کوئی ہمیں نکال لے جائے کوفہ کے بازارسے ۔۔۔ نسرین چیمہ

ہم مسلمان ہیں یہ کہتے ہوے ہمیں اپنے  آپ سے منافقت کی بو آتی ہے۔ کیونکہ ہم نے اپنے ایمان کو کلمے اور زیادہ سے زیادہ نماز تک محدود کر لیا ہے۔ اس سے آگے ظلم و ستم کے ‏تمام باب کھل جاتے ہیں۔ ہمارے اندر نہ انسانیت ہے، نہ شرم و حیا نہ غیرت ہے۔ ہم نے اپنے اوپر خود غرضی کی موٹی چادر تان لی ہے۔ ایمان پر باطل کی حکمرانی ہے۔ مادہ پرستی ‏نے ہمارے اندر کے انسان کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ ہم اہلیانِ کشمیر کو زبان کی حد تک یاد کرواتے کرواتے تھک گئے ہیں کہ ہم آخری سانس و آخری گولی تک ان کے ساتھ ہیں۔ گولیاں تو ‏ان کے سینوں میں اتر رہی ہیں۔ جانیں ان کی قربان ہو رہی ہیں، بچے ان کے تڑپ رہے ہیں، بلک رہے ہیں۔ انہیں سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہے ، ذبح کیا جا رہا ہے، حراست میں لیا جا ‏رہا ہے۔ ہم تو بس تماشائی ہیں۔ ہم بےحس ہیں۔ ہماری غیرت کی دھجیاں اڑ گئی ہیں۔ جب ایمان کی شمع گل ہو جائے ، سچائی سلب ہو جائے، مسلمان کفر کی زنجیروں میں جکڑا ‏جائے، معاشرت غیروں کی ، تہذیب غیروں کی، فیصلے غیروں کے ہاتھ میں ہوں،  مدد اللہ کی بجائے ٹرمپ سے مانگی جائے تو جہاد کا تصور مٹ جاتا ہے۔ رنگین محفلیں ، عیش و ‏عشرت کی دنیا، موسیقی کی لے پر رقص و سرود میں مسرور زندگی ان جذبوں سے ناآشنا ہے جو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی تکلیف پر تڑپا دیتی ہے اور انہیں اپنی جانیں ‏قربان کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو نوچا جا رہا ہے ان کو اذیت ناک موت کے روبرو کیا جا رہا ہے۔ ان کی بےبسی ناقابل دید ہے، ناقابل برداشت ہے۔ ‏ماؤں کے سینے آگ کی بھٹی کی طرح سلگ رہے ہیں۔ جان ، مال، عزت کچھ بھی محفوظ نہیں۔ انگاروں پر لوٹنے والے مسلمان آج بھی دنیا کے تمام مسلمانوں کی طرف ، بالخصوص ‏پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، فریاد کر رہے ہیں۔ ہم ستر سال سے انہیں یہ کہہ کر بھلا رہے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ مگر ہم تو اپنے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ ہم نے دھوکہ ‏دہی میں کافروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یزید کی یاد کو تازہ کر دیا ہے۔ جو دھوکہ یزید نے حسینی قافلے کو دیا وہی ہم کشمیر کو دے رہے ہیں۔ ہم مفلس ہوتے ، اللہ سے مانگتے اور وہ ‏ہمیں ضرور نوازتا، ہم کمزور ہوتے ، ہماری فریاد پر اللہ غیب سے مدد بھیج دیتا مگر ہم تو بےایمان ہیں، ہم کیونکر حاجت روا ہوں ‏۔

ہم اپنے عیش و عشرت، دلفریبیوں، رنگینیوں کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ہماری بداعمالیوں نے شرافت کو نوچ ڈالا ہے۔ ہماری مادہ پرستی نے غریب کو غریب تر اور امیر ‏کو امیر تر بنا دیا۔ ہم مانگتے ہیں کفر سے، ٹرمپ سے، ہم سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں مودی سے، اپنے دشمنوں سے، وہ سر جو مسلمانوں کے نیزے کے نیچے ہونا چاہیے تھا وہ فخر سے بلند ‏ہے کیونکہ اسے مسلمانوں کے ہاتھوں ایوارڈ پہنایا گیا۔ کس خوشی میں، آخر یہ عزت افزائی کس لیے؟
کیونکہ وہ ہم سے سب چھین لینا چاہتا، ہماری آزادی، ہمارا تشخص، ہماری پہچان؟ اور ہم یہ کہنے کو تیار بیٹھے ہیں ‏

سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے

آنکھیں بند کر کے ، تصور میں کشمیر کے فلسطین کے مسلمانوں کی جگہ خود کو لائیے اپنے جگر گوشوں کو ان کے جگر گوشوں کی جگہ رکھیئے۔اور اس اذیت ناک امتحان کا اندازہ کیجئے ‏جس سے وہ گزر رہے ہیں۔ مگر ہم ایسا کیوں کریں؟ ہم حق و باطل کی شکست اور فتح کے چکروں میں کہاں پڑے رہیں اور کیوں پڑے رہیں؟ کیونکہ ہماری زندگیوں میں جہاد اور ‏شہادت کی کوئی تڑپ نہیں، ہم مغربی تہذیب میں اس قدر ڈھل چکے ہیں کہ اپنی پہچان کھو بیٹھے ہیں، ہم اپنی برائیوں پر فخر کر رہے ہیں اور محو خواب ، منتظر ہیں کسی معجزہ کے۔ اور ‏جاگنے والے اپنے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنے ہاتھ پھیلانے میں کبھی عار محسوس نہیں کی، ہم نسلوں سے بھکاری ہیں۔ ہم کبھی سعودی شہزادوں کے آگے، کبھی کفر کے ‏آستانے پر دست سوال دراز کرتے ہیں اور چند سکوں کے عوض ان کی شرائط ماننے کے پابند ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں نہ ہمارا سر اور نہ ہی اسلام کا جھنڈا سربلند ہوتا ہے نہ ‏ضمیر زندہ ہوتے ہیں نہ ایمان کی شمع روشن ہوتی ہے ۔ ڈوبتی ٹمٹماتی روشنی میں اگر خود کو تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو اپنی مادی خواہشات کے جنگل میں ہوش و حواس ‏کھو بیٹھتے ہیں۔ ‏

جب عشرتیں محلوں میں دائمی ناچتی رہیں، اور غریب کا نصیب جھونپڑوں میں ابدی نیند سو جائے تو خواب مقدر بن جاتے ہیں۔ ‏

تبدیلی کا ڈھونگ ہماری زندگیوں میں بھی پر پھیلاتا ہوا نئی امنگوں کے ساتھ وارد ہوا۔ اب کی بار تو خواب کچھ زیادہ سہانے تھے۔ قوم کو روشن خوشحال پاکستان نظر آ رہا تھا۔ جہاں ‏اسلام ہو گا، جان مال عزت محفوظ ہو گی، دینی تعلیم ہو گی ، تعلیم سستی ہو گی، مسجدیں آباد ہو جائیں گی۔ عورت شرم و حیا کا پیکر ہو گی، عیاشی اور فحاشی بند ہو گی، فیصلے منصفانہ ہوں ‏گے، حقدار کو اس کا حق ملے گا، بیروزگاری ختم ہو گی، عوام کے لیے روزمرہ زندگی میں آسانیاں ہوں گی۔
مگر ہم نے تو پرواز کے پر تولے ہی تھے کہ کاٹ دیے گئے ۔ مہنگائی کے بھوت نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ گیس بجلی ، پیٹرول، اشیائے خوردونوش غرض کہ مہنگائی نے جو ہمیں ‏نچوڑنا شروع کیا تو دن میں تارے نظر آنے لگے، اوپر سے ٹیکس اور اب چندہ جمع کرنے کی باری ہے۔

وہ تبدیلی کہاں ہے جس کو تلاش کرتے کرتے دو سال بیت گئے، ذہن سمندر کی لہروں کی مانند سوالوں کی آماجگاہ ہے مگر کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ ہم ان سوالوں کو ‏پردہءسکرین پر ابھرنے سے باز کیسے رکھیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

کیا ملک معاشی طور خوشحال ہو گیا ہے؟ کیا تبدیلی کے سب وعدے پورے ہو گئے ہیں؟ کیا بیروزگاری، ناانصافی، رشوت خوری، بےایمانی، جھوٹ، چور بازاری اور ظلم کا خاتمہ ہو ‏گیا ہے؟ کیا ہم اب اس قابل ہو گئے ہیں کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں؟سو ہم اس تبدیلی کو کیسے قبول کریں ، کیسے مانیں ، جب جھوٹ کا کاروبار عروج پر ہے، غریب کا تن ‏ننگا ہے، بےگناہ اپنے ہی خون کا حساب مانگ رہا ہے، محافظ لٹیرا بن چکا ہے ۔ مگر ہم نے ہرخیر کو صفحہ ہستی سے نکال دیا ہے۔ ہمارے اعمال اللہ کے قہر کو للکار رہے ہیں۔ ہمارے لیے ‏تو کورونا بھی اللہ کے عذاب کی ایک شکل ہے۔ ان پریشان کن حالات میں جبہاں دوسرے ممالک نے عوام کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے کی ‏کوشش کی ہے وہاں ہماری حق پرست ، کلمہ گو قوم میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ زندگی بچانے والا سامان نایاب کردیا گیا ہے ، ضروریات زندگی اتنی مہنگی کر دی گئی ہیں کہ غریب تو دور کی ‏بات، متوسط طبقے کے لیے پیٹ پالنا مشکل ہو چلا ہے۔ قوم پر قیامت ٹوٹتی ہے اور حکمران عوام سے ہی قربانی مانگتے ہیں۔ وہ اس قدر مظلوم بن جاتے ہیں کہ عوام کا دل پسیج جاتا ‏ہے۔ اور ان کی قربانیوں کے ثمر میں ان پر ویلتھ ٹیکس، سیلز ٹیکس، ویلیو ایڈڈ ٹیکس وغیرہ لاگو کر دیے جاتے ہیں، اگر کچھ بچانے کی کوشش کریں تو چندہ کی اپیل آ جاتی ہے ۔ غریب ‏عوام چندہ کہاں سے ادا کریں۔ مگر تلخ سچ ہے کہ جہاں حکمران طبقہ ہی مظلوم ہو تو غریبوں کو چندہ تو دینا ہی پڑتا ہے۔ ‏
یاد رہے! آخری ہچکی سے پہلے چندہ ضرور ادا کر دیجیے ورنہ آپ کی نسلوں سے جرمانہ کے ساتھ وصول کیا جائے گا۔

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply