قادیانی سازشیں , ماضی کا سبق اور ہماری ذمہ داری ۔۔۔ عدیل عزیز

بہت دن سے سوشل میڈیا پر دوست احباب قادیانیوں کا سازشوں اور مکاریوں کا شد ومد کے ساتھ تذکرہ کر رہے ہیں۔  جذباتی انداز میں قادیانیوں کو اپنی فرینڈ لسٹ سے نکل جانے کا کہ رہے ہیں, ماں بہن کی گالیوں اور لعنتوں سے نواز رہے ہیں۔ اس کا پس منظر ایک قادیانی کی ٹرمپ سے ملاقات ہے۔ دوستوں جب آپ خود ریاست امریکہ کو ام الفساد , شیطان بزرگ, امت مسلمہ کا سب سے بڑا دشمن اور خائن ریاست مانتے ہیں تو پھر یہ امید کیوں رکھتے ہیں کہ ٹرمپ شکور قادیانی سے نہ ملتا۔ دوسری بات یہ کہ وائٹ ہاوس میں کوئی قادیانیوں کا اجتماع نہیں تھا بلکہ دنیا بھر سے وہ لوگ مدعو تھے جن کی کمیونٹی سے امریکہ کے مطابق زیادتی ہورہی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قادیانی من حیث الجماعت امت مسلمہ اور مسلمانان پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ فیس بک, واٹس ایپ اور مسیجز میں زیادہ سے زیادہ لعنتیں شئیر کرنے اور اتنا شئیر کرنے کے یہ لعنت دنیا بھر کے دو سے زائد ممالک میں پہنچ جائے سے تو کام نہیں چلے گا۔ نہ ہی غلیظ گالیوں سے سازشوں کا سدباب ہو سکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے طرز عمل میں تبدیلی پیدا کیجئے۔
آج سے ٹھیک چوراسی برس پہلے یعنی 25 جولائی 1931 کو برطانوی ہند کے رجعت پسند مسلمان کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف میاں سر فضل حسین کی دعوت پر شملہ میں جمع ہوئے۔ ان میں
نواب ذولفقار علی
علامہ اقبال
نواب ابراہیم علی خان والی کنج
خواجہ حسن نظامی
خان بہادر رحیم بخش
سید محسن علی شاہ ایڈوکیٹ
مولانا سید حبیب ایڈیٹر روزنامہ سیاست لاہور
مولوی نور الحق ایڈیٹر مسلم آوٹ لک لاہور
اسماعیل غزنوی
اور مرزا بشیر الدین محمود (قادیانی سرپرست) نمایاں تھے۔  اس اجلاس میں سب نے مل کر کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی اور اس کا اولین صدر مرزا بشیر الدین محمود (قادیانی) اور جنرل سیکٹری عبدالرحیم درد (قادیانی) کو چنا گیا۔ صدارت ملنے کے بعد مرزا بشیر الدین نے ہندوستان بھر سے مختلف شخصیات کو کشمیر کمیٹی کا رکن نامز کیا اور کشمیر میں سرگرمیاں شروع کردیں۔ یوں بتیس لاکھ کشمیری مسلمان جو اس کمییٹی سے بہت سی توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے ان کا ایمان خطرے میں پڑ گیا اور غیر ممالک میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے اس کو بطور پروپیگنڈا استعمال کرنے کا امکان بڑھ گیا۔

اگر آج کے دور میں ایسا ہوا ہوتا تو ہمارے مذہبی قائدین اور جذباتی مسلم نوجوان کمیٹی میں شریک تمام مسلمانوں کی پین دی سری کردیتے۔  علامہ اقبال اور دیگر مسلم اکابر کو قادیانیوں کے ساتھ بیٹھنے اور سرپرستی قبول کرنے پر او دلے او خنزیر کے لقب سے نوازتے۔ دل کھول کر ماں بہن کی گالیاں دیتے اور کفر کا فتویٰ لگا کر شاید جنت میں داخلے کی دوڑ بھی شروع ہوجاتی اور چند دن بعد اس سب کو اپنے فرض کی ادائیگی سمجھ کر قادیانیوں اور ان کی مستقل مزاجی سے کی جانے والی سرگرمیوں سے غافل ہوجاتے۔ نتیجتاً مسلم قوم کی گالیوں سےزچ ہوکر بہت سی شخصیات قادیانیوں کے مزید قریب ہوجاتی۔

مگر اُس دور کے مسلمانوں اور مذہبی لیڈران میں آج کی بانسبت شعور زندہ تھا۔ وہ مستقبل کا ادراک رکھتے تھے۔ اسی لئے مجلس احرار میدان میں آئی اور احرار رہنماوں نے اپنی بصیرت سے کشمیر کمیٹی کے محرکات کا اندازہ لگایا اور وفد کی صورت چوہدی افضل حق, امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری اور مولانا داود غزنوی علامہ اقبال سے ملے اور کہا:

“کیا آپ نے بھی قادیانی قیادت کو تسلیم کرلیا ہے, اگر آپ کی دیکھا دیکھی کشمیر کے بتیس لاکھ مسلمان قادیانی ہوگئے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں آپ مجرم ہوث گے۔ نیز قادیانی دوسرے اسلامی مسلمانوں پر بھی گمراہ کن اثرات مرتب کریں گے لہذا آپ ان سے علیحدگی کا اعلان کریں” (تاریخ احرار جلد اول)۔
چناچہ علامہ اقبال نہ صرف خود اس کشمیر کمیٹی سے لا تعلق ہوئے بلکہ وفد کے دیگر مسلم اکابر پر بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں علیحدہ کردیا یوں مرزا بشیر الدین محمود کو کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا اور کشمیر کمیٹی کی مکمل باگ ڈور احرار نے سنبھال کر منظم تحریک کشمیر شروع کردی۔

Advertisements
julia rana solicitors

حاصل کلام
قادیانیوں کے بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے , اور کسی موقع پر ان کے ساتھ شریک ہوجانے والا ہر انسان یہودی سازش کا مہرہ نہیں ہوتا کئی بار غلط فہمی و غیر شعوری طور پر بھی انسان ایسا کرسکتا ہے, حکیم الامت حضرت علامہ اقبال جیسی ہستی بھی ایسا کرسکتی ہے۔ اسی تناظر میں غور کریں تو آج پاکستان میں لاکھوں مسلم چاہے وہ لبرل مسلم ہو یا دنیاوی تعلیم سے آراستہ روشن و آزاد خیال مسلم  قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت مانتے ہوئے انہیں بنیادی شہری و انسانی حقوق دینے کے خواہاں ہے۔ آپ بدلے میں ان کی ماں بہن کو بازرای کہتے ہیں۔ جبکہ قادیانی love for all hatred for none کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور بڑے سے بڑے ظلم پر بھی احتجاج نہیں کرتے۔ نتیجتاً لاکھوں کلمہ گو مسلموں کو آپ اپنے رویے کے باعث خود سے اور اسلام سے مزید دور کردیتے ہیں اور قادیاںنیت کے مزید قریب کردیتے ہیں۔ یعنی آپ کے طرز عمل سے قادیانی سازش تقویت پاتی ہے۔
ختم نبوت (ص) کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیموں , اور ملت کے بیدار مغز اشخاص کو سوچنا ہوگا , مکالمہ کرنا ہوگا لاکھوں لبرل , آزاد خیال اور روشن خیال مسلمانوں کو اپنا موقف صبر و تحمل و دلیل کے ساتھ سمجھانا ہوگا کہ مسلئہ قادیانیت کے بنیادی حقوق نہیں نہ قادیانی مذہب ہے بلکہ ان کا خود کو مسلمان کہنا اور مسلمانوں کو کافر کہنا وجہ تنازع ہے۔
یقین جانیے آپ لوگوں نے یہ کام منظم انداز میں چند سال بھی کرلیا تو ہزاروں لاکھوں لبرل مسلم ان سے فاصلہ کرلیں گے اور یہی حقیقی معنوں میں دین کی خدمت ہوگی ورنہ گالیاں دینے سے صرف واعظوں کے واعظ میں مرتدین کی تعداد میں اضافہ ہی سننے کو ملے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply