بیادِ ڈاکٹر قاسم علی وٹو

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں، جن کو انسان بار بار بھولنے سے بھی بھول نہیں سکتا۔ ان چند افراد میں ایسی خصوصیات ہوتیں ہیں جو ان کو دیگر افراد سے منفرد کرتی ہیں۔میں اپنی زندگی میں اپنے دادا ،اپنے چچا کے بعد سب سے زیادہ متاثر مردِ قلندر ڈاکٹر قاسم علی وٹو ؒ سے ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی ایک جہد مسلسل سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔ ان کا کرپٹ لوگوں کے خلاف نقطہء نظر کافی واضح تھا۔ ایمان اور ایمانداری انکا نصب العین تھا۔ رشوت نہ کبھی دی اور دینے والے کی سرزنش کی۔
ڈاکٹر صاحب کے کردار اور انکے طرز عمل پر ایک مضمون کافی نہیں ہے۔ ان کا کردار علاقے کے لئے گوہر نامدار ہے۔ ساری زندگی دعوت و تبلیغ میں گزاری۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب ڈاکٹر صاحب اپنے کلینک سے ملحقہ جامع مسجد طٰحہ میں نماز جمعہ پڑھاتے تھے۔ انکا اسلوب بیان اور قرآن و حدیث پر عبور کسی بھی عالم دین سے کم نہ تھا۔ ان کی زندگی سے متعلق چند واقعات پیشن خدمت ہیں۔
میری ان سے غائبانہ شناسائی تو کافی تھی۔ مجھے بس اتنامعلوم تھا کہ ڈاکٹر قاسم جماعت اسلامی والا، بڑوں کے بھی تعلقات کچھ خاص نہ تھے۔ ہم مسلم لیگی تھے اور آپ کو معلوم ہے کہ جماعتیوں اور لیگیوں کی نوے کی دہائی میں خاصی چپقلش تھی۔ بلدیاتی الیکشن میں ہم شاہ مقیم گروپ کے امیدوار کے چیف سپورٹر تھے۔ ہر جگہ ان کے ہورڈنگز آویزاں تھے۔ دوسری جانب منظور وٹو گروپ تھا، بہت ٹینشن اور جذباتی ماحول تھا۔ اتنخابی ماحول اتنا گرم تھا کہ بیان سے باہر، الیکشن ہوئے ہمارا امیدوار ہار گیا۔ ہار کی سبکی برداشت کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ وقت گزرتا گیا، متحدہ مجلس عمل کا دور آیا۔۲۰۰۲ء کے جنرل الیکشن میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے بڑے بیٹے فیاض قاسم وٹو کو میدان میں اتارا۔ فیاض قاسم متحدہ مجلس عمل کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ الیکشن کیمپئین زوروں پر تھی۔ انکا جلوس بازار سے گزرا، ہمارے اندر ابھی بھی قاف لیگی انا تھی۔ ڈاکٹر صاحب ہماری دکان پر آۓ ، مصافحہ کیا، قرآنی آیت پڑھی، جس کا متن جیسی عوام ویسے حکمران تھے۔ اور کہا آپ مجھے ووٹ نہ دو، میرے بیٹے کو ووٹ نہ دو ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن جس کلمے کی قسم پر یہ ملک بنا تھا، اس کلمے کو ووٹ دو۔ آج شریعت پامال ہورہی، مغربی یلغار عام ہوچکی ہے۔ اگر آپ فلاح چاہتے ہو تو کلمے کو ووٹ دو۔میں انکی باتوں سے کافی متاثر ہوا۔ الیکشن کا رزلٹ آیا منظور وٹو گروپ نے سویپ کیا۔ فیاض قاسم نے خاطر خواہ ووٹ لئے۔ اور پھر ایک سیاسی انتقام کا دور شروع ہوا۔ مرکزی سطح پر تعمیر وطن گروپ اور شاہ مقیم گروپ اکٹھے ہو چکے تھے۔ قاف لیگ میں وزارتوں کا لنڈا بازار تھا۔ پھر ایسا سیاسی انتقام آیا کہ ہمارے خاندان کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔
ہائیکورٹ سے ناجائز ایف۔آئی۔آرز کی ڈائریکشن، علاقائی چوہدریوں سے کہا ہم تمہارے سپورٹر ہیں جواب آیا فلاں ناراض ہے، فلاں کے پاس گئے تو کہا جاؤ اپنے دھڑے کی سپورٹ حاصل کرو۔ دھڑے کے پاس گئے تو کہا ہمارا اتحاد ہے ہم مجبور ہیں۔ ان حالات میں ایک واحد امید ڈاکٹر قاسم علی وٹو تھے۔ ان کے پاس گئے علیک سلیک ہوئی۔ مدعا بیان کیا اور کہا کہ آپ ہماری داد رسی کرو اور مزید کہا کہ ہم نے آپکو ووٹ بھی نہیں دئیے۔
ڈاکٹر صاحب مسکراۓ اور گویا ہوئے” برخوردار سب سے بڑا رشتہ کلمے کا رشتہ ہے”۔ انہوں نے حامی بھری اور پھر ہمیں سیاسی انتقام سے بچایا۔حجرہ شاہ مقیم میں کھلی کچہری تھی، ڈی۔پی۔او اوکاڑہ اسلم خان ترین تھے۔ ڈاکٹر صاحب بھی موجود تھے۔ مقررہ وقت سے ڈی۔پی۔او صاحب چند منٹ لیٹ آۓ۔ تو بزرگ محترم نے بھرے پنڈال میں دیر سے آنے کی سرزنش کی اور ایک حاکم وقت کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔
گورنر پنجاب خالد مقبول اوکاڑہ آۓ، بزرگ محترم نے اسٹیج پر بیٹھے تمام وقت کے فرعونوں کو للکارا اور حق پر دلائل دئیے۔تھانہ اور پنچائیت کے معاملات میں خاصے سنجیدہ اور حاضر دماغ تھے۔ آج تک انہوں نے کسی پولیس اہلکار کو رشوت اپنی موجودگی میں لینے نہیں دی۔ایک بار ہم ان کے کلینک پر ان سے محو گفتگو تھے، عصر کی نماز کا وقت ہوا، بزرگ محترم نے گفتگو روکی اور نماز کے لئے کہا، میں نے لڑکوں والی کاہلی دکھائی تو انہوں نے کہا،”بیٹا قبر بہت گہری ہے، چار فٹ نیچے ڈیڑھ فٹ اوپر، کسی کو کیا معلوم اس میں کون پڑا ہے، ڈاکٹر قاسم ہے یا اسکا ملازم یا پھر کوئی اور، سب سے ممتاز نیک اور صالح اعمال کریں گے، اس لئے نماز پڑھو ،گناہوں سے معافی مانگو اور رحم کی التجاء کرو”۔
دعا ہے کہ اللہ کریم انکو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرماۓ اور نکی تعلیمات پر عمل کی تو فیق عطاء فرمائے۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply