

ارشاد نبوی ﷺ ہے:

مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شبْرًا فقد خلع رقة الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ

ترجمہ: جو شخص ایک بالشت برابر بھی اسلامی اجتماعیت سے نکل گیا تو اس نے اسلام کا قلاوہ اپنے گلے سے اتار پھینکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب زوجین کے مابین علیحدگی کے بھی کچھ ضابطے مقرر کیے  ہیں جیسے طلاق مرد کا ہی حق ہے اور خلع کا حق عورت کو دیا ہے۔ اس لیے جدید دور لے جدید فتنوں میں فیمنزم کا فتنہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ جس میں عورت کو مظلوم دکھا کر اسلام کی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام تو نام ہی امن و انصاف کا ہے۔

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply