بدھو کا مقبرہ۔۔طلحہ شفیق

بدھو کے نام سے معروف یہ مقبرہ شالامار باغ کے قریب اور انجینئرنگ یونیورسٹی کے بالمقابل واقع ہے۔
لاہور کے بیشتر مقابر کی طرح یہ مقبرہ بھی متنازع ہے۔ عموماً یہ مقبرہ بدھو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک داستان بھی اہلیان لاہور میں معروف ہے۔ جس کے مطابق بدھو مغل عہد کے خشت پز سدھو کا بیٹا تھا۔ اس نے خاندانی کام کو جاری رکھا اور کئی شاہی عمارات کے لیے اینٹیں فراہم کیں۔ ایک روز حضرت میاں میر کے ایک مرید شیخ عبدالحق قادری سخت سردی میں اس کے بھٹے پر تشریف لائے اور تھوڑی دیر آگ کے پاس سستانا چاہا۔ لیکن بدھو نے ان کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اس بدسلوکی پر شیخ عبدالحق قادری نے اس کو بددعا دی کہ تیری اینٹیں اب پختہ نہ ہوں۔ ان کا کہا سچ ثابت ہوا اور بدھو مشکل میں پڑ گیا۔ بالکل یہی داستان سکھ لکھاریوں نے بھی درج کی ہے۔ البتہ ان کے بقول بدھو گُرو ارجن جی کے ارادت مند بھائی کملا کے ساتھ ناشائستگی سے پیش آیا تھا اور انہوں نے اسے شراپ دیا تھا۔ خیر دونوں ہی قصوں کے مطابق بدھو اِس قضیے کے بعد خراب حال ہوگیا۔ اس نے بزرگ کو تلاش کر کے ان سے معافی مانگی۔ اور ان کی وفات پر یہ عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا۔ لیکن اس مقبرے میں دو قبریں موجود ہیں, تو اس کا جواب اس داستان میں یوں دیا گیا ہے کہ ایک قبر بزرگ کی ہے جبکہ دوسری بدھو کی اپنی ہے۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ بدھو بعد از مرگ اپنے بھٹے پر ہی دفن ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر انجم رحمانی, مدثر بشیر ونقوش لاہور نمبر میں درج بالا قصے کی بنیاد پر ہی صاحب مقبرہ کا نام شیخ عبدالحق بتایا ہے۔ لیکن اس مقبرے کے قریب ہی رائل پام کنٹری کلب میں ایک مزار شیخ عبدالحق قادری کا موجود ہے۔ اس مزار کی تفصیل محمد دین کلیم نے “مدینتہ الاولیاء” میں بیان کی ہے۔ محمد دین کلیم کے مطابق شیخ عبد الحق کا انتقال اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ہوا۔ نیز ان کی وفات پر یہ مزار بدھو نے ہی تعمیر کروایا۔ جب کہ سید محمد لطیف نے وضاحت کی ہے کہ چونکہ یہ مقبرہ بدھو نے تعمیر کروایا تھا۔ اس باعث یہ مزار بعض لوگوں نے اس مزار کو بدھو سے منسوب کردیا۔ مگر ان لوگوں کا یہ بیان درست نہیں ہے۔ خیر یہ تو واضح ہوا کہ بدھو کے حوالے سے مشہور یہ مقبرہ شیخ عبدالحق کا تو نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا مزار الگ سے موجود ہے۔ جبکہ سکھ لکھاریوں کے مطابق بدھو نے بطور تلافی گردوارہ تعمیر کروایا تھا۔ موجودہ انجینئرنگ یونیورسٹی کی جگہ پر پہلے سکھ نیشنل کالج ہوتا تھا۔ یہاں ایک گردوارہ تقسیم سے قبل تک موجود تھا۔ شاید اس کے کچھ آثار اب تک موجود ہیں۔ البتہ اس گردوارے کی قدامت کی بابت کچھ معلوم نہیں۔ ممکن ہے کہ اس کو بدھو ہی نے تعمیر کروایا ہو۔ لیکن اس گردوارے کا زیر تبصرہ مقبرے سے کچھ لینا دینا نہیں۔ نیز یہ بیان بھی درست نہیں کہ بدھو کا مقبرہ دراصل بھائی کملا کی سمادھ ہے۔ اس پر سب سے بڑی گواہی مقبرے کا طرز تعمیر ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی سمادھ نہیں ہے۔
بدھو سے منسوب اس مقبرے کے حوالے سے جو دوسری روایت ہے اس کا ماخذ تحقیقات چشتی ہے۔ نور احمد چشتی لکھتے ہیں کہ “افواہاً معلوم ہوا کہ یہ مقبرہ خان دوراں کا ہے۔ حال تیاری مقبرہ یہ ہے بحین حیات خان دوراں اہلیہ اس کی فوت ہوگئی تھی۔ اس کے واسطے اس نے یہ روضہ بنوایا تھا۔ جب خود قتل ہوا تو اس کے بیٹے نے اس میں اس کو دفن کردیا۔ وفات اس کی ١۰٥٣ھ (١٦٤٣ء) میں ہوئی۔” سید لطیف نے “تاریخ لاہور” میں صاحب تحقیقات چشتی کی ہی درج کردہ روایت کی تائید کی ہے۔ نیز خان دوراں کے حالات قدرے تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ مگر ان دونوں مصنفین سے ایک فاش غلطی سرزد ہوئی ہے۔ انہوں نے خواجہ صابر المعروف خان دوراں نصرت خان کے حالات کو اس مقبرے کے بیان میں بھی درج کردیا ہے۔ جبکہ انہی کے بقول اس کا مقبرہ ریلوے ورکشاپ کے اندر ہے۔ دراصل ان کو یہ تو معلوم ہوا کہ بدھو سے منسوب یہ مقبرہ خان دوراں کا ہے۔ لیکن ان کو تاریخ میں چونکہ کوئی اور خان دوراں نہیں ملا تو انہوں نے خواجہ صابر اور اس مقبرے میں مدفن شخصیت کے کوائف کو خلط ملط کردیا۔ محکمہ آثار قدیمہ کو بھی تحقیق کی زخمت نہیں ہوئی اور نور احمد چشتی و سید لطیف کے قول کو درست جانتے ہوئے, اس کو خان دوراں کا مقبرہ قرار دے دیا۔ ان سب کے بقول اس خان دوراں کا تعلق عہد شاہ جہان سے ہے۔ لیکن عجب ہے کہ فقط یہی “محققین” ان صاحب سے واقف ہیں، شاہ جہاں کا وقائع نگار تک کسی ایسی شخصیت کو نہیں جانتا۔
اب یہ واضح ہے کہ یہ مقبرہ شیخ عبدالحق کا نہیں۔ بدھو کا ہو نہیں سکتا کیونکہ ہندو و سکھ دونوں ہی دفناتے نہیں, لیکن راکھ کی سمادھ بنانے کا رواج البتہ ان کے ہاں ہے۔ لیکن مغل دور میں کسی ایسے شخص کا مقبرہ بنوانا جو کہ شاہی امراء میں سے نہ تھا ممکن نہیں۔ پھر مقبرے کا طرز تعمیر بھی لاہور کے دیگر مقابر کی طرح کا ہی ہے۔ یعنی کسی سکھ یا ہندو کا ہوتا تو یقیناً کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا۔ قوی روایت یہی ہے کہ بدھو کو اس کے مذہب کے مطابق جلایا گیا اور اگر اس کی سمادھ تھی بھی (گو کہ تاریخ میں کوئی ذکر نہیں) تو وہ اس کے آوے میں ہو گی۔ دوسرا گروہ اس کو خان دوراں کا مرقد بتلاتا ہے۔ لیکن شاہ جہان کے دور میں ایک ہی خان دوراں کا ذکر ملتا ہے اور وہ خواجہ صابر ہے۔ اس کا مقبرہ ریلوے ورکشاپ کے اندر موجود ہے, جس کا احوال ہم پہلے ایک مضمون میں بیان کر چکے ہیں۔ پھر یہ زیر تبصرہ مقبرہ ہے آخر کس کا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کا کہنا ہے کہ یہ مقبرہ دراصل شاہ بیگ کا ہے۔ شاہ بیگ کے تفصیلی حالات صمصام الدولہ نے تحریر کیے ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابراہیم بیگ چریک کا بیٹا ہے اور اس کا خطاب خان دوراں تھا۔ اکبر کے دور میں یہ مناسب منصب پر فائز تھا۔ اس نے بتدریج ترقی کی اور جہانگیر کے زمانے میں اہم عہدوں پر فائز رہا۔ صمصام الدولہ نے اس کی وفات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ مگر توزک جہانگیری میں جہانگیر لکھتا ہے “خان دوراں کی وفات کی خبر پہنچی کہ اس نے لاہور میں اجل طبعی سے وفات پائی۔ اس کی عمر تقریباً نوے سال کو پہنچ چکی تھی۔ وہ اپنے زمانے کا مشہور بہادر اور مرد میدان تھا۔ اس کی ذات میں شجاعت اور سرداری کے اوصاف جمع تھے۔ اس سلطنت پر اس کے بہت حقوق ہیں۔ مجھے امید کہ خدائے تعالٰی اس کو اہل مغفرت کے زمرے میں شامل کرے گا۔” مرزا معتمد خان “اقبال نامہ جہانگیری” میں خان دوراں پر جہانگیر کی عنایات کا یوں تذکرہ کرتا ہے ” (جب) کبر سنی و ضعف کی وجہ سے (اس نے) استعفا پیش کیا, شہنشاہ نے اس دولت خواہ قدیم کی خواہش پوری اور پرگنہ خوشاب جو اس کی قدیم جاگیر تھا اور ٧٥ ہزار روپے اس کی مال گزرای تھی, مدد خرچ کے لیے عنایت کیا۔ اس کے بیٹوں کو بھی حسب استعداد منصب و جاگیر دی گئی۔” شاہ بیگ المعروف خان دوراں کی لاہور میں وفات کی تائید ذخیرۃ الخوانین سے بھی ہوتی ہے۔ ان سب روایات کے پیش نظر راقم کے خیال میں یہ مقبرہ خان دوراں شاہ بیگ کا ہی ہے۔ کیونکہ بدھو, شیخ اسحاق و خان دوراں نصرت خان کا یہ ہے نہیں۔ چشتی و سید لطیف نے بھی یقیناً بزرگوں سے سنا ہوگا کہ یہ مقبرہ خان دوراں کا ہے۔ لیکن انہوں نے اِس کے حالات لکھنے میں غلطی کی ہے۔ شاہ بیگ کا لقب بھی خان دوراں ہے اور مستند کتب کے مطابق اس کی وفات بھی لاہور میں ہوئی۔ پھر اس کا شمار بھی اہم امراء میں ہوتا تھا, تو قرین قیاس یہی ہے کہ یہ مقبرہ خان دوراں شاہ بیگ کا ہو۔ نیز شاہ بیگ سے لاہور میں کوئی اور مقبرہ منسوب بھی نہیں۔ دوسری قبر ممکن ہے اس کی بیوی کی ہو جیسا کہ محکمہ آثار قدیمہ کی تختی پر لکھا ہوا ہے۔
اورنج لائن ٹرین منصوبے میں آنے کے باعث اس مقبرے کی حال ہی میں مرمت کی گئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ابا حضور کے ہمراہ یہاں حاضری دی۔ مقبرے کے داخلی دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ مجبوراً پھلانگ کر اندر جانا پڑا۔ یہاں بحالی کے کام میں یو ای ٹی نے بھی معاونت کی تھی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالرحمان صاحب کی تفصیلی ویڈیو بھی موجود ہے۔ لیکن یہ مقبرہ بحالی کے بعد جلد ہی دوبارہ بد حال ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اس کے قریب ہی بدھو کے آوے کی ایک یادگار بھی موجود ہے۔ جبکہ ایک متنازعہ قبرستان بھی نزدیک ہی ہے۔ ماضی میں یہاں مقبرے کے گر و نواح میں دیگر عمارات بھی تھیں۔ جن کی پہلی سختی رنجیت سنگھ کے دور میں آئی, جب یہاں اس کے اطالوی جرنیل ایوی ٹیبل یا اوی طویلہ نے کوٹھی بنوائی۔ انگریز دور میں یہ کوٹھی بھی مسمار کردی گئی۔ تھارٹن کے مطابق قدیم آوے کے علاوہ یہاں بارہ دری بھی تھی۔ اس کو مسمار کروا کے میاں میر چھاونی کی بیرکیں تعمیر کی گئی تھیں۔ یہ عمارات کس قدر وسیع تھیں ان کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ شیر سنگھ نے لاہور پر محاصرے کی غرض سے اپنی فوج کو اسی جگہ ٹھہرایا تھا۔ پھر تھارٹن کہتا ہے کہ تعمیرات کے انجنیئر کا خیال تھا, اس جگہ کے علاوہ اتنی بڑی تعداد میں اینٹوں کا حصول ناممکن ہے۔ جبکہ مقبرے کے متعلق وہ کہتا ہے کہ آوے کی یادرگار کے “قرب و جوار میں بدھو کے مقبرہ کی چھوٹی سی چھٹری اب شکستہ حالت میں ہے۔” محکمہ ریلوے نے بھی اس جگہ کو حسب توفیق نقصان پہنچایا۔
مقبرے کی عمارت کو دیکھا جائے تو اس کے طرز تعمیر اور اس سے چند قدم کے فاصلہ پر ہی موجود دائی انگہ سے منسوب مقبرے میں بے حد مماثلت ہے۔ دونوں کے ہی گنبد پر نیلی ٹائلوں سے کام کیا گیا ہے۔
اس جگہ کے حوالے سے ایک اور دلچسپ مگر بے بنیاد دعویٰ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ ہزارہ یونیسورسٹی کے ریسرچ جنرل “پاکستان ہیرٹیج” میں توقیر احمد و سامیہ طاہر صاحبہ نے بدھو کے آوے پر ایک مضمون لکھا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے نتیجہ نکالا ہے کہ اس جگہ کا نام بدھو کا آوا اس لیے ہے کہ یہاں ماضی میں بدھ سٹوپا تھا۔ سٹوپا شاید اینٹوں سے بنایا گیا تھا اور مقامی لوگ یہاں سے اینٹیں حاصل کرتے تھے۔ یعنی یہ ان کے لیے اینٹوں کی کان کی مانند تھا۔ اس لیے لوگوں نے اس کو بدھ کا آوا کہنا شروع کردیا جو کہ بگڑ کر بدھو کا آوا بن گیا۔ لیکن اس بات کی کوئی اصل نہیں اور یہ نتیجہ بالکل لایعنی ہے۔ پی ایچ اے نے یہاں ایک باغ تو لگایا ہے لیکن اس کی مناسب دیکھ بھال بھی لازم ہے۔ مقبرے کا رقبہ تقریباً ایک کنال چار مرلے ہے۔ جگہ اس قدر ہے کہ یہاں خوبصورت پودے لگائے جاسکیں۔ دو تین مرتبہ میرا یہاں سے گزر ہوا تو ہمیشہ اس کو مقفل ہی پایا۔ محکمہ آثار قدیمہ سے گزارش ہے کہ اگر مرمت کے بعد بھی ان جگہوں کو بند ہی رکھا جائے گا تو ان کی دوبارہ تباہی میں دیر نہیں لگے گی۔ براہ کرم اس کو ناصرف کھولیں بلکہ اس قابل بھی بنائیں کہ لوگ یہاں آئیں۔ نیز یہاں درست تاریخ پر مبنی تختی بھی لگائیں۔ تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس مقبرے کی زیارت کو ضرور جائیں۔ اور دیگر تاریخی مقامات کی بحالی کے لیے بھی آواز بلند کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply