بیگم۔۔خنسا سعید

نوری اپنی زندگی کے اٹھائیس سال گزار چکی تھی مگر ابھی تک اُس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اُس کی عمر گزرتی جا رہی تھی ،اس کی دوستوں میں سے کوئی بھی کنواری نہیں تھی۔ زوبیدہ، ہمیسا،پروین ،گل بانو، سب بیاہ کر اپنے سسرال چلی گئیں تھیں۔ نوری کو دھچکہ تو اُس وقت لگا جب اُس کی ہم عمر سہیلی زہرا بھی اس کو اکیلا چھوڑ کر چلی گئی تھی، جس کا دومہینے پہلے ہی مولوی صاحب نے ظفر کے ساتھ نکاح پڑھوا دیا تھا۔
جب بھی محلے میں یا محلے سے دور رشتہ داروں میں کسی بھی لڑکی کا نکاح ہوتا، اُن کے گھر دعوت نامہ ضرور بھیجا جاتا، اور نوری اپنی ماں کے ساتھ شرکت بھی ضرور کرتی۔ نوری نئے کپڑے پہنے سجی سنوری عورتوں کو دیکھتی، اور اپنا مقابلہ شادی کرنے والی لڑکی سے کرنے لگتی، مگر نوری کو اپنا سراپا زیادہ حسین نظر آتا۔ وہ نکاحی جانے والی لڑکی کو دیکھ کر خود سے سوال کرتی!!
میری شادی کیوں نہیں ہوتی؟؟؟
میں ہر دفعہ نوری ہی کیوں رہ جاتی ہوں؟؟
شادی کر کے نوری بیگم کیوں نہیں بن جاتی؟؟؟
اس طرح کے کئی سوال اُس کے دل میں آتے۔۔۔۔۔۔۔۔! مگر اس کو اُن سوالوں کا کوئی ٹھیک جواب نہ ملتا۔۔۔۔
شادی میں آئی عورتیں نوری کی ماں سے سوال کرتیں۔۔۔۔۔۔۔!
آپ نوری کی شادی کب کریں گی؟؟؟
کب جائے گی نوری اپنے سسرال؟؟؟
ان سوالوں کا نوری کی ماں ریشماں کو جواب دینا بہت مشکل لگتا۔۔۔۔۔۔
وہ ان عورتوں کو دیکھتی اور کہتی۔۔۔۔۔۔!!
“میں تو نوری کا ابھی نکاح کر دوں ان شا اللہ۔۔۔۔۔ بڑے لڑکے نوری سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ رشتے بھی بہت آتے ہیں میری نوری کے، پر کوئی ڈھنگ کا لڑکا نہیں ملتا۔کوئی ایسا بھی تو ملے جو نوری کے پہلو میں کھڑا جچے بھی، جو بھی ملتا ہے بس نارمل سی شکل و صورت کا ہوتا ہے۔۔۔۔
نوری کی ماں سب سے جھوٹ بولتی، جب نوری اٹھارہ سال کی تھی تو ریشماں نے اپنے شوہر خالد سے نوری کے نکاح کی بات کی، مگر خالد نے، “ابھی چھوٹی ہے” کہہ کر بات ٹال دی۔
جب کہ بات یہ نہیں تھی۔ یہاں جب بھی کوئی شادی ہوتی تو لڑکے والے لڑکی والوں کے سامنے کچھ مطالبات رکھ دیتے، جن کو نکاح سے پہلے پورا کرنا ہوتا۔ خالد کے سامنے بھی یہ ہی رکاوٹ تھی۔ اس نے اس سے پہلے بھی اپنی بڑی بیٹی نفیسہ کی شادی کی تھی۔۔۔۔۔ اُس کے لیے خالد نے سود پر قرضہ لے رکھا تھا جو وہ آج تک نہیں چکا پایا تھا۔۔۔
خالد پیشے کے لحاظ سے بنکر (کپڑا بُننے والا) تھا۔ یہ اُس کا خاندانی پیشہ تھا۔ کئی نسلوں سے وہ لوگ قالین بننے کا کام کرتے آ رہے تھے۔ خالد کشمیر بھر میں ایک جانا مانا کاریگر تھا۔ اُس نے بڑی خوشحالی دیکھی تھی۔ وہ ابھی بمشکل سات یا آٹھ سال کا ہو گا، جب اُس نے اپنے والد کے ساتھ مل کر کام شروع کر دیا تھا۔ مشینی دور ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ اس لیے قالین ہاتھ سے تیار کیے جاتے۔ قالین تیار کرنے کے لیے سوت کا تانا بُنا جاتا۔۔۔۔۔ ایک ایک گرہ لگا کر وہ قالین بُنتے۔۔۔۔ اس کام میں کیا چھوٹا کیا بڑا سارا خاندان لگ جاتا، قالین کو خوبصورت بنانے کے لیے چھوٹی سے چھوٹی گرہ لگائی جاتی۔ اور آخر کار اتنا خوبصورت قالین تیار ہوتا، کہ گھر کا ہر فرد کتنی کتنی دیر تک اس کی طرف دیکھتا رہتا جیسے قالین نہ ہو اُن کا کوئی نوزائیدہ بچہ ہو۔۔۔۔
اگرچہ ایک قالین تیار کرتے کرتے ایک سال کا عرصہ بیت جاتا۔۔۔۔۔ مگر پھر بعد میں اس کو خریدنے کے لیے بادشاہوں کے علاوہ اور بھی بہت سے امیر لوگ آتے اور اس کی منہ مانگی قیمت ادا کرتے۔۔۔۔ وہ قیمت اتنی زیادہ ہوتی کہ گھر کا سارے سال کا خرچہ چلتا رہتا۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ کئی نسلوں سے چلتا آ رہا تھا۔
پھر وقت بدلا۔ ملک آزاد ہوا۔ انگریز چلے گئے۔ بادشاہوں کا راج ختم ہو گیا۔ مغربی تہذیب آہستہ آہستہ ملک میں پھیل گئی۔لوگوں کے شوق بدل گئے۔ گھروں کی سجاوٹ اب بھی ہوتی، مگر اب جس قالین کو سارا خاندان ایک سال میں تیار کرتا، مشین اس جیسے کئی قالین ایک دن میں بُن دیتی۔گھروں میں قالین اب بھی بچھائے جاتے، مگر اب قالین بننے والوں کو اُن کی محنت کا معاوضہ کوئی نہ دیتا۔ منافع کاریگروں کے ہاتھوں سے نکل کر اُن لوگوں کے پاس چلا گیا جو پہلے ہی دولت مند تھے۔ جو قالین بننے کے لیے کاریگروں کو پیسے دیتے۔۔ اُدھار دیے مال پر سود لگاتے۔ تیار شدہ قالین سستے داموں خرید کر بڑے بڑے شورومز پر منہ مانگی قیمت پر بیچ دیتے،بیرون ملک بھیجنے لگے، حائک پھر بھوکے کا بھوکا رہ گیا۔۔۔
اُن قالین بُننے والوں میں ساٹھ سال کا خالد بھی شامل تھا۔ جس کے گھر تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ جس میں سے ایک کی اُس نے شادی کر دی تھی۔ دوسری نوری جس کی عمر اٹھائیس سال تھی،باپ کی دہلیز پر کسی کیل کی طرح گاڑھ دی گئی تھی۔ خالد نے کئی دفعہ اُس کیل کو اُکھاڑنے کی کوشش کی، مگر ہر دفعہ تنگدستی آڑے آ جاتی۔ جب خالد کا نکاح ریشماں سے ہوا تھا، تو خالد کے باپ نے ریشماں کے باپ سے ایک پیسہ بھی نقد نہ لیا تھا۔۔۔۔۔ مگر اب وقت بدل چکا تھا۔ اب لڑکوں کے سودے ہونے لگے تھے۔ لڑکے والے جتنے مالدار ہوتے اُتنے ہی زیادہ لالچی ہوتے۔۔۔۔
نور جوان ہو گئی تھی،یہ بات خالد کو بھی پتہ تھی، مگر وہ لاکھ کوشش کے بعد بھی اس کے لیے کوئی لڑکا نہیں ڈھونڈ پایا تھا۔نور بہت خوبصورت، سگھڑ اور ذہین لڑکی تھی۔ وہ کئی دفعہ قالین بُنتے ہوئے اُس میں ایسے ڈیزائن ڈال دیتی کہ خالد دیکھتا رہ جاتا۔ خالد کا دل چاہتا کہ نور ایسے گھر جائے جہاں کہ بُنے قالین بڑے بڑے گھروں کی زینت بنیں۔۔۔۔۔
ایسے ہی ایک دن کسی دور کے رشتے نے خالد کو نوری کے لیے ساتھ والے گاؤں کے ایک لڑکے کا رشتہ بتایا۔ خالد اگلی ہی صبح جلدی سے اُٹھا اور نماز ادا کرنے کے بعد اُس گاؤں کی طرف چل پڑا،،،خالد نے اس بارے میں صرف اپنی بیوی ریشماں سے بات کی، مگر ماں باپ کو کسی لڑکے کے بارے میں بات کرتے نوری نے سن لیا۔۔۔۔۔ باپ کے گھر سے نکلنے کے بعد اُس نے سوچا کہ وہ ماں سے بات کرے، مگر پھر اُس نے چپ رہنا ہی بہتر سمجھا۔۔۔۔۔
جب سے نوری کی سہیلی زہرا کی شادی ہوئی تھی، نوری نے آئینہ دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔ وہ سوچتی!!!
میں کس لیے شیشہ دیکھوں؟؟؟
کون میری قدر کرے گا؟؟؟
مجھ کو تو کسی نے بھی اپنی بیگم نہیں بنانا؟؟؟
میں تو ساری عمر ابا کی چوکھٹ پر ہی پڑی رہوں گی
مگر آج پتہ نہیں کیا سوچ کر وہ اپنا سراپا آئینے میں دیکھنے لگی۔۔۔۔۔ اُس کے دل میں ایک خوبصورت سے لڑکے کا خیال آیا۔۔۔۔ جو نئے اور خوبصورت کپڑوں میں ملبوس اس کے گھر آئے گا۔۔۔۔۔
پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی نوری سے مولوی صاحب پوچھیں گے؟؟؟
“نوری بیٹی تمہارا نکاح خفیظ میاں کے بیٹے رستم سے ہو رہا ہے۔۔۔۔”
کیا تمہیں یہ نکاح قبول ہے؟؟
اور جب وہ” قبول ہے ” کہے گی تو گھر خوشیوں سے بھر جائے گا۔۔۔۔ اس کی ماں اس کا ماتھا چوم کر اس کو سینے سے لگا لے گی۔۔ اس کے ابا کی چوکھٹ سے کئی برسوں سے گاڑھی میخ اُکھاڑ دی جائے گی۔۔۔۔
دن آہستہ آہستہ گزرنے لگا نوری سارا دن گھر سے باہر نہ گئی، نہ ہی اُس نے کھانا کھایا، بس اُس کو اپنے ابا کے آنے کا انتظار لگا رہا، جو اس کے لیے خوشی کا پیغام لائے گا ۔۔۔۔۔
سورج کی کرنیں ابھی چاروں اوور نہیں پھیلی تھیں، کہ خالد اُس گاؤں پہنچ گیا۔۔۔ گاؤں کی گلیاں گندی اور تعفن زدہ تھیں۔۔۔ اور گھروں کی حالت تو گلیوں سے بھی زیادہ بری تھی، ٹوٹے پھوٹے سے گھر، اور گھروں کے دروازوں پر خستہ حال سے ٹاٹ لٹک رہے تھے۔۔۔۔ یہ دیکھ کر خالد کا دل گھبرانے لگا۔۔۔ وہ دل ہی دل میں اللہ سے دعا کرنے لگا،، کہ اُس کی نوری کے لیے ایسا ٹوٹا پھوٹا خستہ حال گھر نہ ہو۔۔۔ مگر اللہ نے اس کی نہ سنی۔،
اُس نے کسی لڑکے سے گھر کا پتہ پوچھا تو اُس نے دوسرے گھروں کی طرح ہی ایک ٹوٹا ہوا گھر بتایا۔۔۔۔۔ خالد گھر دیکھنے کے بعد کچھ دیر خاموش رہا،، پھر اُس نے “خفیظ میاں” کہہ کر آواز لگائی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ٹاٹ ہٹا کر شکل پر بد حالی طاری کیے خفیظ میاں باہر آئے۔۔۔۔۔۔ایک دوسرے پر سلامتی بیجھنے کے بعد خفیظ نے پوچھا!!!
کون ہو تم؟؟؟
اس پر خالد نے اپنا تعارف کروایا اور اپنے آنے کا مقصد بتایا۔۔۔۔
یہ سن کر خفیظ پردہ ہٹا کر اندر گیا اور ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی اُٹھا لایا۔۔۔۔۔۔۔چارپائی کی حالت ایسی تھی جیسے کوئی چھوٹی ٹانگ والا آدمی ہو۔۔۔۔۔
خالد نے نوری کے رشتے کی بات شروع کی۔۔۔!!
“بھائی جان رشتے تو ہمارے رستم کے لیے بہت آتے ہیں۔۔ ایک ہی تو بیٹا ہے میرا،، میرے مرنے کے بعد میری ساری جائیداد کا مالک رستم ہی تو ہے۔” خفیظ نے اپنے بیٹے کے بارے میں بتانا شروع کیا،تو خالد کی نظر ایک دفعہ پھر اُس کھنڈر نما گھر کی طرف چلی گئی۔۔ جس کو خفیظ اپنے بیٹے کی ملکیت بتا رہا تھا۔
وہ بولتا رہا اور خالد سنتا رہا،، آخر کار اُس نے پچیس ہزار کا مطالبہ کر دیا، خالد یہ مطالبہ سن کر چپ سادھ کر بیٹھ گیا اور اپنے دل میں جلدی سے حساب لگانے لگا۔،،
کیا وہ نیا قالین بُن کر پچیس ہزار کما لے گا؟؟
مگر خالد کو یہ ناممکن نظر آنے لگا توبات پندرہ ہزار پر آ کر ختم ہو گئی۔۔
دیکھیں بھائی جان ایک بات میں آپ سے صاف صاف کر دینا چاہتا ہوں۔ آپ نکاح سے پہلے یہ پندرہ ہزار دیں گے، پھر ہی ہم بارات لے کر آپ کے گھر آئیں گے۔۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ نکاح دس ماہ بعد ہو گا۔۔۔ عید الضحٰی سے دوماہ بعد۔۔۔۔ اس سے نہ ایک دن زیادہ ہو گا اور نا ہی کم، اگر رقم ادا کر دی گئی تو نکاح ہو گا ورنہ آپ لوگ اپنے گھر ہم لوگ اپنے گھر،،۔۔۔
خالد کو دس مہینے تھوڑے لگے۔ مگر اس کو خود پر بھروسہ تھا،کہ وہ دس مہینوں میں قالین بُن کر پندرہ ہزار ضرور کما لے گا۔
ابھی اُن کی باتیں چل رہی تھیں کہ رستم آگیا۔ خالد رستم کو دیکھنے سے پہلے ہی خفیظ کی باتوں سے اندازہ لگا چکا تھا کہ اس کا بیٹا کیسا ہو گا۔۔!!
وہ رستم کو دیکھ کر اُس سے مل کر بہت خوش نہیں ہوا تھا، مگر پھر بھی اس نے اُس کے ہاتھ میں بیس روپے تھما دیے۔ بات پکی کی اور وہاں سے آ گیا۔
شام ڈھلتی جا رہی تھی۔ خالد کے قدموں میں اس وقت بجلی کی سی تیزی تھی۔۔ وہ یہ خبر سب سے پہلے ریشماں کو سنانا چاہتا تھا۔ وہ گھر آیا تو اُس نے ریشماں کو یہ خوش کی خبر سنائی، ریشماں نے اُٹھ کر نوری کا ماتھا چوم لیا۔۔۔۔
خالد اُس رات سو نہیں پایا تھا، وہ سوچنے لگا کہ کتنے پیسوں سے قالین شروع کرے اور ساتھ ساتھ گھر کا خرچہ بھی چلائے،۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی وہ بازار چلا گیا، سارا سامان لایا، اور دو دنوں کے اندر اُس نے قالین کا تانا بھی تیار کر لیا۔ اس سے پہلے خالد نے کبھی اتنا بڑا قالین نہیں بُنا تھا۔ نوری کے دل میں آتا کہ وہ ابا سے پوچھے!! کیا دس مہینوں میں ہم اتنا بڑا قالین تیار کر لیں گے؟؟؟
مگر اُس نے یہ سوال نہ کیا اور قالین بُننا شروع کر دیا
خالد، ریشماں، نوری اور بانو منہ اندھیرے اُٹھ جاتے اور لال ٹین کی روشنی میں قالین بُننا شروع کر دیتے۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی گرہ لگاتے، نت نئے ڈیزائن بناتے، وہ اپنے کام میں اتنے مگن رہتے کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلتا کب صبح ہوتی، کب دوپہر ہوتی، کب شام ڈھلتی اور کب رات ہو جاتی۔ گرہیں لگا لگا کر اُن کی انگلیاں درد سے اکڑ جاتیں،مگر کوئی بھی کام کرنا نہ چھوڑتا سب کے دل میں بس ایک ہی خواہش تھی، کہ قالین تیار ہو جائے اور نوری اپنے پیا دیس سدھار جائے۔۔۔۔
بچت کرنے کے لیے وہ ایک کلو کی بجائے آدھا کلو دودھ لینے لگے، خالد نے چائے پینا کم کر دی، جس گھر میں مہینے میں تین دفعہ گوشت پکتا، وہاں اب آٹھ مہینے سے گوشت نہیں پکا تھا۔۔۔۔ آخر آٹھ مہینوں بعد عید آ گئی ۔۔۔
اُن کی زندگی میں پہلے جتنی بھی عیدیں آئی تھیں، وہ بہت تنگ دست ہونے کے باوجود بھی قربانی ضرور کرتے تھے، عید پر نئے کپڑے ضرور سلواتے تھے، مگر اس دفعہ ایسا کچھ نہ ہوا، انھوں نے نہ قربانی کی اور نہ ہی نئے کپڑے لیے۔۔۔۔۔
رستم کے باپ کی طرف سے دئیے گئے دن کم ہونے لگے مگر قالین ابھی تک مکمل نہیں ہوا تھا۔ خالد اور نوری اب رات بھر نہ سوتے۔ نکاح میں ایک مہینہ رہ گیا تھا مگر قالین تیار ہونے میں ابھی تین مہینے باقی تھے۔ وہ قالین کو اسی ایک مہینے کے اندر مکمل کرنا چاہتے تھے۔
مگر وہ ایسا نہ کر سکے۔ نکاح میں کچھ دن باقی رہ گئے۔ خالد بہت پریشان تھا۔ آخر ریشماں نے خالد کو رستم کے باپ سے دو مہینے کی مہلت لینے بھیج دیا۔۔۔!کہنے لگی!! دیکھنا خالد وہ ہمیں مزید دو مہینے کا وقت ضرور دیں گے، ہماری نوری اتنی پیاری ہے وہ منع نہیں کر پائیں گے۔۔۔۔۔
خالد سورج نکلنے سے پہلے ہی اُس گاؤں کی طرف چل پڑا۔ اُس نے پہلے کی ہی طرح گھر کا لیر لیر لٹکتا ٹاٹ اُٹھایا، اور خفیظ کو آوازیں لگانے لگا،۔۔۔۔۔
کیا پیسے دینے آئے ہو؟؟ خفیظ نے باہر نکلتے ہی سوال کیا۔۔۔۔۔
اس دفعہ اس نے سلام بھی نہ کیا تھا۔ مگر جب خالد نے اپنی مجبوری بتا کر دو مہینے کا وقت مانگا تو، خفیظ نے صاف انکار کر دیا،۔۔۔ اور کہنے لگا!!
ان دس مہینوں میں ہمیں کوئی اور لڑکی مل گئی ہے، جو نکاح پچیس ہزار میں کرنے کو تیار ہیں۔۔ہم نے وہاں بات پکی کر لی ہے۔
خالد نے خفیظ کی بہت منت سماجت کی، مگر اُس نے اُس کی ایک نہ سنی۔۔۔۔
خالد اپنا ٹوٹا دل اور زخمی وجود لیے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔۔۔ اُس کے قدم من من بھاری ہو گئے۔۔۔ خالد کا چلنا محال ہو گیا، وہ تھوڑا سا چلتا اور پھر سانس بحال کرنے کے لیے کسی پتھر پر بیٹھ جاتا،، اور نوری کا سوچنے لگتا۔۔۔۔۔ شفق کی سرخی چھانے کو آئی تھی،مگر خالد گھر نہ پہنچا، نوری کو کسی انہونی کا گماں ہونے لگا، ریشماں اور بانو بھی خالد کا انتظار کرتی رہیں۔ خالد جب گھر پہنچا تو اُس نے چپ سادھ لی۔۔۔ کسی نے اُس سے کوئی سوال نہ کیا،،کیونکہ اُس کا ہونک چہرے سے سب عیاں تھا۔
اس واقعہ کو گزرے ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ خالد کے گھر سوگ کا سماں تھا،،ایسے جیسے کوئی مر گیا ہو۔ ان سات دنوں میں کسی نے بھی نہ ڈھنگ سے کھانا کھایا اور نہ ہی گھر کا کوئی کام کیا۔ قالین بُننے کے لیے جتنی گرہیں لگائی گئی تھیں اُتنی ہی رہ گئیں۔ کسی نے بھی اب قالین کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ نوری بھی قالین بُننے کے لیے باپ کو کوئی نیا ڈیزائن نہ بتاتی، کیونکہ اُن کو اب قالین بُننے کی کوئی جلدی نہ تھی۔۔
گھر میں صرف ایک نوری تھی جو اس دفعہ بھی کسی کی بیگم بنتے بنتے رہ گئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پنجابی افسانہ بیگم سے ترجمہ شدہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply