فروٹ بائیکاٹ مہم اورمسئلے کا حل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فروٹ بائیکاٹ مہم زبردست طریقے سے جاری ہے، ابھی چار دن پہلے راولپنڈی کھنہ پل اڈے والے نے بتایا کہ کل والا فروٹ ہی آج دوگنی قیمت میں بیچا جارہا ہے کیونکہ آج یکم رمضان ہے یعنی سستا ملا ہوا پھل بھی مہنگے داموں فروخت ہورہا ہے۔ جب میں نے اڈے والے سے کہاکہ لوگ خریدنا چھوڑ دیں تو پھل سستا بھی ہوجائے گا۔۔۔تو اڈے والا کہنے لگا ،یہاں فروٹ مہنگا ہو تو زیادہ بکتا ہے، جو آپ کہہ رہے ہیں وہ یورپ میں ہوتا ہوگا، یہاں نہیں۔ الحمد للہ آج سوشل میڈیا کی بدولت پاکستان میں ایسا ممکن ہوا ہے، پرائس کنٹرول کمیٹی اے سی کا ریموٹ پکڑے دفتروں میں آرام فرما تھی، عوام نے غیرت کا مظاہرہ کرکے گراں فروشی کے خلاف اعلانِ جہاد کردیا۔اب پہلے ایک غلط فہمی دُور کرنی بڑی ضروری ہے،بہت سے احباب کا خیال ہے کہ بائیکاٹ سے نقصان ریڑھی والے کا ہوتا ہے، جب پیچھے سے ہی پھل مہنگا ملتا ہےتو وہ کیسے سستا بیچے، تو جناب ریڑھی والے کو کیلے ڈنڈے کے حساب سے ملتے ہیں ، وہ درجن کے حساب سے بیچتا ہے، تربوز ڈھیری کے حساب سے یا فی نگ کے حساب سے ملتے ہیں، فرض کریں 30 روپے فی نگ، اور جب وہ بیچتا ہے تو 30 روپے فی کلو، ایک نگ 4 کلو کا ہو تو 120 فی نگ۔۔

اسی طرح آلو ،پیاز، ٹماٹر، خربوزہ ، آڑو ، آم فی پیٹی کے حساب سے ملتے ہیں ، اگر ایک 14 کلو کی پیٹی 1500 کی ملتی ہے تو کم از کم 2500 سے زائد کی فروخت کی جاتی ہے ،پچھلے دِنوں برطانیہ سے ایک فیسبک فرینڈ کی سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں پر تحقیق میں اُن کی مدد کی ، جب میں نے منڈی میں جاکر سٹرابیری” کے ڈبے کی قمیت پوچھی تو جواب ملا اکیلا ڈبہ نہیں ملے گا، 200 کے 4 ڈبے ملیں گے ، اور جب وہی سٹرابیری منڈی سے 10 منٹ دور ایک دکان سے خر یدنے گیا تو 200 روپے فی ڈبہ فروخت ہورہی تھی،جبکہ کیلا ، سیب ، آم اور آڑو منڈی سے دوگنی قیمت پر فروخت ہورہے تھے ۔اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ منڈی سے ہی مال مہنگا ملتا ہے مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ دکاندار اور ریڑھی بان 200 فیصد سے بھی زائد منافع کی شرح پر مال فروخت کرتے ہیں ۔۔(یہی وجہ ہے کہ رات کے وقت خراب ہونے کے ڈر سے آدھی قیمت میں بیچ جاتے ہیں، اگر نقصان ہوتا ہو تو گھر کیوں نہ لے جائیں؟)۔اِس ساری صورتِ حال میں فروٹ مافیا کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرنے والے لوگ حقیقی طور پر معاشرے کے دوست ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مسئلے کا ایک حل تو یہ ہے کہ اہلِ خیر حضرات مختلف مقامات پر چھوٹی چھوٹی منڈیاں لگواکر روزہ دار بھائیوں کے لیے پھلوں کا بندوبست کریں ، جس میں بازار سے کم قیمت ہو، یعنی وہ اس پر کچھ سبسڈی دیں ، پھلوں کا کچھ خرچا جیب سے اُٹھائیں ، اس طرح جو بھی وہ پھل خریدے گا اُس کی افطاری کا اجر اُن صاحب کو مِلے گا۔دُوسرا حل یہ ہے کہ کوئی بھی صاحب ، دوست احباب اپنے اپنے علاقے میں مرکزی منڈی سے مال لاکر فروخت کریں، یعنی عارضی چھوٹی چھوٹی منڈیاں لگادی جائیں اور سارے اخراجات پورے کرنے کے بعد ایک خاص منافع بھی لیا جائے ، لیکن پھلوں کی قیمتوں میں واضع کمی ہونی چاہیے ۔ فرض کریں ایک بندہ روزانہ 25000 کا پھل فروخت کرے اور منافع صرف 16 فیصد بھی لے تو روزانہ 4000روپیہ بچا سکتا ہے۔ ناقدیں سوچیں کہ روزانہ 50،000کا مال بیچنے والا ریڑھی بان 200 فیصد سے زائد منافع پر کتنا بچاتا ہوگا۔۔۔وللہ میرے پاس پچاس ہزار ہوتے تو منڈ ی لگاکر یہ سٹیٹس لکھتا،ایک جملہِ معترضہ”پھل ہی کیوں؟۔۔۔تو جناب”اعتراض ہی کیوں؟”۔

Facebook Comments

اُسامہ بن نسیم
اُسامہ بن نسیم کیانی ۔ میں سول انجینئرنگ کا طالبِعلم ہوں، میرا تعلق آزادکشمیر سے ہیں ، کئی مقامی اخبارات اور ویب سائٹس کے لیے کالم نگاری کے علاوہ فیس بک پر مضامین بھی لکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply