فلسطین (15) ۔ تیسری جنگ/وہاراامباکر

یہ چھ روز کی جنگ تھی۔ پہلی برق رفتار سٹرائیک نے مصر، سیریا اور اردن کے زیادہ تر جنگی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا تھا۔ صحرا میں فضائی برتری کا مطلب یہ تھا کہ زمینی فورس کا مقابلہ یک طرفہ تھا۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی، جزیرہ نما سنائی، مشرقی یروشلم، مغربی کنارا اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔
یہ جنگ کیوں ہوئی؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک اہم وجہ فلسطینی کمانڈو گروپس کا ابھرنا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے دریائے اردن کے پانی کا رخ اپنی طرف موڑنا شروع کر دیا تھا۔ یکم جنوری 1965 کو فتح نے وسطی اسرائیل میں پانی پمپ کرنے والے سٹیشن کو نشانہ بنایا۔ یہ علامتی اہمیت رکھتا تھا۔ ایسے کئی حملے کئی گئے۔ یہ حکومت کے لئے سبکی کا باعث تھے۔
مصر نے اس کو پسند نہیں کیا۔ اسرائیل کو اس وقت چھیڑا گیا تھا جب مصر یمن میں جاری خانہ جنگ میں ملوث تھا اور اپنی معیشت کی بحالی پر توجہ دے رہا تھا۔
عرب دنیا میں ایک “سرد جنگ” جاری تھی۔ مصر عرب قوم پرستوں کی قیادت کر رہا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں سعودی عرب کنزرویٹو بلاک کی۔ یمن اس لڑائی کا فلیش پوائنٹ تھا۔ یہاں کی بادشاہت کے خلاف انقلاب نے 1962 میں خانہ جنگی شروع کر دی تھی جس میں مصری ملٹری پھنسی ہوئی تھی۔ ساٹھ ہزار مصری فوجی اور فضائیہ کا بڑا حصہ یمن میں تھا۔
اس وقت میں مصری فوج نے اسرائیل کی طرف پیشقدمی کیوں کی؟ یہ عجیب فیصلہ لگتا تھا لیکن اس کی وجہ سیریا میں آنے والی نئی ریڈیکل حکومت تھی، جو فلسطینیوں کو مدد دے رہی تھی۔ مصر علاقے میں اپنی بالادستی کا خواہشمند تھا۔ لیکن جو بھی وجہ ہو، سینا میں مصری فوج کی نقل و حرکت دیکھ کر اسرائیل نے پہلی سٹرائیک کر دی۔ اس نے عرب ممالک کی تین فوجوں کو ملیامیٹ کر دیا اور مشرقِ وسطٰی کا چہرہ بدل دیا۔
یہ جون 1967 میں ہونے والی تیسری عرب اسرائیل جنگ تھی جو چھ روزہ جنگ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوویت یونین نے جنگ بندی کی قرارداد کا تیسرا ڈرافٹ نو جون کو ساڑھے بارہ بجے پیش کیا جس میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ تھا۔ یہ پچھلے چھ روز میں ہونے والا گیارہواں سیشن تھا۔ اسرائیلی فوج اپنے پورے ملک سے زیادہ بڑے علاقے پر قبضہ کر چکی تھی۔ اس وقت گولان کی پہاڑیوں پر سیریا کی فوج کو شکست دے رہی تھی اور دمشق کی طرف رواں دواں تھی۔ دمشق چالیس میل دور تھا۔ سوویت یونین جنگ کو جلد سے جلد بند کروانے کے لئے پوری کوشش کر رہا تھا۔ سوویت سفیر نکولائی فیڈورینکو اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے زبانی دست و گریباں تھے۔ وہ اس خطے میں اپنے دوست ملک سیریا کے لئے فکرمند تھے۔ یہ قرارداد 235 تھی جس کو اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔ جنگ بندی اس سے اگلی روز صبح ہوئی۔
پڑوسی ممالک کا بڑا علاقہ اب اسرائیل کے پاس تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل کے حوالے سے امریکی پالیسی تبدیل ہوتی رہی تھی۔ ٹرومین، آئزن ہاور اور کینیڈی نے فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ حل کرنے کے لئے اسرائیل پر زور دیا تھا۔ آئزن ہاور نے کامیابی سے زور دے کس سینا اور غزہ کے علاقے اسرائیل سے خالی کروائے تھے۔ کینیڈی نے اسرائیل کو نیوکلئیر پاور بننے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ وہ مصر کے ناصر کو علاقے میں کمیونزم کے خلاف اتحادی دیکھتے تھے۔اس کی وجہ عراق میں عبدالکریم قاسم کی کمیونسٹ حکومت کی آمد اور وہاں پر سوویت یونین کا اثر جبکہ مصر کی ان کے خلاف شدید مخالفت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یمن کی 1962 کی خانہ جنگی میں حالات بدل گئے۔ یہ علاقائی تنازعہ بن گیا۔ سوویت یونین نے یمن کی حکومت کی حمایت کی جن کے ساتھ مصری حکومت لڑ رہی تھی جبکہ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور ان کے حامیوں نے شاہی خاندان کی جن کی حمایت سعودی عرب کر رہا تھا۔ مصر اور امریکہ کے تعلقات اس دوران سردمہری کا شکار ہو گئے۔ کینیڈی کے بعد آنے والے صدر جانسن اسرائیل کے حامی تھے۔ یہ سب وجوہات تھیں جن کے باعث امریکہ کی 1967 میں مکمل حمایت اسرائیل کی طرف تھی۔
اس جنگ نے فلسطینی قومی شعور اور مزاحمت کو مہمیز دی۔ جیسا کہ ایک مبصر کا تبصرہ تھا، “اس جنگ کا مرکزی تضاد یہ تھا کہ اس میں عربوں کو شکست دے کر اسرائیل نے فلسطین کو زندہ کر دیا تھا”۔
اس وقت دو فلسطینی تنظیمیں منظرِ عام پر آئیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply