• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انتخابات کے نتائج پر پیپلز پارٹی کے قبل از وقت تحفظات۔۔۔طاہر یسین طاہر

انتخابات کے نتائج پر پیپلز پارٹی کے قبل از وقت تحفظات۔۔۔طاہر یسین طاہر

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ انتخابات پہلے ہی دھاندلی زدہ ہوچکے ہیں اور اب 25 جولائی کو ہونے والی پولنگ رسمی طور پر ہے۔ “آپ کو پاکستان کے عام انتخابات 2018ء کے بارے میں جاننے کی ضرورت ” کے عنوان سے الیکشن پول گائڈ کی تقریب رونمائی کے موقع پر ان کا کہنا تھا کہ قانون میں تبدیلی کی وجہ سے پولنگ کے دن نتائج میں تبدیلی کا دور گزر چکا ہے، لیکن ان تبدیلیوں نے قبل از اور بعد از انتخابات دھاندلی اور نتائج میں تبدیلی کا راستہ فراہم کر دیا۔ واضح رہے کہ اس تقریب کا انعقاد ایک این جی اور ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشل (ڈی آر آئی) کی جانب سے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ انتخابی عمل پہلے سے ہی بگڑ گیا ہے اور یہ غیر منصفانہ اور بے تُکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پوشیدہ سیاسی انجینئرز باآسانی جوڑ توڑ کے لئے ایک بکھری ہوئی اور تقسیم شدہ پارلیمان دیکھنے کے لئے بے تاب ہیں، ساتھ ہی ایک خاموش بغاوت جگہ لے رہی ہے، جو کسی بھی گذشتہ بغاوت کے مقابلے میں معتدل ہے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر کا یہ کہنا تھا کہ اس بغاوت کے نتیجے میں یہاں سول حکومت ہے لیکن اختیارات سے محروم ہے، یہاں ذرائع ابلاغ ہے لیکن آزادی نہیں ہے، یہاں انتخابی امیدوار ہیں لیکن انہیں سیاسی پلیٹ فام منتخب کرنے کی آزادی نہیں ہے اور یہاں ووٹرز بھی ہیں لیکن لگتا ہے کہ ان کا ووٹ دینے کا حق پہلے ہی لیا جاچکا ہے۔ انتخابی مبصرین کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مبصرین پر پابندی نہیں لیکن ان کی واضح طور پر حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اس موقع پر ڈی آر آئی کے نمائندے کا کہنا تھا کہ یہ گائڈ انتخابی ایکٹ 2017ء کے ذریعے بنائے گئے قانونی فریم ورک میں بہتری کی بنیاد پر محیط ہے اور یہ انتخابی اصلاحات طویل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈی آر آئی کو امید ہے کہ انتخابی گائڈ کے ذریعے فراہم کی گئی معلومات پاکستان میں انتخابی عمل کے بارے میں ایک مثبت گفتگو کی سہولت فراہم کرے گی۔ یو این ڈی پی کے چیف ٹیکنکل ایڈوائزر ڈیرن نینس کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے انتخابی عمل میں شمولیت، رسائی اور شفافیت کو برقرار رکھنے کے لئے مثبت اقدامات کئے گئے ہیں، ہمیں امید ہے کہ یہ الیکشن گائڈ پاکستان کے انتخابی عمل پر تحقیق کے لئے معلومات کے طور پر کام کرے گا۔

یہ امر واقعی ہے کہ انتخابی عمل، اس دوران اٹھنے والے سوالات اور دیگر رحجانات کے بارے میں ووٹرز کا یہ حق ہے کہ وہ آگاہی حاصل کریں۔ ہمارے ہاں جو جمہوریت رائج ہے، وہ فی الواقع خاندانی بادشاہتوں کی شکل میں سیاسی جماعتوں کی ہوس اقتدار ہی ہے۔ 2018ء کے جنرل الیکشن کئی حوالوں سے دلچسپ اور پاکستان کے جمہوری سفر پر اثر انداز ہونے والے الیکشن ہیں۔ پاکستانی عوام کو یہ امید ہے کہ یہ انتخابات پاکستان میں سول بالادستی اور قانون کی حقیقی عمل داری کے لئے سنگ میل ثابت ہوں گے، لیکن گذشتہ چند ہفتوں سے گاہے گاہے سیاسی جماعتیں آمدہ انتخابات پر سوالیہ نشان ثبت کر رہی ہیں۔ چند دن پہلے مسلم لیگ نون کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی کہا تھا کہ اگر دھاندلی ہوئی تو اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا، جبکہ میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ دھاندلی ہوئی تو ایک طوفان آجائے گا۔ نیز مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ ان کی جماعت کے امیدواروں پر دبائو ڈال کر انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ شیر کے نشان کے بجائے جیپ کے نشان پر الیکشن لڑیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح گذشتہ سے پیوستہ روز سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی کہا تھا کہ ادارے اپنے حدود میں رہیں، جبکہ اب پیپلز پارٹی ہی کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ انتخابات کے نتائج انجینئیرڈ ہیں اور اب صرف رسمی کارروائی باقی ہے۔ یوں پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے براہ راست انتخابات کو قبل از وقت ہائی جیک کئے جانے کا الزام عائد کر دیا ہے۔ حالانکہ فی الواقع دونوں جماعتوں کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں لیکن عوامی رحجانات اور آزاد امیدواروں کے جیتنے کے چانسز کو دیکھتے ہوئے ان سیاستدانوں کا خیال ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ براہ راست مداخلت کے بجائے ایک لڑکھڑاتی اور بے طاقت سی پارلیمان دیکھنے کی خواہش مند ہے اور اپنی اسی خواہش کی تکمیل کے لئے خاموشی سے کام کئے جا رہی ہے۔ ہمارا نہیں خیال کہ یہ الزام درست ہے۔ اگر نون لیگ، پی ٹی آئی، ایم ایم اے یا پیپلز پارٹی میں سے کوئی بھی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ انتخابات ہائی جیک کئے جا رہے ہیں تو انہیں چاہیے کہ شواہد کے ساتھ بات کریں، اگر ان کے پاس شواہد نہیں تو انتخابات کے نتائج کو قبل از وقت ہی پری پلان قرار دینا ووٹرز کو کنفیوژ کرنے کے مترادف ہے۔ ہم ایسی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتے ہیں، جس سے ووٹرز کا اعتماد انتخابی عمل پر کمزور ہو۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply